ہمپٹی ڈمپٹی کی بے بسی سے لطف کشید کرتا رویہ کیسے تشکیل پاتا ہے؟
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
بچپن میں جب میں ہمپٹی ڈمپٹی کی نظم پڑھتا اور سنتا، تو ہمپٹی ڈمپٹی کے انجام پر دکھ ہوتا۔ بے چارا دیوار سے گرا، اسے چوٹ لگی اور اس طرح ٹوٹ گیا کہ اب جڑ بھی نہیں سکتا۔ اس کی بے بسی پر مجھے رونا آتا۔ ان احساسات کے ساتھ جب ماحول میں دیکھتا تو ہر کوئی اس کہانی سے لطف لیتا نظر آتا۔ مجھے سمجھ نہ آتی اس ٹریجڈی میں لطف کی کیا بات ہے۔ اسے لہک کہک کر کیوں گایا جاتا ہے۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی بچوں کی نظموں کی کتاب، جھولنے ادبِ اطفال میں ایک ادبی شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ بچوں کی نفسیات اور مزاج کے اعتبار سے اس سے بہتر نظموں کا مجموعہ میں نے نہیں دیکھا۔ لیکن اس مجموعے میں بھی ایک نظم ہے جس میں کہا گیا ہے چیونٹی کاسر پھوڑ دو، چلاّئے تو چھوڑ دو؛ سانپ کی دم مروڑ دو، چلاّئے تو چھوڑ دو ۔
اس نظم میں بیان کی جانے والی بے حسی اور اذیت پسندی، بچپن کی فطری معصومیت اور حساسیت کے بر عکس نا محسوس طور پربچوں کے اذہان میں داخل ہو کر ان کی شخصیت کا حصہ بننے لگتی ہے۔
شاید اِسی سے متاثر ہو کر میں نے کچھ چیونٹیوں کے سر پھوڑے بھی۔ لیکن سر پھوڑنے کے بعد محسوس کیا کہ وہ مرتے ہوئے چِلاّ رہی تھیں، مدد کو پکار رہی تھیں۔ ان کی ساتھی چیونٹیوں کو ان کی مدد کو آتا بھی دیکھتا تھا، وہ مگر فقط ان کی لاش ہی اٹھا کر لے جا سکتی تھیں۔
بچوں کے ادب میں اس طرح کے رجحانات کے بارے میں میرا یہ احساس اس وقت دو بارہ تازہ ہوا جب میرے بیٹے نے اونٹ اور گیدڑ کی کہانی سنتے ہوئے جب یہ سنا کہ تربوز کے کھیتوں میں گیدڑ کا حسبِ عادت اپنی مخصوص آواز نکالنے پر اونٹ کو کھیت کے مالک سے مار پڑی تو اونٹ نے اس کے بدلے میں اپنی پُشت پر بیٹھے گیدڑ کو دریا پار کرتے ہوئے پانی میں ڈبو کر مار دیا، تو بیٹےنے کہانی کے مرکزی خیال، یا اخلاقی سبق سے قطع نظر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اتنی سی بات پر اونٹ نے گیدڑ کی جان لے لی، یہ اس نے ٹھیک نہیں کیا!
جب ہم بغیر کسی تبصرے کے یہ کہانی سناتے ہیں تو کیا اپنے بچوں کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ برائی کا بدلہ اس سے زیادہ برائی سے دیا جانا درست ہے؟ وہ سبق جو فِکشن کی راہ سے لا شعور میں جگہ بناتا ہے، اسے وعظ و نصیحت کی شعوری کوششوں سے کھرچنا اتنا آسان نہیں ہوتا جب کہ یہ کہنانیاں بھی قابلِ قبول صورت میں سماعتوں میں مسلسل انڈیلی بھی جا رہی ہوں۔
اسی طرح روبن ہُڈ کے ہیرو ازم کی کہانی سن کر، اس کے اقدامات پر بھی میرے دونوں بیٹوں میں بحث ہو گئی۔ ان کی بچگانہ بحث کو میں بالغوں کی زبان میں لکھوں تو کچھ یوں بنتی ہے کہ ایک نے کہا کہ رابن ہُڈ کا طریقہ درست نہ تھا۔ امیروں کو لوٹنا کسی کی مدد کے لیے بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ دوسرے نے کہا کہ بادشاہ اور اس کے ساتھی اُمَراء ظالم تھے، لوگوں کی ضرورتوں کی پروا نہیں کرتے تھے۔ لوگ بھوکوں مر رہے تھے۔ اس لیے قانون ہاتھ میں لینا ہی واحد آپشن رہ گیا تھا۔ رابن ہڈ لوٹا ہوا مال و دولت غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا، یہ اچھی بات ہے۔
