سپریم کورٹ کی اجتماعی دانش
نجم سیٹھی
اگر مقبولِ عام تخیلات کی دنیا میں تاثرات حقیقت سے زیادہ اہم ہوتے ہیں تو پھر نواز شریف کے بدعنوان ہونے کے تاثر کا تعاقب یہ تاثر کررہا ہے کہ اُنہیں سزا دینے کے لیے جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا۔ شریف فیملی کے جے آئی ٹی کے سامنے اپنی پوزیشن صاف کرنے میں ناکام رہنے کے تاثر کو یہ تاثر دھندلا دیتا ہے کہ جے آئی ٹی خود اُن کے درپیش تھی۔ یہ تاثر کہ ایک درست احتساب ٹرائل، جس کے قیام کا حکم دیا گیا ہے، سے اب جائے مُفرممکن نہیں، اس تاثر کے سامنے گرہن زدہ ہوجاتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کو استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی تاحیات نااہلی کی وجہ قانون کی روایت سے ہٹ کر تشریح اور شریف فیملی کے ممبران کی غلط وضاحت تھی۔
فاضل جج صاحبان کا کہنا ہے کہ مسٹر نوازشریف ’’صادق اور امین‘‘ نہیں رہے کیونکہ وہ الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے جب اُنھوںنے اپنے کا غذات میں یواے ای کی ایک کمپنی سے ’’قابل ِ وصول تنخواہ‘‘ کا ذکر نہ کیا۔ اگرچہ نواز شریف نے وہ تنخواہ کبھی وصول نہ کی لیکن عدالت کے خیال میں اُنھوںنے اس کا ذکر نہ کرکے اثاثے چھپائے ہیں۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان قانون کے تحت (اور یہ بات ہر ٹیکس وکیل جانتا ہے) افراد پر یہ پابندی نہیں کہ وہ اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں ’’قابلِ وصول آمدن ‘‘ کو ظاہرکریں جو اُنھوں نے تاحال وصول نہیں کی ہوتی۔ پرائیویٹ اور پبلک کمپنیوں اورپارٹنر شپس کے لیے ایسا کرنا ہوتا ہے، یا پھر کرائے نامے کو بھی ظاہر کیا جاتا ہے ، لیکن افراد کی نہ وصول کی جانے والی رقم کو اثاثہ نہیں مانا جاتا۔ تاہم یہاں جج صاحبان نے ملک کے ٹیکس قوانین کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک غیر معمولی جست لگا کر ایک ڈکشنری کی مدد سے ’’آمدن‘‘ اور ’’اثاثے ‘‘ کے معانی کا تعین کر ڈالا ۔ درحقیقت اس فیصلے نے تعصب کے تاثر کو نمایاں کردیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ وزیرِاعظم کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دئیے جانے کی کوئی آئینی بنیاددکھائی نہیں دیتی۔
اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ شریف فیملی کے مختلف ممبران کے بیانات، خاص طور پر نواز شریف کا اسمبلی میں دیا گیا بیان، وضاحت طلب ہیں، اور ان کے نتائج اُس سے مختلف بھی نکل سکتے ہیں جو جے آئی ٹی اورجج صاحبان نے نکالے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ بیانات کی ہر تشریح اُنہیں ایک دوسرے سے متصادم دکھائے ، یا نواز شریف کے بیانات میں تضاد پایا جائے ۔ نیب کی کارروائی کی نگرانی کرنے کے لیے تین رکنی بنچ کی جانب سے ایک جج کی نامزدگی ایسی پیش رفت ہے جس کی جوڈیشل تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ایک ماتحت عدالت کا ایک جج کس طرح اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے گا جب ایک سینئر جج اُ س کی مسلسل نگرانی کررہا ہوگا؟
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایک ٹائم فریم رکھا ہے جس کے مطابق تمام ملزمان کے خلاف کارروائی چھ ماہ کے اندر کی جانی ہے ۔ کسی کیس کے لیے اس طرح ٹائم فریم دیا جانا بذات ِخود ایک غیر معمولی اقدام ہے ۔ جے آئی ٹی ساٹھ روز میں تحقیقات مکمل نہ کرسکی ، جلد نمبر 10 تاحال ہوا میں معلق ہے ، تاہم اس ماتحت عدالت کو کافی وقت دیا گیا ہے تاکہ وہ اتنی شہادتیں اور ثبوت اکٹھے کرلے اگر اس مواد کو چیلنج کیا جائے تو بھی ترکش خالی نہ ہونے پائے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلے سال عام انتخابات سے پہلے آنے والے فیصلے کے نتیجے میں ترازو کسی ایک طرف جھک سکتا ہے۔ اس لیے یہ کیس قانونی نتائج سے زیادہ سیاسی مضمرات کاحامل ہوسکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ریاست اور معاشرے کے لیے دور رس نتائج کی حامل نئی مثال قائم کرتے ہوئے فاضل جج صاحبان میں کچھ نے، خاص طور پر آرٹیکلز 62 اور63 کے حوالے سے ماضی میں کیے گئے اپنے ہی فیصلوں سے روگردانی کی ہے ۔ چنانچہ بدقسمتی سے اس تاثرکو تقویت ملی ہے کہ عوامی مقبولیت کی چکاچوند اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب بحث بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے اختیارات اور اس کے کردار کی طرف شفٹ ہوگئی ہے۔ اب سوال اٹھایا جارہا ہے کہ فوج کی طرح جج پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ کیوں نہیں؟سپریم کورٹ تیزی سے ٹرائل کورٹ کیوں بنتی جارہی ہے جبکہ اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لیے کوئی فورم دستیاب نہیں؟کیا یہ تمام صورت ِحال آئین اور قانون کی روح کے خلاف ’’جوڈیشل شب خون‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے تاکہ ہر قسم کے چیک اینڈبیلنس کا خاتمہ کرتے ہوئے فیصلہ کن طاقت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے؟
اگر اس کیس میں استعمال کی جانے والی قانونی منطق لاگو کی جائے تو عمران خان اور جہانگیر ترین بھی نہیں بچ پائیں گے کیونکہ اُن کی منی ٹریل میں بھی بہت سے جھول ہیں۔ اگر آصف زرداری کی تفتیش کی جائے تو وہ بھی قانون سے نہیں بچ پائیں گے ۔ درحقیقت اگر تمام ارکان ِاسمبلی کے خلاف پٹیشنز دائر کی جائیں تو پاکستان میں پارلیمنٹ ختم ہوجائے گی اور ملک کو انتشار اور افراتفری کی طرف دھکیلنے والی آمریت قائم ہوجائے گی۔
ابھی بھی وقت ہے کہ اس شورش کا راستہ روکا جائے۔ ماہرینِ قانون اور سوچ سمجھ رکھنے والے حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ سپریم اس فیصلے کے خلاف اپیل سنے ۔ پانچ ججوں کے خود پارسائی کے داخلی اشتعال کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17 جج صاحبان کی اجتماعی دانائی کو موقع دیا جائے۔