میگڈا گوبلز، نظریاتی جنون سے بنیادی انسانیت کی کشمکش
از، نصیر احمد
پہلی مئی 1945 کو سوویت فوجیں ہٹلر کی تیسری بادشاہی کے برلن میں داخل ہو چکی تھیں اور تیسری بادشاہی کا تقریبا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ہٹلر برلن میں صدارتی محل کے تہہ خانے میں ایوا براؤن سے شادی کرنے کے بعد خود کشی کر چکا تھا۔ اس کے قریبی ساتھیوں میں سے خفیہ ایجنسیوں کا سربراہ ہملر اتحادیوں سے سے اچھی شرائط پر صلح کی ساز باز کر رہا تھا۔ بور مین جو اس کے معاملات کا منتظم تھا تہہ خانے سےبھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ تیسری بادشاہی کی فضائیہ کا سربراہ گورنگ بھی اپنے بچاؤ کی تدبیروں میں مصروف تھا۔ اور اس کا عمارت ساز اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کا وزیر البرٹ شپیر سپنا ٹوٹنے کا سوگ کر رہا تھا کہ ہزار سالہ بادشاہی دس بارہ سالوں میں ہی ختم ہو گئی تھی۔
اس کے اطلاعات و نشریات کے وزیر گوبلز اور اس کی بیوی میگڈا نے پہلی مئی کو اپنے چھ بچوں کو قتل کرنے کے بعد ہٹلر اور ایوا براؤن کی پیروی میں خود کشی کر لی۔
یہ بچے بچ سکتے تھے اور میگڈا کو اس بات کا بخوبی علم تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنے بچے قتل کر دیے۔ کیوں کیے، ہر ناٹزی کی طرح میگڈا بھی دو گوئی میں مبتلا تھی۔ اور اس نے اپنے اس عمل کی وضاحت بھی کی۔ ایک اس کا خط ہے جو اس نے اپنی پہلی شادی سے ہونے والے بیٹے کے نام لکھا جو شمالی ایفریقہ میں اتحادیوں کا قیدی تھا اور دوسری اس کی ایک گفتگو ہے جو اس نے اپنی ایک رشتہ دار سے کی۔
میگڈا گوبلز کا اپنے بیٹے کے نام خط یوں ہے۔
پیارے بیٹے چھ دن ہو گئے، میں، تمھارا باپ اور تمھارے بہن بھائی اپنی قومی سوشلسٹ زندگیوں کو اعزاز کے ساتھ وداع کرنے کے لیے رہنما کے تہہ خانے میں موجود ہیں۔ تمھیں علم ہونا چاہیےکہ میں تمھارے باپ کی مرضی کے خلاف یہاں آئی ہوں اور رہنما نے مجھے یہاں سے باحفاظت نکالنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لیکن تم اپنی ماں کو جانتے ہی ہو کہ میں ہٹ کی کتنی پکی ہوں۔ ہمارے عظیم تصور کی بربادی کے ساتھ جتنی بھی خوب صورتی اور رعنائی میں نے دیکھی ہے، برباد ہو گئی ہے۔
رہنما اور قومی سوشلزم کے بعد زندگی جینے لائق نہیں رہی۔ اس لیے میں اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائی ہوں کہ آئندہ زندگی ان کے قابل نہیں ہے۔ خدائے مہربان جانتا ہے کہ میں صرف ان بچوں کی نجات کی آرزو مند ہوں۔ میرے شاندار بچے نہ رو دھو رہے ہیں اور نہ ہی کوئی حرف شکایت ان کے ہونٹوں پہ ہے۔ زوردار دھماکوں سے اگرچہ یہ تہہ خانہ لرز اٹھتا ہے لیکن بڑے بچے چھوٹے بچوں کو اپنے دامن میں چھپا لیتے ہیں۔ ان کی یہاں موجودی باعث رحمت ہے کہ ان کی وجہ سے رہنما کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ کھل اٹھتی ہے۔ خدا مجھے ہمت دے کہ میں مشکل ترین اور آخری کام کر سکوں۔ اب ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ ایفائے عہد کرتے رہنما کے سنگ مر جائیں۔
ہیرالڈ میرے پیارے بیٹے
