علم اور تعلیمی ادارے

aik Rozan Dr Mubarak Ali
ڈاکٹر مبارک علی

علم اور تعلیمی ادارے

(ڈاکٹر مبارک علی)

تاریخی کے ابتدائی ادوار میں انسان کی بقا اور وجود کا دارومدار اس کی جسمانی طاقت و قوت پر تھا، بعد میں ہتھیاروں نے اسے اپنی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے جنگجویانہ طریقے سکھائے۔ جنگجو افراد نہ صرف اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے خود کو ممتاز رکھتے تھے بلکہ یہ اپنے سے کمزور لوگوں کی حفاظت کر کے ان کی نگاہوں میں بھی عزت ووقار حاصل کرتے تھے۔

اس لئے تاریخ میں فاتحین، حملہ آور، اور جنگجو لوگوں کا کردار بڑا فعال اور متحرک ہے اور معاشرہ ایسے لوگوں کی قدر کرتا تھا کہ جن میں بہادری، شجاعت، جوان مردی، اور بے خوفی کی صلاحیتیں ہوتی تھیں۔ اس ماحول میں ایسی روایات ابھریں کہ جو افراد کو مجبور کرتی تھیں کہ وہ اپنے میں جنگجویانہ خوبیاں پیدا کریں۔ جنگ میں ثابت قدم رہنا، سینہ پروار کھانا، پھیرنا، جنگ سے فرار نہ ہونا، اور بزدلی اور کمزوری نہ دکھانا۔ یہ سب روایات جنگ جویانہ ماحول کی تشکیل شدہ تھیں۔

اس ماحول میں علم وذہنی صلاحیتوں کے لئے حیثیت تھی۔ اگر حکمران فوجی طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کر لیتا تھا اور حکومت کرتا تھا، مگر ملکی وانتظامی معاملات کے لئے اسے اہل علم کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس لئے اس ابتدائی دور کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر حکمراں کا کوئی نہ کوئی دانش مند اور عقل مندوزیر ہوتا تھا، جو اس ملکی امور اور انتظامی معاملات میں مشورے دیا کرتا تھا۔

ایران کی تاریخ میں، ہمیں دانش مند وزیر بزر جمہر کا ذکر ملتاہے، ہندوستان میں موریہ دور میں کوٹلیا یا چانکیہ کا ذکر ہے کہ جس نے موریہ سلطنت کے استحکام میں حصہ لیا۔ اور ارتھ شاستر لکھی۔ عباسی دور میں بھی ہمیں ہارون کے وزیر جعفر اور مامون کے وزیر فضل بن سہل کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔ نظام الملک سلجوقی خاندان کا وزیر تھا کہ جس نے ان کی راہنمائی کے لئے سیاست نامہ لکھا۔ اکبر کا دوست اور مصاحب ابوالفضل تھا کہ جو اکبر کو علمی ومذہبی معاملات میں مشورے دیتا تھا۔

قدیم ہندوستان کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آریوں کی آمد کے وقت جنگجو افراد کی زیادہ اہمیت تھی۔ کیونکہ انہوں نے ہی فتوحات کیں تھیں، لیکن بہت جلد برہمنوں نے اپنے علم ودانش مندی سے کشتریوں یا لڑاکو لوگوں کی ذات کو ثانوی حیثیت دے دی۔ کیونکہ انہوں نے عبادات اور مذہبی رسومات کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا کہ ان کے علاوہ اور کوئی انہیں ادا نہیں کر سکتا تھا، چونکہ ان رسومات کا تعلق فرد کی پیدائش سے لے کر موت تک، بلکہ موت کے بعد بھی ہوتا تھا، اس لئے برہمن معاشرے کے لئے لازمی بن گئے۔

لہٰذا اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے انہوں نے علم پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی دوسری ذات والوں کے لئے اور خصوصیت سے نچلی ذات والوں کے لئے اس کا حصول ناممکن بنا دیا۔ علم پر اجارہ داری، اور علم کی طاقت کی بنیاد پر برہمنوں نے نہ صرف لوگوں کے ذہنوں کو اپنے تسلط میں لے لیا۔ بلکہ سیاسی طور پر ملکی اور انتظامی معاملات بھی ان کے ہاتھوں میں آگئے۔ اس طرح سے سیاست اور مذہب نے مل کر لوگوں پر حکومت کرنا شروع کر دی۔

