اک یہ دل آتش ، اس پر تیرا غم آتش
نصیر احمد
اس دزد آتش دیوتا کی بات کریں کہ موبدان موبد کے آتشکدے کی یا ساربان کی پسلیوں میں دہکتی آگ کی کہ کردیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراج کو، کا ذکر چھیڑیں۔
ایسا کچھ نہیں ہے، ہم تو عمارات کو آتش زدگی سے بچانے کی چند تجاویز پیش کرنا چاپتے ہیں،یہی ضروری باتیں ہیں، اور بہت کرتے رہے ہیں، لیکن یہ باتیں بھی آخر شہریت تک ہی جا پہنچتی ہیں اور نفسیاتی تبدیلیوں کی خواہاں بن جاتی ہیں اور ان نفسیاتی تبدیلیوں کے ساتھ بہت سی قانون سازی متعلق ہے۔
پہلے تو عمارت کی محل وقوع آتا ہے۔اگر آگ لگے تو کم از کم ایمرجنسی والوں کی رسائی تو ہو کہ آگ بجھانے کی کچھ وہ تد بیر کر سکیں۔ اب یہ تنگ و تاریک گلیاں جن میں دو پائے بھی گھس نہیں پاتے وہاں فائر انجن کیسے داخل ہوں گے؟ اب جب یہ گلیاں بنتی ہیں، اس وقت تو شہر ساز کچھ خاص تو جہ نہیں دیتے لیکن جب حادثے ہوتے ہیں، تب بھی شہر ساز کہاں تو جہ دیتے ہیں۔
شہر سازوں کی اس طرف توجہ دلانے کے لیے شہریوں کی ضرورت ہے لیکن اب اتنی بھیڑ بھاڑ میں جہاں کھوے کھوا چھل رہا ہو، اور بات بے بات مکے گھونسے چل رہے ہوں، وہاں عمارت کے مقام کے انتخاب کے بارے میں سائنسی قسم کی نزاکتیں، پیچیدگیاں اور صداقتیں تو بہت ہی اجنبی سی لگیں گی۔ ہمارا کہنے کا مطلب ہے کم ازکم بات سننے کے لیے تو مکے بازی بند کرنی پڑے گی۔ ھاھا، یہ نہ ہو کہ بات سن کر آپ آگ بجھانے کو اندھا دھند دوڑ پڑیں، سچی؟ کچھ جانیں تو افراتفری میں ہی ضائع ہو جاتی ہیں۔
ہمارا کہنےکا مقصد ہے بات چیت کا ایک ماحول تو چاہیے ہوتا ہے۔اور وہ ماحول پیدا کرنے کے لیے بھی بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ادھر شاعران عالی مقام، عشاق عظام ،خطیبان تیز گام اور صوفیائے کرام نے ایسا ذہنی ماحول بنا دیا ہے کہ بات چیت بھی ڈنٹر پیلنے، مگدر ہلانے، جوڑیاں اٹھانے کا ایک مرکز سا بن گئی ہے۔ تو ایسے ماحول میں عمارت کے مقام کے انتخاب کے حوالے سے عقلی، سائنسی اور معاشرتی تحفظات اتنے اہم نہیں رہے۔
پھر کھڑکیوں دروازوں کی پختہ فٹنگ کے معاملات ہیں اور تالہ و قفل کی عمدگی کے مسئلے ہیں۔اب اداروں اور عوام کی پختگی اور عمدگی سے کچھ ایسی دشمنی ہو گئی ہے کہ کہیں عہد بودا ہے اور کہیں عہد شکنی میں کچھ تامل نہیں ہے اور کہیں سست پیوندی اتنی فزوں ہے کہ عمدہ اور پختہ تک رسائی کے لیے بہت کچھ الٹا سیدھا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی بات نہیں بنتی کہ ناقص مصنوعات کو کاروباری ذہانت باور کیا جاتا ہے۔ اور مصنوعات کے نقائص دور کرنا بھی ایک اجتماعی کوشش ہے جو شہری تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔
پھر ضرر رساں اور آتش گیر اشیا کی محفوظ ترتیب و تںظیم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس ترتیب و تنظیم کی تفصیل کے لیے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے مگر اس سب کی طرف ‘ جو تھا جل گیا’ کی کیفیات میں مبتلا دیوانے کب توجہ دیتے ہیں۔
اور جن اشیا کے پھٹنے کا اندیشہ ہو، ان کو اس طرح ڈیزائن کرنے چاہیے کہ ان کی ضرر رسانی کم ہوجائے مگر جہاں انسان پھٹ رہے ہوں، وہاں اشیا کے پھٹنے کا ذکر ہی کچھ عجیب سا ہو جاتا ہے۔ انسانوں کا پھٹنا اور اشیا کا پھٹنا بہر حال انسانی اور شہری مسئلے ہیں اور ان مسائل کا حل بھی انسانی حقوق اور شہریت کے فروغ میں ہی عیاں ہے مگر اداروں اور عوام کے مزے لیلا کے تصویر کے پردے سے عریاں ہونے میں دھنسے ہوئے ہیں اس لیے باقی مسائل کی طرف نگاہ جاتی ہی نہیں۔