میں تمھیں وہی کچھ دے سکتی ہوں جو میرے پاس ہے۔ اپنے آپ سے، اپنے لوگوں سے اور اپنے ملک سے وفادار ر ہو۔ ہم پر ناز کرو اور ہمیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے رہو۔
اس خط میں آپ کی ایک نظریاتی روبوٹ سے ملاقات ہوتی ہے جس کا وفا کے تصور میں دانائی نہیں ملتی۔ ایک ناٹزی بیگم جو اپنے نظریاتی جنون کی وجہ سے اپنے بچوں سے ان کے سارے امکانات چھین لیتی ہے اور اس عمل کو وفا اور قربانی جیسے لفظوں سے ڈھکنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس خط میں زندگی سے بھاگنے والی ایک بزدل سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو اپنے اعمال کے نتائج سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔
اس خط میں فرد کی تحقیر میں مبتلا ایک فرد سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو افراد کو اپنی اس گمان میں زندگی سے محروم کر دیتی ہے کہ اسے زندگی کی تفہیم زیادہ ہے چاہے وہ افراد اس کے اپنے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس خط میں اس بات کی خبر بھی ملتی ہے کہ افراد نظریات کے اثر میں اپنی انا کو اس قدر بلند کر لیتے ہیں کہ وہ خود کو زندگی سے بھی عظیم سمجھتے ہیں۔
انا کا یہ تصور میگڈا کے رہنما میں بھی ہے۔ اسی کے دعوؤں کے مطابق اسے جرمنی سے روحانی عشق تھا۔ لیکن جاتے جاتے وہ اپنے مصاحب البرٹ شپیر کو اتحادیوں کے آنے سے پہلے جرمنی کو مکمل طور تباہ و برباد کرنے کا حکم بھی دیتا ہے کہ وہ تو عظیم تھا لیکن جرمنی نے ثابت کر دیا کہ وہ اس کی عظمت کے مستحق نہیں تھے۔ جرمنوں نے اس کے لیے جنگیں لڑیں، گھناؤنے جرائم کیے، جان، مال اور ضمیر کی قربانیاں دیں مگر اس کے خیال میں یہ سب کچھ کافی نہیں تھا۔ آمروں کے لیے کچھ بھی کردو، ان کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ خرد اور ضمیر کسی کے حوالے کر دینا بہت گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔
میگڈا مہینوں سے اس سنگ دلی کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ اپنی رشتہ دار ایلو کوانٹ سے اس نے اپنے اس عمل کی یہ وضاحت پیش کی۔ ہم نے جرمنوں سے وحشیانہ اعمال کے مطالبے کیے۔ دوسری قوموں سے بے رحم سفاکی سے پیش آئے۔ اب فاتحین تو انتقام لیں گے لیکن ہمیں بزدلی نہیں دکھانی چاہیے۔ ہر کسی کو جینے کا حق ہے مگر ہم یہ حق کھو بیٹھے ہیں۔ میں اس کی ذمہ دار ہوں، میں اس سب سے متعلق ہوں کہ مجھے ہٹلر اور جوزف گوبلز پر یقین تھا۔ اگر میں زندہ رہتی ہوں تو مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اور جوزف کے بارے میں مجھ سے پوچھ تاچھ بھی کی جائے گی۔ مجھے سب سچائی بتانی پڑے گی کہ جوزف کیسا آدمی ہے اور پس پردہ کیا چل رہا تھا۔ ہر کسی کو مجھ سے کراہت ہو گی۔ اس کا دفاع، اس کے اعمال کی وضاحت اور اس کے حق میں سچی بات کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ یہ سب کرنا میرے ضمیر کے خلاف ہے۔ ایلو، میرے لیے زندہ رہنا ناممکن ہو جائے گا۔
