حسن عمل
از، نصیر احمد
ٹیچر: علی تم کیوں گم سم بیٹھے ہو؟ کیا بات ہے؟
علی: کچھ نہیں سر، آج ایک واقعہ دیکھا ہے، ٹیلی ویژن کی خبروں میں، اس نے پریشان کیا ہوا ہے۔
ٹیچر : ایسا کیا تم نے دیکھ لیا۔
علی: کیا بتاؤں سر؟ بہت سارے آدمی ایک لڑکے کو بے دردی سے پیٹ رہے تھے، لاتیں، مکے، گھونسے، اینٹ پتھر، ڈنڈے گولیوں کی آوازیں اور کافر کافر کا ایک مسلسل شور، سب دیکھ سن کر میرا دل چاہتا ہے کہ گھر سے، ملک سے، شہر سے کہیں دور بھاگ جاؤں۔
ٹیچر: اوہ ، تمھیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ خبریں نہ دیکھا کرو۔ خبریں دکھانے والوں کو تمھاری عمر، تمھاری ذہنی صحت اور تمھاری تربیت کا کچھ خیال نہیں ہے لیکن بیٹا جب بڑے نادان ہو جائیں، تو بچوں کو عقل مند بننا پڑتا ہے۔
علی: پھر دنیا کے بارے میں آگاہی کیسے ہو گی۔
ٹیچر: اس کے لیے میں تمھیں چند اخباروں اور ویب سائٹس کے بارے میں بتا دیتا ہوں، جہاں ابھی خبر دینے کا معیار کافی بہتر ہے اور وہ خبر دیتے وقت تمھاری عمر کے لوگوں کے احساسات کا دھیان رکھتے ہیں ۔ اور رہی ملک چھوڑنے کی بات، وہ فیصلہ تم اس وقت کر لینا جب تم اس فیصلے کے قابل ہو جاؤ۔ویسے تم کس ملک جانا پسند کرو گے؟
علی: امریکہ میں، وہاں پہلے ہی سے میرے رشتہ دار رہتے ہیں۔
ٹیچر : امریکہ ،اچھا ملک ہے، چلو تمھیں میں وہاں کے ایک لمبے تڑنگے ،ہنستے ہنساتے ،محنتی سے ایک لڑکے کی کہانی سناتا ہوں۔کیا تم سننا پسند کرو گے؟
علی: : جی سر، کیوں نہیں؟ آپ کی کہانی کے تو ہم سب منتظر رہتے ہیں۔
جیسے میں نے کہا یہ لڑکا سیدھا سادہ، ہنستا ہنساتا ایک محنتی لڑکا تھا جسے دوسروں کی مدد کرتے وقت بہت خوشی ہوتی تھی۔ وہ لکڑیاں کاٹتا تا کہ وہ گھروں کے گرد لکڑی کی باڑیں لگا سکے۔کھیتوں میں محنت مزدوری کرتا تاکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش میں اپنے بابا کی مدد کر سکے۔
اس کی امی اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں، جن سے اسے بہت پیار تھا اور لوگ کہتے ہیں ان کی وفات سےاس کی زندگی میں غم کا ایک احساس بھی شامل ہو گیا تھا جس کو پہچاننا اس کا چہرہ دیکھنے والوں کے لیے اتنا مشکل نہ تھا۔
یہ تقریبا آج سے تین سو سال پرانی بات ہے۔ اس لڑکے کے ماں باپ اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اس کی امی کو اس کی تعلیم کا خیال تھا۔ لیکن سکول ان کے گھر سے بہت دور تھا۔ بہرحال ،اپنی امی کی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے وہ میلوں پیدل چل کر سکول جاتا اور جتنی محنت اور توجہ سے وہ کام کاج کرتا اتنی ہی محنت اور توجہ سے وہ پڑھتا لکھتا بھی تھا۔
اسی طرح پڑھتا لکھتا،ہنستا کھیلتا اور محنت مشقت کرتا وہ کچھ بڑا ہو گیا۔ اس کے بابا نے دوسری شادی کر لی تھی اور اس کی اپنی نئی امی سے بھی بڑی دوستی تھی۔ اتنے عرصے میں اس کی بہن کی شادی بھی ہوئی اور وہ بھی فوت ہو گئی۔ لڑکے کو اپنی بہن کے شوہر اور اس کے گھر والوں سے بڑا گلہ رہتا کہ انھوں نے لڑکے کی بہن کا کچھ خیال نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ مر گئی۔
اپنی بہن کی ناگہانی موت سے لڑکے کے دکھ بڑھ گئے تھے لیکن دکھوں کے بڑھنے کے ساتھ اس کی دکھوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن وہ پڑھتا لکھتا رہتا، مزودری بھی کرتا رہتا اور گاؤں کے لوگوں کے لیے طرح طرح کے لطیفے بھی گھڑ کر انھیں ہنساتا رہتا۔
