ابتدائی عمر میں تصور خدا کی تشکیل میں والدین اور اساتذہ کی شخصیتوں کا اثر
(ڈاکٹر عرفان شہزاد)
بقول شخصے انسان کا بچپن ساری عمر اس کے اندر زندہ رہتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام ان کے مزاج اور نفسیات کی تشکیل میں ان کے بچپن اور قومیت کی تشکیل کے وقت کے تصورات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ افراد یا اقوام کے مزاج اور نفسیات کا درست مطالعہ کرنا ہو تو ان کے ایام طفولیت (بچپن) اور ان کے ماضی کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اسی طرح کسی فرد یا قوم کے دینی مزاج کا اندازہ بھی ان کے بچپن میں لا شعوری طور پر تشکیل پانے والے تصور خدا کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔
میرا پہلا تصورِ خدا میرے ناظرہ قرآن کی پہلی استانی ہمارے محلے کی ایک بزرگ خاتون تھیں۔ ہم انہیں بوا جی کہا کرتے تھے۔ وہ بڑے جثے کی رعب دار خاتون تھیں۔ وہ اپنے گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ ہمیں سبق بھی پڑھاتی جاتی تھیں۔ وہ دل کی نرم اور زبان کی سخت تھیں۔ ان سے ایک بار بھی مجھے مار نہیں پڑی، نہ ہی کبھی کسی اور کو میرے سامنے انہوں نے مارا تھا۔
پھر بھی میں ان سے بہت ڈرتا تھا، لیکن اپنے لیے ان کی دبی دبی سی شفقت بھی محسوس کرتا تھا۔ دراصل میں ان سے بہت حیا کرتا تھا۔ چھٹی کر لیتا تو ان کے سامنے جانے میں مجھے ڈر سے زیادہ شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ شرمندگی کا یہ احساس ڈر سے زیادہ میرے لیے بھاری تھا۔
بچپن میں مجھے جب بھی خدا کا خیال آتا تو مجھے ایک عظیم الجثہ خاتون نما ہستی نظر آتی، جو گویا برتن دھوتے دھوتے کائنات کا انتظام بھی دیکھتی جاتی تھی۔ باوجود یہ کہ خدا کے لیے مذکر کا صیغہ بولا جاتا ہے، لیکن میرا تصور خدا ایک عظیم الجثہ خاتون کو دیکھتا تھا۔ بعد میں علم و آگہی نے اس تصور کو بدل ڈالا، لیکن اس کے تاثرات میں محسوس کرتا ہوں اب بھی نہاں خانہ شعور میں کارفرما ہیں۔
فرائڈ کہتا ہے کہ انسان اپنے لیے خدا کا پہلا تصور اپنے والدین سے لیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بچہ پہلے پہل اپنی ماں کے تاثر سے خدا کا تصور تشکیل دیتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس تصور خدا میں ماں کی جگہ باپ آ جاتا ہے جو زیادہ مضبوط اور محافظ باور کیا جاتا ہے۔ باقی کی ساری عمر اپنے باپ جیسے خدا کا تصور انسان کے ذہن میں موجود رہتا ہے۔
میں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ بچہ اپنا تصور خدا ماں باپ کے علاوہ اپنے پہلے استاد یا اساتذہ سے بھی اخذ کرتا ہے، جیسا کہ میرا تجربہ تھا اور اس کی تائید دیگر لوگوں کے تجربات سے بھی ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنے بچپنے میں اس تجربے سے گزرتا ہے اور اس کو سمجھ سکتا ہے۔ مذہب کی تعلیم پانے والے بچے اپنے پہلے مذھبی استاد سے خدا کا تصور اخذ کرتے ہیں۔
ہر مذھب نے مادری اور پدری اصطلاحات میں ہی خدا کے تصور کو پیش کیا ہے۔ مسیحیت میں تو خدا کے لیے باپ کا لفظ ہی اختیار کر لیا گیا، ہندو مت میں دیوتا باپ جیسے تصور کی حامل ہستیاں ہیں اور دیویاں ماتا یعنی ماں جیسے ہستیاں۔ اسلام جیسے توحید پرست مذھب، جس میں تجسیمِ خداوندی اور انسان جیسے خدا کا کوئی تصور ہی نہیں، اس میں بھی مختلف مادری اور پدری اصطلاحات کے ذریعے خدا کی رحمت اور غضب کے تصور کو سمجھایا گیا ہے۔ مثلًا حدیث میں آیا ہے کہ،”مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔”، اور یہ کہ “خدا ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔” خد اکے لیے ربّ کا لفظ مستعمل ہے جو ایک لحاظ سے باپ یا سرپرست کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ ہم اپنے لیے فرزندانِ توحید یا فرزندان اسلام کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔
کسی فرد کے والدین جس طرح کے ہوں گے، خاص طور باپ جس قسم کی شخصیت کا حامل ہوگا، اور جس طرح کے پہلے اساتذہ کسی شخص کے ہوں گے، ویسا ہی تصورِ خدا ایک بچے کے ذہن میں بیٹھے گا اور پھر وہ ساری عمر اسی تصور کے تاثر میں گزار دے گا۔ والدین اور بچپن میں ملنے والے پہلے اساتذہ اگر مہربان ہوں گے تو ایک مہربان خدا کا تصور ابھرے گا اور اگر سخت گیر، خود غرض یا غیر ذمہ دار وغیرہ ہوں گے تو ویسا ہی تصور خدا بچے کے ذہن میں اتر جائے گا۔
ہمارے معاشرے میں مذھب ایک غالب عنصر کے طور پر پایا جاتا ہے۔ مذھب میں خدا کا تصور بدیہی طور پر مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ جیسا تصور خدا کا ہوگا ویسا ہی دینی مزاج اس کے ماننے والوں کا ہوگا۔ مثلًا ہمارے ہاں خدا کی بے نیازی کا یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس کو دوسروں کے احساسات یا احتیاجات کی کوئی پروا نہیں۔ فوتگی کے مواقع پر اس قسم کے جملے سن کر آپ خدا کے بارے میں اس تصور کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہ تصور، خدا کی رحمت کے تصور سے مختلف ہے۔
ہمارے معاشرے کا تصورِ خدا کیا ہے اور وہ کن تاثرات سے تشکیل پایا ہے یہ سمجھنا ہمارے لیے ضروری ہے تا کہ ہم اپنے لوگوں کے تصورِ خدا اور پھر تصورِ مذھب اور اس سے پیدا ہونے والے دینی مزاج کو درست طور پر سمجھ سکیں۔
ہمارے ہاں علاقائی لحاظ سے دو بڑی دینی روایات پائی جاتی ہیں: ایک پختون علاقے کی دینی روایت اور دوسری ہندوستانی علاقوں سے آنے والی دینی روایت۔
ہمارے معاشرے میں مذھب پر پختون علماء اور خطباء کا بڑا غلبہ ہے۔ پختون سماج میں روایتی طور پر باپ ایک سخت گیر شخصیت ہوتا ہے۔ اولاد سے اس کا تعلق ڈر، احترام اور اطاعت کا ہوتا ہے۔ محبت فطری طور پر ہوتی تو ہے، لیکن یہ جذباتی حدوں تک عمومًا نہیں پہنچ پاتی۔ نیز یہ محبت دائرہِ اظہار میں بھی کم ہی آ پاتی ہے۔ دوسری طرف پختون بچوں کی ایک بڑی تعداد کو بہت کم عمری میں مدارس میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ناظرہ قرآن پڑھنے کے لیے تو تقریبًا ہر بچہ مسجد کے مولوی اور قاری صاحب کے پاس تو جاتا ہی ہے۔ اور اس کے تاثر سے اپنا پہلا تصورِ خدا تشکیل دیتا ہے۔
مدارس میں داخل کرا دیے جانے والے پختون بچوں کی اتنی کم عمری میں والدین سے دوری، والدین سے ان کے جذباتی تعلق کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس کا اثر خدا کے ساتھ ان کے تعلق پر بھی پڑتا ہے اور پھر یہی اثر ان کا دینی مزاج بھی تشکیل دیتا ہے، جہاں جذبات، محبت اور رحمت کی جگہ خدا سے ایک گونا دوری کا تعلق ہوتا ہے۔ جس طرح وہ والدین کی شفقت اور محبت اور ان کی دیکھ بھال کے بغیر جانا سیکھ لیتے ہیں، اسی طرح وہ خدا کی محبت اور رحمت اور اس کے محتاج ہونے کے تصور سے بھی بڑی حد تک آزاد ہوتے ہیں۔
عمومًا ناظرہ اور حفظ قرآن کے درجے کے پختون اساتذہ، عمومًا سخت گیر ہوتے ہیں اور بچوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے انفرادی توجہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے۔ ان میں کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو بد اخلاقی کا مظہر ہوتے ہیں۔ تشویش ناک حد تک ان کی ایک بڑی تعداد مدارس کے بچوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بھی بناتے رہتے ہیں۔ جسمانی تشدد تو عام سی بات ہے جسے مدارس میں پوری طرح ‘قانونی’ اور ‘اخلاقی’ جواز حاصل ہے۔
