مزاح نگاری اور جمہوری اخلاقیات
از، نصیراحمد
مزاح کی اخلاقیات کا تعین تو مزاح نگار خود ہی کرے تو بہتر ہے اور اگر وہ لکھا پڑھا ہو تو مزاح کی اخلاقیات کے بارے میں ایک ذمہ داری تو بنتی ہے۔ اب مزاح کسی ایسے تعصب کے فروغ کا ذریعہ بن جائے جس سے کسی کے انسانی حقوق مجروح ہوتے ہوں تو ہنسی کا لطف بھی مجروح ہوتا ہے اور پڑھنے والوں کی تربیت کا بھی نقصان ہوتا ہے۔
ایک فلم آئی تھی، شاید 2006 میں، بورات نام کی، جس پر مزاح اور اخلاقیات کے حوالے سے بڑی بحث ہوئی تھی۔ مزاحیہ تو یہ فلم بہت تھی لیکن مزاح اور اخلاقیات کے حوالے سے بہت ساری حدود کی شکست و ریخت کر دی گئی تھی۔ اس فلم کو جنھوں نے پسند کیا تھا انھوں نے اس شکست و ریخت کو اتنی اہمیت نہ دی مگر جو لوگ اس شکست و ریخت کا نشانہ تھے انھوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
اس میں قازقستان کی ثقافتی تعلیم کے نام پر بہت سے لطیفے موجود تھے، جو قازقستان کی حکومت نے پسند نہیں کیے اور فلم ساز بیرن کوہن کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔
ہم نے بھی وہ فلم دیکھی تھی اور دیکھ کر ہنسے بھی بہت تھے۔ پھر ہم نے سوچا اسے قازقوں کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس نکتہ نگاہ سے جو دیکھی تو اس فلم میں کئی اعتبار سے قازقوں کی ایسی سٹیریو ٹائپنگ کی گئی تھی، یا ان پر ایسی چھاپ لگا دی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ان کے بارے میں مثبت خیالات مرتب نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے لیے حقارت کے جذبات ابھرتے تھے۔
اس میں یہودیوں کے بارے میں بھی کافی توہین آمیز باتیں تھیں، جو فلم کا قازق کردار دھڑلے سے کہے جا رہا تھا اور اس کے امریکی ناظرین اس کے تعصب کی توثیق کیے جارہے تھے۔ اچھا ہوتا کہ فلم میں کوئی مثبت کردار کا حامل قازق بھی ہوتا۔
لیکن فلم، دوسری صنفوں اور دوسرے ذریعے ایک سماجی پیغام بھی ہوتے ہیں، ہمارے خیال میں تخلیقی تجربوں میں تعصب کو پیش کرتے ہوئے تعصب کی بے وقوفی اور سنگ دلی کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کہا جائے اور دکھایا جائے جس سے تعصب کے لیے پسندیدگی کے جذبات کی روک تھام کی جا سکے۔
فلم میں ایک طویل سیکس سین بھی تھا جس کی بے ہودگی ہنسی کا سبب تو بنتی ہے مگر اس سے قازقوں کی انسانیت مجروح بھی ہوتی ہے۔ اور مقبولیت کے لیے فنکار کا فن کو گرا دینا بہرحال اچھی بات نہیں ہوتی۔ پابندیوں کے ہم اتنے قائل نہیں ہیں لیکن گروہی بنیادوں پر تعصب کے خلاف ایک توانا رد عمل کی خواہش ہمارے دل میں رہتی ہے۔
زندگی لیکن پیچیدہ ہوتی ہے اور کبھی کبھار ہم لوگ کسی کمیونٹی کے بارے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیتے ہیں، کبھی نادانی میں اور کبھی داد خواہی کے شوق میں اور کبھی بر جستگی میں۔ لیکن ہم جو کوئی بھی ہوں، ہمارے تعصبات کے خلاف معاشرے میں ایک توانا رد عمل کی موجودگی ضروری ہے کہ تعصبات کے خلاف یہ توانا رد عمل معاشرے کی فکری زندگی کی عمدگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
کبھی کبھی مزاح نگاری کسی، فرد، صنف، مذہب، نسل، ذات اور قوم کے خلاف تحقیر کی مہم کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مزاح نگاری کے اس رجحان کی حوصلہ کرنے کے لیے معاشرے میں کم از کم چند آوازیں تو موجود ہونی چاہییں۔
اب ہمارے ہاں کے ایک مقبول مزاح نگار مشتاق یوسفی ہیں۔ فیس بک پر ان کے کافی بیانات چھپتے رہتے ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کچھ بیانات ہمیں کھٹکتے بھی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں یہ صنفی امتیاز کی مہم سی لگتے ہیں۔ یوسفی صاحب فلسفے کے طالب علم بھی رہے ہیں اور ان کی ایک کتاب زر گزشت ہمارے پاس موجود بھی ہے۔