محنت نے اس نیک دل اور مہرباں لڑکے کی کام کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ اب وہ مکان بھی تعمیر کر سکتا اور لکڑی کی پختہ اور پائیدار کشتیاں بھی بنا لیتا تھا۔ اور تھوڑا بہت جو پڑھتا لکھتا تھا، اسے پر سوچتا بھی رہتا جس کے نتیجے میں وہ کافی سیانا بھی ہو گیا۔
اس کی یہی خوبیاں دیکھ کر اس کے بابا نے اسے ایک کشتی پر اس کے ایک ہم عمر لڑکے کے ساتھ نزدیکی شہر نیو اورلینز بھیج دیا۔ ان کی کشتی میں موجود سامان جیسے گوشت، آٹا، شراب، رسیاں اور کپاس بیچنے کی اور اور نیو اورلینز سے کچھ اشیا خرید کر لانے کی ذمہ داری دونوں لڑکوں کو سونپ دی گئی۔
اس وقت کے امریکہ میں غلامی کا ادارہ موجود تھا۔ یعنی انسانوں کی خریدو فروخت۔ دور دراز کے افریقی ملکوں سے کالی رنگت کے لوگ جہازوں میں جانوروں کی طرح باندھ کر امریکہ میں لائے جاتے تھے اور جانوروں ہی کی طرح ان کو کھیتوں میں کام کرنے کے لیے یا دوسری مزدوریاں کرنے کے لیے بیچا جاتا تھا۔
اس سارے کاروبار کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی اور حکومتی سرپرستی اور معاشرے کے امیر لوگوں کی چھاؤں میں بدی اکثر عام اور روزمرہ ہو جاتی ہے اور بدی سے متعلق انسانی احساسات انسانیت سے دور ہو جاتے ہیں جس کے لیے انسانوں کی انسانیت کی مختلف قسم کے بہانوں سے تردید کی جاتی ہے۔ اور حکومت اور امیر لوگ اس طرح کے بےچاروں پر غیر انسانی ٹھپے اور چھاپے لگانا شروع کر دیتے ہیں جو اس قدر عام ہو جاتے ہیں کہ امیر یا غریب کسی کی بھی مشترکہ انسانیت کی طرف توجہ ہی نہیں جاتی۔
اور یہ بہانے اور یہ جواز ان مظلوم لوگوں کے بارے میں کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں۔ کہ یہ لوگ اس لوگ اس سلوک کے مستحق ہیں کیونکہ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ خدا نے انھیں صرف گورے لوگوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان میں عقل کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ان کو امیر لوگوں کی رہنمائی کی ہر وقت ضرورت ہے۔
اور اس طرح کی بات سارے جھوٹ پھیلا کر اپنی زیادتی کے بارے میں اچھے احساسات رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن ہر وقت اور ہر زمانے میں ہمیشہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بدی کا اصل روپ جانتے ہیں۔
بیٹا ، غلامی دنیا میں بہت مدت سے موجود رہی ہے اور بہت ساری قومیں غلامی کا کاروبار کرتی رہی ہیں۔ اب بھی اگرچہ دنیا میں غلامی سرکاری طور پر منع کر دی گئی ہے لیکن اس پابندی کے باوجود غلامی کی بہت سی شکلیں دنیا میں موجود ہیں۔ غلامی در اصل امتیاز کی ایک شکل ہے اور جب آب کسی کو مذہب یا رنگت ،ذات پات، قوم ،کمیونٹی یا اور کسی وجہ سے اس کے انسانی حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، آپ بدی کے قریب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بیٹا اپنی ذاتی ناپسندیگی کو کبھی کسی کے انسانی حقوق مجروح کرنے کے لیے نہ استعمال کرنا، اس طرح تم نیکی کھو بیٹھو گے اور جس طرح کے ہجوم آج تمھیں دکھ کا شکار کر دیتے ہیں، تم بھی کسی بے بنیاد غصے کے اثر میں ایسے ہی کسی ہجوم کا حصہ بن جاؤ گے۔
خیر، اس وقت کا امریکہ اگرچہ ایک جمہوری ملک تھا لیکن وہاں کی جمہوریت نے بھی کالی رنگت کے انسانوں کی انسانیت کا انکار کر رکھا تھا ،جس کی وجہ سے امریکہ میں کالوں پر ہر قسم کے ظلم وستم ڈھائے جاتے تھے اور اس بے رحمی کو زندگی کی ایک حقیقت سمجھا جاتا تھا ،جس کو حکومت اور کاروباری لوگوں کی خودساختہ دانائی کی سرپرستی حاصل تھی۔
