بد اخلاقی کے دینی نمونے کیسے بنتے ہیں؟
(ڈاکٹر عرفان شہزاد)
ہمارے معاشرے میں دینی طبقے کے ہاں دینی غیرت کے نام پر بد اخلاقی کے جو مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں اس کو دیکھ کر اکثر حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اخلاق سکھانے والے دین کے حاملین اتنے بد اخلاق ہوگئے۔ ‘اولیا’ء،’ قطب’ ،’ابدال’ علماء اور عوام، اسلام کے تحفظ کے نام پر ماں بہن کی گالیاں بے دریغ دیتے ہیں اور ان کے اول و آخر نعرہ رسالت بھی لگاتے ہیں۔
جس نبی ﷺ کے اعلٰی اخلاق کی گواہی ان کے دشمن بھی دیتے تھے، جن کے اخلاق کی عمدگی کا اعتراف خالقِ کائنات نے خود فرمایا، اور جن کا اسوہِ حسنہ ان کے ماننے والوں کے لیے کامیابی اور نجات کا واحد ذریعہ قرارد دیا گیا، ان کے نام لیوا ان کے ہی نام پر یہ سب کسیے کرسکتے ہیں!
لیکن اگر اس مزاج کے تشکیلی عوامل جان لیے جائیں تو حیرت ختم ہو جائے گی، افسوس، البتہ، اپنی جگہ، بہر حال، باقی رہے گا۔ یہ تشکیلی عوامل کچھ عمومی نوعیت کے ہاں اور کچھ خصوصی نوعیت کے۔ پہلے عمومیت نوعیت کے عوامل جان لیجیے:
حقیقت یہ ہے کہ انسان جس حیثیت کا بھی حامل ہو، وہ بالآخر، اپنی معاشرتی اقدار کا بندہ اور نمائندہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں پائی جانے والی عمومی بدزبانی، انسانیت کی ناقدری، خصوصاً عورت کے بارے میں متعصب رویہ، یہ سب اقدار بلا کسی کے سکھائے معاشرہ کا ہر فرد اپنے ماحول سے لاشعوری طور پر اپنے اندر جذب کرتا چلا جاتا ہے اور اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتا ہے۔ چنانچہ اس سے صادر ہونے والا عمل اور ردعمل بالکل بے ساختہ ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں راہ چلتے اینٹ پتھر ہٹا دینا، نابینا کو راستہ دکھانا جس طرح ایک معاشرتی قدر ہے، اسی طرح لڑائی جھگڑوں میں گالیاں بکنا، پاگلوں کو چھیڑنا، بہنوں کی جائیداد میں حصہ نہ دینا، عورت کا استحصال کرنا وغیر ہ بھی اجتماعی معاشرتی اقدار ہیں ۔ تقریباً ہر شخص اس کا مظہر ہے۔
شعوری تعلیم و تربیت سے ان منفی اقدار کو ہماری شخصیت سے کھرچنا تعلیم کا بنیادی تقاضا ہو سکتا تھا، لیکن ہمارے مدارس ہوں یا یونیورسٹیز، تربیت ایک شجر ممنوعہ ہے۔ چنانچہ ہمارے یونیورسٹی کا گریجویٹ ہو یا مدرسہ کا مولوی، جب کبھی ایسی صورتِ حال کا شکار ہوتا ہے جو درج بالا اقدار سے متعلق ہیں تو اس کا وہی رد عمل سامنے آتا ہے جو اس نے بچپن سے اپنے ماحول سے سیکھ رکھا ہے۔
لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی، عام طبقات کی طرف سے بد تمیزی ہوتی ہے تو اس کا اخلاقی جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔ تنبہہ کرنے پر معذرت، تلافی ؤغیرہ کر لی جاتی ہے۔ ایسا نہ بھی کریں تو دیگر لوگ اس کو برا سمجھ کر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے جب مذھبی طبقے کی طرف سے ایسی بد اخلاقی کو اخلاقی اور مذھبی جواز بھی فراہم کیا جاتاہے۔ اور معافی تلافی کے امکانات کو بھی رد کر دیا جاتا ہے، جس سے اصلاح کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔
خصوصاً حاملینِ دینِ متین اپنی گالیوں، عورتوں کے ساتھ اپنی تنگ نظری اور ان کے استحصال کے لیے مذھب سے جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ سیرتِ رسولﷺ اس معاملے میں مکمل طور پر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ اس کے چند خصوصی عوامل ہیں۔