ہم اپنے بچوں کو بھی مار دیں گے کہ آئندہ زندگی ان کے لائق نہیں ہے۔ آئندہ دنوں میں جوزف کو جرمنی کے مکروہ ترین مجرموں کی صف میں شامل کر دیا جائے گا۔ اور یہ بات اس کے بچوں کو روزانہ سننی پڑے گی۔ لوگ ان کو تکلیف دیں گے، ان کی تحقیرو تذلیل کریں گے۔ جوزف کے گناہوں کی سزا لوگ میرے بچوں کو ملے گی اور لوگ ان سے بھاری انتقام لیں گے۔ یہ سب پہلے ہو چکا ہے۔ میں نے تمھیں بتایا تو ہے کہ میونخ کے کیفے اناسٹ میں رہنما (ہٹلر) نے ایک یہودی بچے کو دیکھ کر کیا کہا تھا؟ تمھیں یاد ہے کہ اس کا بس چلے تو اس بچے کو میں کسی کیڑے کی دیوار سے مسل دوں۔ یہ کوئی غصے میں کہی ہوئی بات نہیں تھی۔ اور بعد میں اس نے یہ سب کیا بھی۔ وہ سب ناقابل بیان حد تک ہولناک ہے۔
اس گفتگو میں میگڈا شدید جذبات کا شکار سچائی سے جھگڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسے اپنے رہنما، اپنے شوہر اور اپنی پارٹی کے جرائم کی خبر ہے۔ اور ان سب جرائم کی سفاکی سے اسے تکلیف بھی ہے لیکن وہ اس سفاکی کو ماننے سے انکاری بھی ہے اور ہر قسم کے احتساب سے محفوظ رہنے کی ایک شدید آرزو بھی اس کی گفتگو میں موجود ہے۔ اسے انسانیت سے کسی اچھائی کی توقع بھی نہیں ہے۔ اور اس کی تفہیم بھی لڑکھڑائی ہوئی ہے۔ اسے دوسروں میں خرابی نظر آتی ہے کیونکہ اپنی خرابی اس کے سامنے ہے۔ اس کے بچے شاید ایک اچھے جرمنی میں ایک بہتر زندگی گزار سکتے تھے مگر اسے بدی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کیونکہ وہ بدی کے بہت قریب رہی ہے۔ بدی جو اس کے وجود سے لپٹی ہے، بدی جو اسے نظر بھی آتی ہے مگر بدی جسے وہ نظریاتی طور پر تسلیم نہیں کر پا رہی اور جوزف اور اپنے جرائم کے احتساب سے ہر قیمت پر بچنے کی خواہاں ہے۔
مزید دیکھیے: کاملیت پرست ریاستیں اور ان کی عدالتوں کی خر مستیاں، از، نصیر احمد
اس گفتگو میں انسانیت اور نظریات کی جنگ بہت واضح ہے۔ اور یہ کشمکش تصور کی ناکامی کا نتیجہ ہے ورنہ فتوحات کے دوران میگڈا نے ایسے کہاں سوچنا تھا۔ بہرحال اسے بدی شرمندہ کرتی ہے، اس کا اعتراف بھی سر زد ہو جاتا ہے لیکن بدی کی قربت صداقت اور دیانت کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ اور جو انسانی ضمیر ہے وہ جرائم کی ہولناکی سامنے لے آتا ہے اور جو ضمیر ناٹزی پارٹی نے ترتیب دیا ہے، وہ فرار کی آرزو کرتا ہے۔ اور یہ جعلی ضمیر زندگی کا دشمن ہے لیکن میگڈا اس جعلی ضمیر کی اسیر ہے اور اسی اسیری میں اس کی زندگی سے دشمنی اور توانا ہو جاتی ہے اور انھی جذبات کی شدت میں وہ اپنے معصوم بچوں کو ایک عفریت سے وفاداری کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
ایک سفاک موت جس کی خرد اور ضمیر مذمت کرتے رہیں گے۔ ایک بے فائدہ موت جس سے گریز ممکن تھا۔ جرمنی کے لوگوں نے بھی میگڈا کی طرح ہٹلر کے لیے یہ موت انسانوں کی ایک کثیر تعداد کو دی اور بہت سارے جرمنوں نے ہٹلر کے لیے یہ موت اختیار بھی کی۔ لیکن جیسے پہلے کہا ہے یہ ایک سفاک موت تھی جس کی خرد اور ضمیر مذمت کرتے رہیں گے اور اس موت سے گریز ممکن تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خیالات اور تصورات کو خرد اور ضمیر سے اس قدر دور نہیں لے جانا چاہیے کہ ایک چیختی چھنگھاڑتی پارسائی جسے اپنے جعلی پن کا شدید احساس ہے انسانیت کش ہو جائے۔ اور ایسے خیالات اور تصورات پر حکومت قائم کرنا تباہی اور بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.