مگر اس وقت کے امریکہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو حکو مت اور کاروباریوں کی دانائی سے متفق نہیں تھے اور اس ظلم وستم کے خلاف احتجاج کرتے رہتے تھے لیکن یہ لوگ تعداد میں انتہائی کم تھے اس لیے ان کے احتجاج سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب وہ لڑکا گوشت، آٹا، شراب اور دیگر اشیا بیچنے کے لیے نیو اورلینز وارد ہوا اور جب دونوں لڑکے خریدو فروخت سے فارغ ہوئے تو جیسے لڑکوں کاہوتا ہے،وہ ذرا تماشہ دیکھنے کے لیے شہر کی مٹر گشت کرنے لگے۔پھرتے پھراتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں غلاموں کی منڈی لگی ہوئی تھی اور کالی اور سرخ رنگت کے غلاموں کے سودے ہو رہے تھے۔
وہ غلام زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، ان کو آنے جانے والے گالیاں دے رہے تھے، اور ان کے بیچنے والے ان پر کوڑے برسا رہے تھے۔ اور کچھ بے رحم لوگ ایک لڑکی کو مارتے پیٹتے اسے گھوڑوں کی طرح دوڑا رہے تھے تاکہ خریدار اس کو اچھی طرح سے جانچ پرکھ سکیں۔یہ ظلم و ستم دیکھ کر ہمارا یہ ہنستا کھیلتا لڑکا بہت اداس اور پریشان ہو گیا جیسے تم ٹیلی پر ظلم وستم کا ایک منظر دیکھ کر پریشان ہو گئے ہو۔ اس نے اسی اداسی اور پریشانی میں اپنے دوست سے کہا کہ اگر کبھی مجھے زندگی میں موقع ملا تو اس بے رحمی کا میں خاتمہ کر کے دم لوں گا، ابھی تو میں لڑکا ہی ہوں، ابھی اس جگہ سے ہٹ کر کہیں اور چلتے ہیں۔ اور وہ دونوں اس منڈی دور چلے گئے۔
پھر برس گزرتے چلے گئے، وہ ہنستا کھیلتا لڑکا، پہلے دکاندار بنا، پھر سیاستدان بنا۔ ہمارے ہاں بھی ایک ایسی لڑکی ہے جسے ہم ملالہ کے نام سے جانتے ہیں، جوتعلیم کے حق میں آواز اٹھا کر شدید زخمی ہو گئی تھی لیکن اب صحت یاب ہو کر وہ بھی پڑھ لکھ کر کچھ بن رہی ہے۔ خیر وہ لڑکا کافی عرصہ سیاست اور وکالت کرتا رہا اور ایک دن امریکہ کا صدر بن گیا۔ اور جب وہ امریکہ کا صدر بنا تو امریکہ میں غلامی پر اس قدر زوروشور سے بحث جاری تھی کہ ملک کی سلامتی خطرے میں پڑی ہوئی تھی۔ جنوبی ریاستیں، غلامی کے ادارے کو برقرار رکھنا چاہتی تھیں اور شمالی ریاستیں غلامی کےخاتمے کی خواہاں تھیں اور ملک سے علیحدگی کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔ اور وہ لڑکا جو بوڑھا ہو کر صدر بن گیا تھا، غلامی کے خاتمہ چاہنے والے امریکیوں کا رہنما تھا، اسے صدر ابراہام لنکن کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ اس کی قیادت امریکہ نے ایک لمبی خانہ جنگی کے بعد اپنی سلامتی کا بھی تحفظ کر لیا اور غلامی کا خاتمے کا اعلان بھی کر دیا۔ غلامی کے خاتمے کی بھی ایک صدی سے زیادہ عرصے کی لمبی کہانی ہے لیکن ابراہام لنکن کا غلامی کے خاتمے کا اعلان اس کہانی کا سب سے اہم ترین موڑ ہے۔
علی: سر ،کہانی سنانے کا بہت بہت شکریہ، مگر کیا میں یا میری عمر کے لڑکیاں لڑکے، ابراہام لنکن کی طرح کچھ بن سکتے ہیں، کچھ کر کے دکھا سکتے ہیں اور دنیا میں کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔
ٹیچر: بیٹا، اس کا دارومدار علم، ہمت، اور ارادے کے استحکام کے ساتھ حالات پر بھی ہے لیکن جیسے کسی نے کہا تھا، اچھے شہر کا مستحق ہونے کے لیے اچھے شہری بننا شہریوں کا ایک فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ امید ہے اس اچھے لڑکے کی طرح تم سب لڑکے لڑکیاں جمہوریت اور انسانی برابری کی طرف اچھے فیصلے کر پاؤ گے۔ اور دعا ہے حالات بھی تم لوگوں کے لیے کچھ سازگار ہو جائیں کہ اچھے فیصلوں کے عام ہونے کی کچھ گنجائش بھی رہ جائے۔