ان خصوصی عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ مدارس میں عام طور پر طلبہ کے ساتھ بد زبانی برتی جاتی ہے۔ یہ کلچر وہاں پختہ ہو چکا ہے اور اس کو بد اخلاقی شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ طلبہ کو تمیز سکھانے کے لیے ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا ایک بالکل جائز رویہ سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کی عزت نفس کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ مرغا بنانا، ڈنڈے مارنا، اور گدھا، الو کا پٹھا، خنزیر کا بچہ کہنا عام گالیاں ہیں۔
یہ سب بد اخلاقی، قرآن مجید کے سامنے اس کی تعلیم کے دوران دی جاتی ہیں۔ یہ سب بد تمیزی،دینی ماحول میں برتی جا رہی ہوتی ہے۔ اس لیے بد اخلاقی لاشعوری طور پر ان دین داروں کے کی شخصیت کا جزو بن جاتی ہے۔ قدرت اللہ شھاب نے لکھا تھا کہ تھا کہ انسان گالیاں وہی دیتا ہے جو اس نے خود سنی ہوتی ہیں۔ یہ بداخلاقی اور گالیاں ان کا سرمایہ زندگی اور اپنی اور دین کی حفاظت کے لیے گولہ بارود ہوتے ہیں جو یہ ہر جگہ برساتے رہتے ہیں ۔
البتہ، عوامی فورمز پر یہ کسی نہ کسی طرح وقار کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کی نجی محافل، گالیوں، تہمتوں، غیبتوں سے بھری رہتی ہیں۔ اور پھر کبھی کبھی مصنوعی وقار کا یہ خول عوامی فورمز پر ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ جس کے مظاہر آئے دن ہم دیکھ رہے ہیں۔
مدارس میں ماڈرن طبقے کو دنیا دار قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا دار ان کے ہاں بے دین کے مترادف ہوتا ہے۔ ان سے نفرت اور حقارت سکھائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ دین اب ایک عصبیت بن چکا ہے۔ ان کے ہاں دین کی دعوت دینا بے عزتی محسوس کی جاتی ہے۔ یہ صرف دین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اور دین کے نفاذ کے خلاف یا اس سے اختلاف رکھنے والوں کو دعوت دینے کی بجائے، ان کے ساتھ جہاد کرنا درست طریقہ کار سمجھتے ہیں۔
تلوار کے ساتھ جہاد نہیں کر سکتے تو زبان کے ساتھ ہی سہی۔ دعوت یہ اس لیے نہیں دیتے کہ ان کے مطابق اتمام حجت ہو چکا ہے، ہر شخص پر دین کا پیغام واضح ہو چکا، اب اگر کوئی نہیں مانتا تو اس کی تو گردن مار دینی چاہیے، بد زبانی، ڈانٹ ڈپٹ، اور گالیاں تو بہت معمولی سزا ہیں۔ یہ وہ نفسیات ہے جو بد زبانی کو وجہ جواز، بلکہ باعث اجر قرار دیتا ہے۔
دوسری طرف مشائخ اور خانقاہی نظام کے متعلقین کی بد اخلاقی اور گالیوں کا معاملہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفی ازم کے زیرِ اثر صوفیاء اور عوامی طبقے میں عشق رسولﷺ، ایک خاص مابعد الطبعیاتی تصور کا حامل ہے۔ آیاتِ قرانی اور احادیث کی ادھوری اور غلط ترجمانی، خصوصًا اولیاء اور مشائخ کے خود ساختہ قصوں اور خوابوں اور الہام کے ذریعے عشقِ رسولﷺ کا ایک خاص مفہوم اور اس کے مضمرات عوام کو مسجد کے منبر اور خانقاہ کی گدی سے باور کرائے جاتے ہیں۔
عشق رسولﷺ کی اس خاص تعبیر کے مطابق دنیا اور آخرت کی نجات کے لیے صرف اور صرف عشق رسول ہونا کافی ہے۔ شریعت، مسائل، اعمال و اخلاق کی حیثیت ثانوی ہی نہیں بلکہ محض اضافی ہے۔ مزید یہ کہ عشقِ رسول کے چند مظاہر مقرر کردیے گئے ہیں جن کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو سب کے سب مولوی صاحب کی شخصیت ،ان کی تشہیر اور ان کے معاش کے گرد گھومتے ہیں۔ مثلاً مساجد کی سجاوٹ، میلاد و نعت کی محفلیں اور ان کے لیے کھانے کا انتظامات، جلسے جلوس تقاریر، نعرے اور اب دھرنے بھی۔ عشق رسول کا ایک لازمی تقاضا، اور سب سے بڑا مظہر اس تصور کو نا ماننے والوں سے نفرت اور انہیں گستاخِ رسول سمجھنا ہے۔
