کیا ناخواندہ لوگ ملک کو ترقی نہیں کرنے دیتے؟
از، شمع عزیز
ریاست کا انتظام و انصرام پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہے کیونکہ یہاں منتخب نمائندوں سے زیادہ سول و ملٹری افسر شاہی نے بلا شرکت غیرے حکمرانی کی ہے۔ ظاہر ہے اب 20 یا 22 گریڈ کا افسر ان پڑھ تو ہو نہیں سکتا بلکہ وہ تو اعلی تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔
یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ پچھلے 70 سال سے اصل اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے مگر اس طبقے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
اس گُتھی کو مزید کھولنے پر کچھ سنجیدہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ طبقہ صلاحیت سے عاری ہے؟ کیا ان کے پاس وسائل نہیں ہیں؟ کیا انہیں مُلک سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں یا یہ فطری کاہلی اورآلکس کا شکار ہے؟
ان تمام سوالوں کے جواب اس طبقے کی اجتماعی ذمہ داریوں اور کردار کے تاریخی تناظر میں موجود ہیں۔
صلاحیت کو بڑھانے والے عناصر میں تعلیم کا معیار سب سے اہم اور بُنیادی ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں جو کچھ ’پڑھایا‘ جاتا ہے اس کا عکس اجتماعی شعور اور عمل میں ظاہر ہوتا ہے۔
یہ عکس اس اعلی تعلیم یافتہ طبقے کی پالیسیوں کی صورت ان کے مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کی اکثر پالیسیاں درآمد شُدہ، تعصب، تنگ نظری اور خود پرستی کے اوراق میں لپٹی نظر آتی ہیں۔
عقل کُل کے آسیب کا شکار یہ طبقہ نصاب کے جھوٹ اور تعصب پر مبنی فلسفے سے باہر جھانکنا ہی نہیں چاہتا۔ اس کا مشاہدہ کنویئں کے مینڈک کی طرح محدود، پرانا اور مسخ شدہ حقائق پر مبنی ہے۔
اُس کی وجہ یہ ہے کہ منطق اور عقل پر مبنی بات کو ’سازشی‘ عناصر میں سے ایک سمجھ کر نصاب کا حصہ نہیں بننے دیا گیا۔ سائنس کو پہلے خلاف مذہب قرار دیا گیا اور پھر یہ دعویٰ کیا گیا کہ سائنس قرآن سے ’برآمد‘ ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ ظلم تاریخ کے ساتھ ہوا۔ مفاد پرستوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ڈاکوؤں اور لٹیروں کو قومی ہیرو بنا دیا۔
مسخ شدہ بیانیہ صرف شدت پسندوں یا مذہبی انتہا پسندوں کے ہی وارے میں نہیں آتا بلکہ یہ ریاست کے مقتدر اداروں کی بقا کے لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
اب جب بھی نصاب کو تبدیل کرنے کی تجویز آتی ہے تو اس طبقے کا روایتی حلیف سڑکوں پر آ جاتا ہے اور اسے دین کے خلاف سازش قرار دے کر لوگوں کو گُمراہ کرتا ہے ۔
میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے؟ میں سمجھتی ہوں ایسا نہیں ہے۔ سونے کی چڑیا کےنام سے مشہور یہ خطہ جغرافیائی حدود کی اہمیت سے لے کر معدنی، آبی اور زمینی وسائل سے لے کر موسمی اورحیاتیاتی تنوع سے بھر پور ہے۔
تو کیا انہیں مُلکی مفادات سے ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں؟
نوکر شاہی سے وابستہ یہ چھوٹا سا طبقہ دن بدن امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے، ان کے اثاثہ جات میں دیکھتے دیکھتے کئی سو گُنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ ہر قسم کی ’نعمت ‘سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر مُلک پر قرضوں کا بوجھ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، فی کس آمدن مہنگائی کے حساب سے کم پڑتی جا رہی ہے، مُلکی اثاثہ جات کو پرائیویٹ کمپنیوں سے اونے پونے بیچا جا رہا ہے۔
اس عالم میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طبقے کی مراعات کم کر دی جاتیں تاکہ مُلک کی نیا کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے مگر ہو اس کے اُلٹ رہا ہے۔
سیکرٹری کی سطح کے ریٹائر افسر کو یوٹیلٹی بل سے لے کر گاڑی ، مکان اور بھاری پنشن سے نوازا جاتا ہے، جرنیلوں کو دیگر مراعات کے علاوہ کروڑوں اور بعض صورتوں میں اربوں روپے کی زمینیں ملتی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے محنت کشوں اور فاقوں پر مجبور عوام کو پیغام دیا جاتا ہے کہ ملک کا اصل مالک کون ہے؟
اب ہم آخری سوال کی جانب بڑھتے ہیں۔ کیا یہ اعلی تعلیم یافتہ طبقہ فطری کاہلی اور آلکس کا شکار ہیں؟
انسان کی فطری رویوں پر کسی خطے کے موسمی اثرات کا اثر ضرور ہوتا ہے مگر اس حد تک نہیں کہ انسان کچھ کرنے کے قابل نہ رہے۔ ویسے بھی اگر یہ کاہل اور سُست ہوتے تو اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اتنی پُھرتیاں نہ دکھاتے۔ تاریخ گواہ ہے جب جب ان کے اقتدار کو تھوڑا سا بھی خطرہ محسوس ہوا، انہوں نے اُس رُکاوٹ کو فوری طور پر اپنے راستے سے ہٹا دیا۔
جو شخص یا پارٹی مزدوروں، کسانوں یا کمزوروں کی بات کر تی ہے یا اسے منظم کرنے کی کوشش کرتی ہے اسے مختلف طریقوں سے روایتی ڈگر اختیار کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ پارٹیوں کو کرپٹ کرنے کی ابتدا قیام پاکستان سے ہو گئی تھی لیکن اسے عروج جنرل ضیا کے دور میں ملا۔ اس کا مطلب ہے یہ کاہل نہیں بلکہ کایاں ہیں۔
اسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ مُلک کی باگ ڈور تو پڑھے لکھوں نے سنبھال رکھی ہے مگر تنزلی اور ابتری کا الزام ناخواندہ افراد پر آتا ہے۔ پڑھی لکھی اشرافیہ کا یہ طبقہ ناکارہ تعلیم کا سب سے بڑا محافظ ہے کہ اس کے ذریعے مفاد پرستوں کی ایسی کھیپ تیار کرتا ہے جو اپنے آقا کی وفاداری میں زمین زادوں پر پسماندگی کی تہمت لگا کر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو جاری رکھتی ہے۔
ان کی بڑی بڑی کوٹھیوں پر لکھا ہوتا ہے ’ہٰذا من فضل ربی‘ اور گاڑی کی پُشت پر ’یہ میری ماں کی دعاوں کا اثر ہے‘۔ آخر پڑھے لکھے ہیں کچھ بھی لکھوا سکتے ہیں۔
بشکریہ: نقطہ نظر سجاگ