اب آتش زنی کے امکانات کم کرنے کے لیے آتش جو آلاتی نظام نصب کرنے پڑتے ہیں، یعنی آگ بوجھنے والے الارم اور آگ بجھانے والے آلات عمارت میں ہر وقت درست حالت میں موجود ہونے چاہییں۔
آگ لگنے کی صورت میں عمارت خالی کرنے کا ایک مستقل پلان بھی درکار ہے۔ جس میں عمارت سے نکلنے کے کشادہ راستوں کی طرف رہنمائی کرتی ہدایات شامل ہیں۔ایک دفعہ ہم نے کوئی چار پانچ سو تجارتی عمارتوں کا صارفین کے حقوق کے لیے ایک سروے بھی کیا تھا لیکن ان عمارتوں میں آگ سے تحفظ کی بنیادی سہولیات نہیں موجود تھیں۔
ہمارا اندازہ ہے اب بھی نہیں ہوں گی کہ شہر میں بہت کم لوگ ہیں جن میں کچھ تحفظاتی حساسیت موجود ہے اور اتنے کم لوگ صرف خطروں کی طرف نشاندہی ہی کر سکتے ہیں، کچھ خاص تبدیلی نہیں لا سکتے۔ جنھوں نے تبدیلی لانی ہے، جن کے ساتھ جم غفیر ہے، جن کے مداحین اور مقلدین کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی اور جو حکومت کا دکھاوا کر رہے ہیں، ان کی گفتگو میں جمہوریت اور شہریت کم ہی ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے تو اس کے معانی محدود سے مفادات کے دائرے میں ہی رقص درویش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو انسانیت معطل کر کے اپنی گفتگو کو روحانی جمہوریت کا ترجمان کہنے لگتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ سستی اور سنگدلی عوام کے لیے ایک پیغام بھی ہے۔ اب سستی اور سنگدلی کو کروڑوں میں کھیلتا ہوا دیکھ کر عوام کی اکثریت اس سستی اور سنگدلی زندگی بتانے کا ایک نسخہ سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اس سستی اور سنگ دلی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ صحت و تحفظ کے بارے میں بنیادی معلومات، بنیادی سہولیات اور بنیادی تربیت سے متعلق بنیادی اقدامات نہیں اٹھائے جا سکتے۔
پھر بڑھتی اور پھیلتی آگ کے لیے آگ پر پانی چھڑکنے کے لیے پانی کا عمارت کے نزدیک موجود ہونا نہایت ضروری ہے اور پانی چھڑکنے کے لیے جو سپرنکلرز درکار ہیں ان کا قابل استعمال حالت میں ہونا ہی آگ بجھانے کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔عمارت میں موجود سیکیورٹی عملے کی آگ بجھانے کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔
آگ لگنے کی صورت میں عمارت میں دھوئیں کے اخراج کے لیے خودکار روزن، دریچے، دروازے کھڑکیاں بھی عمارت کے تعمیراتی پلان کے حصہ ہوں تو یہ دور اندیشی آگ سے تحفظ کے لیے بہت مفید ہو سکتی ہے مگر روزن، دریچہ، کھڑکی، دروازے کا نام آتے ہی قومی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔
مطلب ہے کہ شواہد کے خلاف ترتیب دیا ہو ثقافتی نظام ہلاکت خیر اور الم انگیز ہوتا ہے ۔ اور اس نظام کو درست کرنے کے لیے آزادی فکر ، جمہوری اعمال سے وابستگی اور شہریت کی تعلیم لازمی ہے مگر تکلیف پہنچانے والے کے لیے سازشیں سوچتے ذہن نے ابھی تخلیق کی سمت دیکھنا بھی شروع نہیں کیا اور آگ ہے کہ پھیلتی ہی جارہی ہے۔
آگ کی روک تھام کے لیے عمارت کی اس طرح حصوں میں تقسیم بھی کرنا لازمی ہے کہ آگ کا دائرہ کار محدود ہو جائے۔ یہ تدابیر بلڈنگز کنٹرولز اور صحت و تحفظ کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی قوانین کا حصہ ہیں اور ان پر عمل در آمد کرنا قانونی ذمہ داری ہے مگر قانون کو ذمہ داری کی ادائی سے کافی چستی سے جدا کر دیا گیا ہے اور قانون شکنی ایک فضیلت سی بن گئی ہے۔
