کلبھوشن یادیو، عالمی عدالت انصاف اور جیت ہار کی گم شدگی
از، یاسر چٹھہ
عالمی عدالتِ انصاف (International Court of Justice, ICJ) کے فیصلے کی پریس ریلیز جو کہ سات صفحات پر مشتمل ہے، اس کا یہ پیراگراف پاکستان اور بھارت کے درمیان کلبھوشن یادیو کیس کا تعارف اس طرح کراتا ہے، اس کی میں نکات (points) اور ذیلی نکات (sub-points) میں تدوین زیادہ وضاحت کے لیے کر رہا ہوں، لفظ حرف بہ حرف پریس ریلیز کے ہی ہیں:
- These proceedings were instituted on 8 May 2017 by the filing in the Registry of an application by the Republic of India against the Islamic Republic of Pakistan,
▪︎alleging violations of the Vienna Convention on Consular Relations of 24 April 1963 (hereinafter the “Vienna Convention”), with regard to the detention, since March 2016,
▪︎and trial of an Indian national, Mr. Kulbhushan Sudhir Jadhav, who was accused of performing acts of espionage and terrorism on behalf of India,
▪︎and sentenced to death by a military court in Pakistan in April 2017.
- In particular, India contends that Pakistan acted in breach of its obligations under Article 36 of the Vienna Convention
(i) by not informing India, without delay, of the detention of Mr. Jadhav;
(ii) by not informing Mr. Jadhav of his rights under Article 36; and
(iii) by denying consular officers of India access to Mr. Jadhav.
اب point to point نقل کرتا ہوں کہ عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے سولہ رکنی بنچ نے نکتے پر کیا فیصلہ دیا، یہ اوپر درج کردہ نکتہ نمبر 2 کے ذیلی نکات کے جوابات کی صورت تدوین کرتا ہوں، (وکلاء دوستوں کے لیے عرض کرتا چلوں کہ یہ ابلاغِ عامہ کے لیے Remedies کے حصے سے نکال رہا ہوں):
- The Court has found that Pakistan acted in breach of its obligations under Article 36 of the
Vienna Convention:
i) First, by not informing Mr. Jadhav of his rights;
ii) Secondly, by not informing India, without delay, of the arrest and detention of Mr. Jadhav; and
iii) Thirdly, by denying access to Mr. Jadhav by consular officers of India, contrary to their right, inter alia, to arrange for his legal representation.
اب ایک اور پہلو کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے متعلق فیصلہ کیا کہتا ہے۔ اس سلسلے میں مد نظر رہے کہ عالمی عدالت انصاف (ICJ) نے اپنے فیصلہ میں یہ کہا کہ پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن کی گرفتاری کی بابت چوں کہ ویانا کنونشن کے اصولوں کا پاس نہیں رکھا، اور اس کے ضمنی اثر کے طور پر کلبھوشن یادیو کو بادی النظر میں مناسب قانونی مدد نہیں مل سکی، اس لیے پورے مقدمے پر اور اس کی کارِ روائی پر با معنی اور مؤثر انداز سے نظرِ ثانی کی جائے، اس بابت اگر پاکستانی قوانین میں کوئی رکاوٹ ہو تو بھلے اس سلسلے میں نئی قانون سازی بھی کی جائے۔ اس بابت فیصلے کی رپورٹ میں سے میں اس حصے کو نقل کر کے یہاں چسپاں کرتا ہوں:
The Court notes that the obligation to provide effective review and reconsideration can be carried out in various ways. The choice of means is left to Pakistan.
Nevertheless, freedom in the choice of means is not without qualification. The obligation to provide effective review and reconsideration is an obligation of result which must be performed unconditionally.
Consequently, Pakistan shall take all measures to provide for effective review and reconsideration, including, if necessary, by enacting appropriate legislation.
The Court finally considers that a continued stay of execution constitutes an indispensable condition for the effective review and reconsideration of the conviction and sentence of Mr. Jadhav.
یاد رہے کہ کلبھوشن یادیو کی پھانسی پر stay ہوا ہے، جیسا ہمارا “پکی سرکار” میڈیا ہے، ویسا ہی بھارت کا میڈیا ہے، وہ پھانسی کے خاتمے کی تان اڑا کر زیادہ جہاز گرانے جیسی بات مقامی گاؤ رکشکوں کو باور کرا رہا ہے، جب کہ ہمارے یہاں کا “پکی سرکار” کا میڈیا بھی جہاز گراتا ہی گراتا جا رہا ہے کہ پاکستان نے مقدمہ جیت لیا ہے۔ حالاں کہ آپ مقدمے کی رپورٹ پڑھیں تو پاکستان کے کسی پیش کردہ نکتے کو عالمی عدالتِ انصاف نے قبول نہیں کیا۔ ویانا کنونشن کے لاگو ہونے سے لے کر، قونصلر رسائی دینے میں پس و پیش جیسی باتوں میں، بَل کہ، پاکستان کو ویانا کنونشن کے لاگو نا ہونے کے نکتے کی شکستگی کی وجہ سے زیادہ خفت اٹھانا پڑی ہے۔ مقدمے کو سرسری سا بھی دیکھنے پر لگتا ہے کہ 15 جج ایک طرف ہیں، اور پاکستان کے نام زد جج جسٹس تصدق، ہر نکتے پر ووٹنگ میں اکیلے ہیں۔ مزید یاد رہے کی کلبھوشن دہشت گرد ہے، یا نہیں ہے، اس پر بات کرنا عالمی عدالتِ انصاف کے پیش نظر مسئلہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس پر کوئی رائے زنی کیس اور عدالت کے scope سے ہی باہر کا امَر تھا۔