پہلے نے کہا کہ لیکن وہ تو ہر امیر آدمی کو لوٹ لیتا تھا اس کو بھی جو بادشاہ کا ساتھی نہیں بھی تھا۔ دوسرے نے کہا کہ گیہوں کے ساتھ گھن تو پھر پِستا ہی ہے۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ خدائی فوج دار بننے اور اصلاح کے لیے قانون ہاتھ میں لینے کا یہ تصور اس قسم کی کہانیوں کی بَہ دولت ہمارے بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں موجود ہوتا ہے جسے شعور کی عمر کو پہنچ کو جمہوریت، قانون کی بالا دستی وغیرہ جیسے تصورات کے ذریعے سے نکالنے میں کبھی کام یابی ہوتی ہے، اور کبھی نہیں۔
اسی تصور کو لے کر کچھ لوگ ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں اور یا کچھ لوگ اس قسم کے جذبات بھڑکا کر بغاوت کے رجحانات کو مہمیز دیتے ہیں۔ یوں نا انصافی سے مزید لا قانونیت کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ (رابن ہڈ میرا آئیڈیل ہوا کرتا تھا، اور آج میں نظام کے استحکام کو اوّلیَّت دیتے ہوئے اصلاح کے تدریجی طریقۂِ کار کو دیر پا اصلاح کا واحد راستہ سمجھتا ہوں۔)
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سماج کس طرح اپنی ثقافت اور سماجی رویّوں میں پائے جانے والے غیر مطلوب عناصر کو نہ صرف انجانے میں، بَل کہ، ادبِ اطفال کی کہانیوں اور نظموں کی صورت میں با قاعدہ طور پر بچوں کےاذہان میں انڈیلتا ہے۔ ان تصورات کا اظہار ہر جگہ ظہور کرتا ہے جس کی اصلاح اور تدارک اور اس سے ہونے والے نقصانات کی صورت میں سماج کی مزید توانائیاں اور وقت کا زیاں ہوتا ہے۔
اس سے جس روَیّے کی تشکیل ہوتی ہے وہ خالص سفاک نہین ہوتا۔ ایسا ہوتا تو معاملہ نسبتاً آسان ہوتا۔ بل کہ ہوتا یہ ہے کہ بہت سے اچھی اچھی باتوں کے درمیان یہ تھوڑی بہت سفاکیت اور اذیت پسندی ادب و ثقافت کے ذریعےسے شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے، حتیٰ کہ ایک قومی مزاج اس سے تشکیل پاجاتا ہے۔
زبان، ادب اور ثقافت سے ملنے والی یہ تربیت ان منفی رجحانات کو ایک راستہ فراہم کرتی ہے۔ اب یہ سفاکیت اور اذیت پسندی جس فرد، یا گروہ میں جتنی جگہ بنا لے، کیا کہا جا سکتا ہے۔
سوئے ہوئے کتے کو پتھر مارنا، بے ضرور کیڑوں مکوڑوں کو بلا وجہ کچل ڈالنا، پاگلوں مخبوط الحواس افراد کو چھیڑ کر، انھیں ستا کر ان کی گالیوں اور فریاد و فُغاں سے لطف لینا، اپنے مخالف کی مصیبت پر خوش ہونا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے با اختیار اہل کاروں میں ملزموں اور مجرموں، بل کہ، عام لوگوں کے لیے اذیت پسندی کے رجحانات کا پایا جانا، سکولوں میں طلبہ کا bullying کرنا، دوسرے طلبہ کو ستا کر لطف لینا، یہ سب اور اس جیسے تمام منفی مظاہر ہمارے اچھے پَن کے ساتھ اس طرح گندھ جاتے ہیں کہ ہم انھیں اپنی اجتماعی شخصیت سے علیحدہ کر کے دیکھ نہیں پاتے اور انھیں ایسے قبول کر لیتے ہیں جیسے اپنی کسی بھی دوسری خوبی کو جو تعلیم و تربیت کے انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔
سفاکیت، بے حسی اور اذیت پسندی کے رویے ہمارے روزمرہ زبان، محاوروں، لوک داستانوں، زبان زدِ عام نعروں وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یوں یہ منفی رویے سماجی اجازت سے ہماری اجتماعی شخصیت کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔
اگر ہمیں یہ سب درست کرنا ہے، اپنی آئندہ نسلوں کو بہتر انسان دیکھنا ہے تو ہمیں رسمی اور غیر رسمی تعلیم و تربیت کی ہر سطح پر اپنی زبان، نصاب محاوروں، لوک داستانوں خصوصاً بچوں کے ادب کا کڑا جائزہ لے کر ایسے منفی رجحانات کی حوصلہ افزائی، یا لطف کیشی کرنے والے عناصر کی تنقیح کرنا ہو گی۔