بھوک کی کتیا
کہانی از، عرشی یاسین
“لے یہ کھا لے،” مَلکی نے کیلے کا چھلکا اپنے بچے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اس وقت بچے کی بھوک مٹانے کے لیے اُس کے پاس کچھ اور نہ تھا۔ بچے نے ماں کے ہاتھ سے چھلکا لیا اور کترنے لگا۔
ھاتھ میں کیلےکاچھلکا، ناک سے بہتی غلاطت، جسم پہ لباس کے نام پر اس کی میل زدہ رنگت سے مشابہ گرد آلود مٹیالی قمیض، پاؤں جوتے سے عاری۔
کچرے کے ڈھیر کے پاس وہ ننھا سا بچہ انسان ہونے کےحسین خیال کے بد صورت زوال کی تصویر بنا کھڑا تھا۔
مَلکی اسے چھلکا تھما کر اپنے کام میں جُت گئی۔ وہ اکثر اسی ڈر سے چھلکے سنبھال لیتی اگر کچھ کھانے کو نہ ملا تو بھوک کی کتیا کے آگے یہ چھلکے ہی ڈال دے گی۔
کتیا مسلسل بھونکے جا رہی تھی اور کھانے کو کچھ نہ ملا تھا۔ ورنہ اس کا اُجاڑ حلیہ دیکھتے ہوئےکوئی نہ کوئی ثواب کی نیت سے کچھ نہ کچھ اس کو دے جاتا۔
ڈھلکے ہوئے نسوانی جسم پر نارنجی مردانہ قمیض، سیاہ شلوار، جن کے اصل رنگ کو زمانے کی گرد نے دھندلا دیا تھا۔ کندھوں سے اوپر مہندی سے رنگے بال جو کے شاید کئی ہفتوں سے نہ دھلنے کی وجہ سے اکڑے ہوئے تھے، جنہیں دیکھ کر کراہت کا احساس ہوتا۔ اس کی رنگت دھوپ کی تمازت سے جھلس چکی تھی۔
زندگی کی تلخیوں نے چہرے کے نقوش میں عجیب سی سختی بھر دی تھی جس نے چہرے کو وحشت زدہ بنا دیا تھا۔ آنکھوں کی سرخی نے اس وحشت میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔
زندگی کی گاڑی میں جتی گدھا مَلکی سارا دن آس پاس کے علاقے سے اپنے میلے کچیلےتھیلے میں کاڑ کباڑ جمع کرتی اور اُسے فیکٹری ایریا کے کباڑی کے پاس بیچ آتی۔ سارا دن کی مشقت کا صِلہ اسے پندرہ سے بیس روپے کی شکل میں ملتا۔
کتیا مسلسل بھونک رہی تھی۔ اس کی بھونک سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ انتڑیوں کو کاٹ رہی ہے۔ اچانک ایک گاڑی آ کر رُکی۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی بچی نے دُور سے ہی آواز لگائی “لے لو یہ!”اس کے ہاتھ میں کھانے کا ڈبہ تھا۔
مَلکی فورًا اس کی طرف بھاگی اور ڈبہ اس کے ہاتھ سے اُچک لیا۔ اس نے بچی کی پاس پڑی ہوئی پانی کی بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “پانی۔”
“ بس بس، جاؤ!” ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے صاحب نے اپنا ہاتھ ونڈوکرینک ہینڈل کی طرف بڑھاتے ہوئے ایک رعونت بھری آواز میں کہا۔ اپنے حصے کی خیرات وہ اپنی بچی کے ہاتھوں کر چکا تھا۔
مَلکی پانی دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور ونڈو سے ہی اندر کی طرف جھکتے ہوئے بوتل کی ہاتھ بڑھا دیا۔ بچی بھیانک حلیے کی عورت کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر گھبرا گئی اور بد حواس ہو کر چیخنے لگی۔
باپ نے فورًا بچی کا دفاع کرتے ہوئے اس کا منہ بے رحمی سے دبوچا اور زور سے پیچھے کی طرف دھکا دے دیا۔ وہ لڑکھڑاتی تپتی سڑک پر جا گری اور گرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کھانے کا ڈبہ بھی چھوٹ گیا۔ اس میں موجود سب کھانا کچرے کا حصہ بن گیا اور گاڑی اس میں مزید دُھول شامل کرتے ہوئے نکل گئی۔
اگلے ہی لمحے وہ کتیا کھانے پر لپکی اور کچرے میں سے کھانا چننے لگی۔