ابن عربی کا روحانی فیضان
از، غلام شبیر
ابنِ عرَبی علم اور معرفت میں امتیاز کرتے ہیں؛ بل کہ آخرُ الذِّکر کو بلند مقام دیتے ہیں۔ ان کے ہاں معرفت بَہ راہِ راست خدا کی دین ہے جس کا ذریعہ کَشف، مشاہدہ اور روحانی بصیرت ہے۔
معرفت، علم کی وہ شکل ہے جو روح کی پاکیزگی اور روحانی عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کا حصول کتاب پڑھنے، یا کسی استاد سے اِکتِساب سے ممکن نہیں۔ اس لیے ابنِ عربی صوفیاء کو روشن نُفُوس کہتے ہیں جو علمِ معرفت اور اس کے حامل عارفین کو جانتے ہیں۔
انسان میں کائنات کی بکھری چیزوں سے مشابہت اختیار کرنے کی صلاحیت ہے جو بَہ ذاتِ خود انسان کی تخلیقی فطرت کا ثبوت ہے۔
ابن عربی کے نزدیک پہلے پہل یہ کائنات غیر منقسم تھی۔ یہاں پر کوئی سرگرمی نہ تھی۔ پھر اس نے اس پوری کائنات میں اپنے خدائی حکم سے اپنی مقدس تجلی ڈالی جس کے بعد موجوداتِ عالم خدائی ہو گیا۔
حضرتِ آدمؑ میں خدائی روح پھونکنے کی وجہ بھی یہی تھی: یعنی کہ خدا اپنا آپ ظاہر کر سکے۔ گویا یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انسان اپنے شعور اور تخلیقی فطرت سے ذاتِ باری تعالیٰ کو جانتا ہے۔
ابتداء ہی سے اِس میں تخلیق کی روح پھونکی گئی، جس کے بعد اسے قوموں اور قبائل میں تقسیم کر دیا گیا اور یوں انسان کی اس تخلیقی فطرت کو خدا کی طرف ترغیب کا ابتدائی اور اہم عُنصر بنا دیا گیا۔
ابن عربی کے روحانی فیضان سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کا عمل شعور کو جگا کر اسے نشو و نما دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کا مقصدِ حیات قرآنِ مجید میں خدا کے اس بیان کی طرف مراجِعَت کرنے سے بتاتے ہیں: فاطر السمٰوات و الارض
القاموس الجدید عربی۔اردو لغت میں فاطر کا مطلب پیدا کرنے والا، شَق کرنے والا کے ہیں؛ یعنی کہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا یا علیحدہ کرنے والا۔
اب اگر دیکھا جائے تو اس کائنات یعنی آسمانوں و زمین اور اس میں شامل موجودات میں خدائی خاکے ہیں، یا اس کا عکس ہے، اور اسی طرح انسانیت میں اس کا عکس، یا خاکہ ہے یعنی ابن عربی کے نزدیک انسان خدا کا مظہر ہے۔
اسی طرح یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی محرک کی وجہ یہی تخلیقی عمل ہے اور یہ کہ تخلیق کی ابتداء ہی میں ہر بچے نے خدا کے ہاں ایک عہد کیا تھا؛ مذہب کو منطقی رنگ دینے سے پہلے پہلے۔
اسی طرح یہ بات حدیث میں بھی آئی ہے کہ بچے اپنی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں؛ یہ ان کے والدین ہوتے ہیں جو انھیں عیسائی، یہودی، یا مجوسی بناتے ہیں۔ جو اپنی اسی فطرت کی بناء پراس خدائی یک رنگی اور اور انسانیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اسی طرح یہ کہ خدا کی یہ تجلی موجودات کائنات کی فطرت کا خاصہ ہے۔
نظریۂِ وجود میں موجودات کی فطرت میں کمپوزیشن اور اس کی بڑھوتری پائی جاتی ہے۔
عربی میں وجود کا مطلب پانا یا ملنا کے ہیں۔ خالص وجود کی نسبت اکیلے خدا کی طرف ہے، جب کہ انسانوں کا وجود مٹ جانے والا ہے اس لیے وہ حقیقت اصلی یا خدائی وجود کی طرف لوٹ کر خود کو پاتا ہے۔
ابن عربی کے نزدیک انسانوں نے خدا کی طرف لوٹنے کا قول و قرار کیا ہوا ہے جو خدا کی طرف دائمی تعلق استوار کرتا ہے۔
اب انسان میں مراجعتِ ربانی کی وجہ مقدس روح کا نفوذ ہے جو ان کی سرِشت میں شامل ہے، اور کائنات میں موجودات کو وجود میں لانے کا مقصد یہ تھا تا کہ خدا اور اس کی خدائی کو جانا جائے۔