بچے کی ابتدائی عمر کے ان اساتذہ سے بچے کا کوئی دلی تعلق نہیں بن پاتا۔ استاد شاگرد کا تعلق ادب، احترام، اطاعت، خوف، خدشے اور بعض صورتوں میں ظالم اور مظلوم کا ہوتا ہے۔ اب یہی تاثرات خدا کا تصور تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے روایتی دینی طبقے میں دین پر عمل کے میدان میں خدا سے محبت، اس کی رحمت کے احساس سے عاری، ایسا قانونی اور فقہی مزاج پاتے ہیں جو خشک قسم کی اطاعت کو کُل دین کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامائز کرنے کی برسوں کی کوششوں کا محور کیا ہے؟
محض چند اسلامی شقوں کو آئین اور قانون میں شامل کروانا ہی ان کا مطمح نظر ہے۔ اسلام کے نفاذ کا منتہا اسلامی سزاؤں کے اجراء کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان کو جہاں بھی اپنی شریعت نافذ کرنے کا موقع ملا تو ان کا سارا زور دین کے چند مظاہر تک محدود رہا، یعنی خواتین کا پردہ، ان کے سکول جانے پر پابندی، مردوں کو داڑھی رکھوانا، انگریزی لباس کی حوصلہ شکنی، بتوں کو توڑنا، وغیرہ۔ ان کے اس سارے عمل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اطاعت، قانون، جبر، خوف اور تشدد کے عناصر شامل ہیں۔
کہیں بھی رحمت، ہمدردی، بھائی چارہ، انسانی مسائل اور مشکلات کے حل اور ازالے کی کوئی منظم اور با مقصد کوششوں کا عمل دخل نہیں ہے۔ خدا کی بے نیازی کا مندرجہ بالا مخصوص تصور بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ یعنی انہیں بھی لوگوں کی مشکلات کا پرواہ نہیں ہوتی جیسے ان کے مطابق خدا کو نہیں ہے۔ گویا جیسا تصورِ خدا ان کو ملا، ویسا تصورِ دین ان کے ذہنوں میں بیٹھا، ویسا ہی دینی مزاج تشکیل پایا اور اختیار اور طاقت ملنے پر نتائج بھی اس کے مطابق ہی برآمد ہوئے۔
مدارس میں پائی جانے والی دوسری دینی روایت ہندوستانی علاقوں سے پاکستان میں آئی ہے۔ ہندوستانی والدین عمومًا سخت گیر نہیں ہوتے۔ اسی کا اثر ہے کہ ہندوستانی (اب پاکستانی) اساتذہ بھی زیادہ سخت گیر نہیں ہوتے۔ دین کا فقہی اور قانونی پہلو اگرچہ وہاں بھی غالب ہے، اور نفاذِ اسلام اور غیر ریاستی جہاد کے تصورات میں یہ لوگ بھی پختون دینی روایت کے ساتھ نظریاتی اشتراک رکھتے ہیں لیکن ان کی طرف سے پر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور نہ ایسی کارروائیوں میں حصہ لیا جاتا ہے۔ بلکہ ان کی طرف سے ان کی صوفی روایت کے تحت خدا کی رحمت اور محبت کا پرچار بھی کیا جاتا ہے۔ اس سب کی نفسیاتی وجہ والدین اور اساتذہ کی نرم مزاجی ہے جو تصور خدا ور پھر تصورِ دین میں ڈھل کر ان کے اس دینی مزاج کی تشکیل کا سبب بنی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچپن کے تصور خدا میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ بچپن کا تصورِ خدا شعور کی عمر میں علم اور فہم کی زیادتی سے تبدیل بھی ہو جاتا ہے لیکن اس کے باجود بچپنے کا تصورِ خدا مکمل طور پر غائب نہیں ہو پاتا۔ کہیں نہ کہیں اس کا اثر جھلکتا رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو اپنے بچپن کے تصورِ خدا کو علم و فہم کی کے ذریعے بدلنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں یا علم و فہم کی راہ سے تصورِ خدا میں آنے والی تبدیلی کو قبو ل کرتے ہیں۔
بچپن کے تصورِ خدا کو شعوری علم کے ذریعے تبدیل کرنے کے لیے سب سے مؤثر ذریعہ قرآن مجید کا براہ راست مطالعہ ہے۔ ایسا مطالعہ جس میں اپنے پہلے کے تصورِ خدا کو معطل کر دیا جائے اور بلا حجاب قرآن کو اپنے دل کو مخاطب کرنے دیا جائے۔ اس سے جو تصورِ خدا پیدا ہوتا ہے وہی حقیقی تصورِ خدا ہے۔ اس مطالعہ میں حتی الوسع اپنے تعصبات اور پہلے کے تصورات کو پورے شعور کے ساتھ الگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ کہیں اپنے ہی خیالات کی بازگشت قرآن کے مطالعہ میں بھی سنائی دیتی رہے۔ ایسا مطالعہ ہی آپ کو خدا کے حقیقی تصور سے روشناس کروا سکتا ہے جو آپ کے دینی مزاج کو بھی درست کر سکتا ہے۔