اس کتاب میں ان کا ایک مضمون موصوفہ کے نام سے ہے۔ یہ مضمون ان کے دفتر کی کسی کولیگ کے بارے میں ہے۔ یوسفی صاحب یوں لکھتے ہیں، وہ ان عورتوں میں سے تھی، جن کو مل کر اپنے مرد ہونے کا احساس نہیں ہوتا، یعنی وہ عورت نہیں ہوتیں۔ ہماری نظر میں یہ تو بہت ہی متعصب اور توہین آمیز بات ہے۔ ایسا کسی میں کیا برا ہو جاتا ہے کہ اس کی شناخت کے بارے میں اتنی پست بات کریں۔
مطلب ہے کہ ذہن میں خواتین کے بارے میں کوئی سٹیریو ٹائپ موجود ہے، جس میں ہر عورت کا فٹ ہونا لازمی ہے۔ اب وہ خاتون ہے تو خاتون ہے، آپ کی اپنی مردانگی کے احساس سے تو اس کا خاتون ہونا تو منسلک نہیں ہے۔
یوسفی صاحب کو بعد میں اس سے عورت ہونے کی لپٹیں بھی آتی ہیں جب وہ بن ٹھن کر یوسفی صاحب کے مطابق اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے جاتی ہے۔ اب بننے ٹھننے سے صنفی شناخت نہ تو بنتی ہے اور نہ ہی مستند ہوتی ہے۔
اس طرح کی سوچ تو صنفی سانچا سازی کی وہ کوشش ہے جو خواتین کے امکانات کی تردید کرتی ہے۔ اس تعصب کے نتیجے میں ان کی مزاح نگاری اچھے الفاظ کی آڑ میں سستا مال بن جاتی ہے اور باتوں سے فلسفے کی گہرائی اور گیرائی نہیں جھلکتی۔ اور اردوئے معلی کی چاشنی کا لطف ختم ہو جاتا ہے کہ آپ جان لیتے ہیں اس ساری انشا پردازی کی تہہ میں انسانوں کی کثیر آبادی کی صنفی شناخت پر قبضہ کرنے کی آرزو ہے اور اس آرزو کی روک تھام اچھے معاشروں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
اب آپ کے ذہن میں خواتین کا ایک سانچا ہے اور اس سانچے کے بعد آپ کی مزاحیہ گفتگو ان تمام خواتین کے لیے بے رحمی بن جاتی ہے جو آپ کے مقرر کردہ سانچے میں فٹ نہیں ہوتیں۔
یہ تو تنگ دلی، تنگ ذہنی اور تنگ ظرفی کی دنیا ہے۔ اور اس دنیا کی توثیق نہیں کرنی چاہیے۔ سانچوں کھانچوں، ٹھپوں، چھاپوں کے تعصبات کے ساتھ مزاح نگاری ایک بے دردی سی بن جاتی ہے۔ اب یہ کھیلی کھائی، خفت مآب اور جملہ حقوق غیر محفوظ ہیں جیسی باتیں فن کی مزید گراوٹ کا سبب بنتے ہیں اور اس گراوٹ کا فن سے رشتہ توڑنا بہت ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے یوسفی صاحب نے بعد میں اپنی صنف اور شناخت پر قبضے کی آرزو کی کچھ روک تھام کر لی ہو، اور شاید اپنی اس آرزو کی کچھ تلافی بھی کر دی ہو لیکن زرگزشت کے اس مضمون کے حوالے سے اپنے فن کو جمہوری اور انسانی اخلاقیات سے انھوں نے بہت دور کر دیا ہے۔
یوسفی صاحب یا کسی دوسرے ادیب یا فلم ساز سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن خواتین کے خلاف معاشرے میں موجود تعصب نے ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور فرائض کو بے حد پامال کیا ہے اور ہمارے ذہن میں ہے کہ تعصب میں کمی اس کو چیلنج کرنے سے لائی جا سکتی ہے۔ اور شاید اس طرح کے چیلنجز کے نتیجے میں فلسفے کے آئندہ گولڈ میڈلسٹ فکر کی کسی بہتر سمت رواں دواں ہونے ہمت کر لیں۔
ہراسانی پر آج کل اخباروں اور سوشل میڈیا میں بہت بات چل رہی ہے اور ہراسانی بھی صنفی شناخت پر قبضہ گیری کی خواہشات جیسے تعصبات سے ہی فروغ پاتی ہے اور کہیں نہ کہیں انھی تعصبات کے شکار کسی مرد کو کوئی سگریٹ پیتی عورت خواہ مخواہ ہی کھیلی کھائی لگنے لگتی ہے۔ اور پھر کوئی ناروا واقعہ ہو جاتا ہے۔
کامریڈ لینن کہتے تھے کہ ہر چیز ہر چیز سے جڑی ہوتی ہے۔ کامریڈ لینن کے تو آپ کو پتا ہی ہے ہم بیری ہیں لیکن لگتا ہے دشمن سچ کہہ رہا ہے (ھاھا)۔ ہمارا کہنے کا مطلب ہے کہ اگر فن، ہنر اور کام سے جمہوری اور انسانی اخلاقیات منسلک ہو جائیں تو فن، ہنر اور کام کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔ ورنہ اگر کامریڈ لینن کی طرح بدی کو فلسفے سے جوڑ دیں گے تو انسانیت کے لیے بہت خوف ناک نتائج ثابت ہو سکتے ہیں۔
جمہوری اخلاقیات اور انسانی حقوق سے منسلک مزاح سازی کی اچھی مثالیں بھی موجود ہیں جیسے چارلی چپلن کی ہٹلر کا تمسخر اڑاتی فلم ڈکٹیٹر۔ اس فلم میں ایک خاص بات یہ ہے کہ فلم تمسخر سے اوپر اٹھتی ہوئی، انسان دوست فلسفے کا ایک شاندار پیغام بن جاتی ہے۔