اب جو جتنا اس خاص تصورِ عشقِ رسول کے عملی مظاہر میں پرجوش ہوگا ،وہ اتنا بڑا عاشق رسول سمجھا جائے گا۔ پھر یہ کہ ایسے عاشقِ رسول کی اخروی نجات اور خدا اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کی ضمانت حلفًا دی جاتی ہے۔ یعنی عشق ِرسول ایک ایسا اکسیر ہے جس کے بعد کوئی گناہ، کوئی بد اخلاقی آپ کی نجات کی راہ میں حائل نہین ہو سکتی۔
عشقِ رسول کی سند بھی چونکہ مولوی اور پیر صاحب سے ہی ملتی ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ ان کو خوش کرنا اور خوش رکھنا ناگزیر ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ عشقِ رسول کی اسناد بانٹنے اور آخرت کے لافانی فوائد کے بدلے میں مریدین سے دنیا کے فانی فوائد حاصل کرتے ہیں اور بے حد کرتے ہیں۔ یہاں تک کے بھوکے، مفلس مریدوں سے بھی نذرانے وصول کرتے ہیں اور اپنی خاندان اور اولاد کے لیے شاہانہ زندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی مستحکم پیر صاحب کے اثاثہ جات اور ان کے ذرائع آمدن کو دیکھ لیجیے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔
اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ معتبر اور سنجیدہ علماء اپنے مدارس او ر خانقاہوں میں پلنے والے اس کرادر اور ذہنیت کے بارے میں عمومًا کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں، وجہ یہی ہے کہ عوام مین اسلام کی یہی تعبیر معروف ہے اور اس دھارے کے خلاف بات کرنا خود کو مطعون کرانے کے مترادف ہے۔
اب ان میں سے جو یہ ہمت کرتے ہیں ان کو اس روایتی فکر کے حاملین کی طرف شدید طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد میں دئیے جانے والے صوفیاء کے دھرنے میں ہونے والی کھلی گالم گلوچ اور بد اخلاقی کے باوجود معتدل اورمعتبر علماء نے زبان بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔
عوام میں پائے جانے والی نفاذِ اسلام کے تحت پرورش پانے والی خاص نفسیات، عشقِ رسول پر مبنی اس غلط دینی تعبیر کی جڑیں صدیوں پرانی بعض صوفیاء کی روایت سے چلی آتی ہیں، اس کو تبدیل کرنے کا طریقہ ہے نصاب میں سیرتِ رسولﷺ کو شامل کیا جائے، دین کی اخلاقی تعلیمات کو درست طریقے سے اجاگر کیا جائے، بتایا جائے کہ دین کی اصل حقیقت دعوت ہے، جسے ہر حال میں مد نظر رکھنا چاہیے۔
معتبر علماء کرام شہادتِ حق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سامنے آئیں۔ اپنوں کے غلط رویوں پر نکیر کریں، عوام کو مخاطب کریں۔ ان کے لیے علمی مجالس منعقد کی جائیں جو غیر علمی دینی مجالس کی جگہ لے سکیں۔ اس طرح عوام کو قرآن اور سنت کے درست اور مستند ماخذ سے روشناس کرائیں۔
آخری بات یہ کہ میڈیا نے بھی گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹاک شوز میں ایسے سیاستدانوں جن کا اپنا سیاسی وزن صفر ہے، محض ان کی بد زبانی کی شہرت کی وجہ سے بلائے جاتے ہیں بلکہ دیگر سیاست دانوں سے بھی زیادہ انہیں وقت ملتا ہے، جو کوئی مفید بات نہیں کر سکتے سوائے بد زبانی کرنے کے۔ اور یہ سب شو کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
عمران خان کی صلاحیتوں کا مداح ہونے کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی گالی کے سیاسی کلچر کو پھیلانے میں معاشرتی سطح پر بہت اثر ڈالا۔ شہرت کے حصول کے لیے اب تو بد زبانی میں مسابقت چل پڑی ہے۔ معاملہ یہیں نہیں رکے گا۔ گالی پہلے گریبان اور پھر گولی تک لے جاتی ہے۔ یہ صورت حال سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت المناک ہے۔