اس فضیلت سے ایک احساس تفاخر منسلک ہے کہ قانون داری روتی پیٹتی،آہیں بھرتی، اپنی حماقت کو کوستی رہ جاتی ہے۔ لیکن اخبار پر کبھی نگاہ پڑ جائے تو آئین شکنی کے دعوت نامے اخبار میں نمایاں جگہوں پر موجود ہوتے ہیں۔لیکن قانون کی عملداری کے بغیر شہریت کا حصول ناممکن ہی ہوتا ہے۔
عمارت کے آگ سے تحفظ کے لیے آگ سے متعلق خطروں کا ایک تفصیلی جائزہ بھی ایک انتہائی اہم ضرورت ہے تاکہ ان خطروں کا کچھ سدباب کیا جائے۔ ان خطروں میں ایک خطرہ سگریٹ نوشی ہے ۔ اس لیے سگریٹ نوشی پر تجارتی عمارتوں پر پابندی ہونی چاہیے یا سگریٹ نوشی کے لیے عمارت میں کچھ جگہ مختص کر دی جائے لیکن اس جگہ کی نگرانی کا ایک نظام وضع کر دیا جائے۔
ضیاع اور ردی کی تنظیم بھی مفید طریقے سے کرنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے کارکنوں تربیت کرنا پڑے گی۔
عمارت کے تحفظ اور نگرانی کا ایک موثر نظام بھی قائم کرنا لازمی ہے تاکہ عمارت کی بروقت انسپکشن ہوتی رہے۔اب بہت سارے حکومتی ادارے اس انسپکشن کے ذمہ دار ہوتے ہیں جس میں آگ بجھانے والا عملہ، ماحول کے تحفظ کے ادارے، مقامی حکومتیں، صحت و صفائی سے متعلق ادارے، حادثات سے نمٹنے والے ادارے اور پولیس شامل ہیں۔اس لیے تھوڑی سی باہمی گفتگو کے بعد آگ کی روک تھام کے لیے نگرانی کا ایک موثر نظام وضع کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے لیکن باہمی گفتگو ہی سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔
اب گفتگو کیا ہے؟ گویا لشکروں کا ناچ ہے کہ گھوڑوں کی جست و خیز یا کچرے میں جھپٹنے پلٹنے کا کوئی مقابلہ یا شعلے چبانے کا کوئی تماشا۔اب ذرا کچھ لہجہ دھیما ہو جائے تو بانوری چکوری بھی طعنہ زن ہو جاتی ہے کہ تم کہاں کے چندا، تم میں تو کچھ بات ہی نہیں۔لیکن جیسے وہ کہتے ہیں کہ گفتگو ہی ہر مسئلے کے حل کی بنیاد ہے لیکن وہ منہ پھیرے بیٹھے رہتے ہیں اور مسئلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
لیکن بات تو کرنی ہی پڑتی ہے ، اس لیے یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ایک عمارت میں مختلف سہولیات جیسے بجلی،پانی، گیس، سیوریج کے سلسلے نصب کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے کام میں آگ کی روک تھام کا خیال رکھنا چاہیے کہ تاروں کی لٹیں اگر الجھی رہ جائیں تو آگ لگنے اور پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ آگ کی روک تھام کے حوالے سے ان عمارات میں موجود افراد کی تربیت بھی لازمی ہے کہ ایک تربیت یافتہ انسان کہیں بھی ہو،سرمایہ ہی ہوتا ہے ورنہ بڑھتے پھیلتے شجر ظلمت کے خلاف انسانیت کا تحفظ کرنا کار دشوار ہو جائے گا۔
روزنامہ نیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال آتشی حادثات میں 16000 لوگ جان کھو بیٹھتے ہیں اور 164،000 زخمی اور معذور ہو جاتے ہیں۔ اور ان حادثات میں پہنچنے والے مالی نقصانات بھی اربوں کروڑوں تک پہنچتے ہیں اور اس سب سے تحفظ ممکن ہے اور یہ تحفظ قانونی ذمہ داری ہے اور قانونی ذمہ داری کی ادائی جمہوریت سے خلوص، شہریت کی تربیت ،علم و انسانیت سے محبت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
لیکن وہ کہے جاتی ہے کہ مجھے منگا دے جھلا جھل کی اوڑھنی۔ اب لاکھ سمجھاؤ کہ جھلا جھل کی اوڑھنی جلد آگ پکڑ لیتی ہے اور تو باؤلی سی اوڑھنی لہرا لہرا کر چلتی ہے اور ہمارا دل کانپنے لگتا ہے لیکن اسے جھلا جھل کی ہی اوڑھنی چاہیے۔ ہم تو سمجھا سمجھا کر تھک سے گئے ہیں، کچھ آپ کوشش کر دیکھیے کہ دانا و بینا ہیں، شاید آپ کی مان جائے۔