دونوں کے اشتراک کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم ان کے مفادات کا ذریعہ بن گیا۔ اہل اقتدار کے قائم کردہ اداروں اور روایات کے ذریعہ جو علم تخلیق ہوا، اس کا مقصد عام لوگوں کو ذہنی طور پر وفادار، تابع، اور حکمران طبقوں کے ماتحت رکھنے پر زور دیتا تھا۔ اس لئے کوشش ہوتی تھی کہ ایسے علم کو فروغ دیا جائے جو مستحکم شدہ اداروں کے مفاد میں ہو …. اس کے برعکس ہر اس فکر، خیال، اور نظریہ کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا تھا، جو ان روایات اور اداروں کے دائرہ سے باہر ہوتا تھا۔

اگر علم کے ذریعہ مذہبی عقائد کو چیلنج کیا جاتا تھا، ایسے علم اور اس سے تشکیل شدہ افکارونظریات کو فوراً مشرکانہ اور کافرانہ کہہ کر یا ایسے لوگوں کو ملحد قرار دے کر انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ اگر سیاسی نظام کے خلاف علم ہوتا تھا تو اسے ملک وقوم کے دشمن قرار دے کر اور باغی بنا کر اس علم کے پیروکاروں کو قید وبند سے گزرتا ہوتا تھا یا زندگی سے ہاتھ دھونا ہوتے تھے۔

اس لئے ابتداء سے لے کر آج تک متبادل علم مذہب اور سیاست دونوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے، اور حکومت ومذہبی ادارے دونوں کوشش کرتے ہیں کہ روک دیا جائے اور اس پرپابندی لگا دی جائیں۔ قرون وسطیٰ میں چرچ نے مخالف علمی و مذہبی نظریات کو روکنے کے لئے انڈکس کا طریقہ شروع کیا تھا، اس میں ان کتابوں اور تحریروں کا ذکر ہوتا تھا کہ جو چرچ کے عقائد کے خلاف ہوتی تھیں۔ چرچ کے عہدیدار یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں لکچرز سنا کرتے تھے کہ ان کے ذریعہ مخالفانہ نظریات کا پرچار تو نہیں ہو رہا ہے۔

چنانچہ آمرانہ حکومتوں اور قدامت پرست حکمرانوں نے متبادل علم کی اشاعت روکنے کیلئے سنسر شپ کو شروع کیا تاکہ ایسی کتابیں اور تحریریں شائع نہ ہوں جن سے ان کے مفادات کو نقصان ہونے کا خطرہ ہو۔ آسٹریا کے چانسلر میٹرنش نے اس سنسر شپ کو اس قدر وسیع کر دیا تھا کہ اساتذہ او ر طالب علم جولائبریری کتابیں نکلواتے تھے، ان پر بھی نظر رکھی جاتی تھی۔

لیکن جہاں علم پر یہ پابندیاں ہوتی ہیں، وہاں متبادل علم کو پیش کرنے والے اپنے خیالات کی تبلیغ اور مستحکم شدہ علوم کو چیلنج کرنے کے لئے کئی راستے اختیار کرتے ہیں جن میں خفیہ انجمنوں کا قیام، خفیہ طریقوں سے کتابیں اور رسائل کی تقسیم وغیرہ ہوتی ہے۔

اس پس منظر میں ہم بہتر طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں کہ جن معاشروں میں علوم آزاد ہیں، بات کہنے کی آزادی ہے اور تحریروں پر پابندی نہیں ہے، معاشروں میں علم ترقی کرتا ہے اور فروغ پاتا ہے، نئے خیالات وافکار ذہن کو تازہ رکھتے ہیں، معاشرہ تبدیلی کو قبول کرتا ہے، روایات وادارے وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، مگر جن معاشروں میں تحریر وتقریر پر پابندی ہوتی ہے، ایسے معاشرے جمود کا شکار ہو کر ذہنی طور پر ٹھٹھر جاتے ہیں۔

نو آبادیاتی دور میں انگریزوں نے علم کی طاقت اور اس کے اثر کو پوری طرح سے سمجھ لیا تھا، اس لئے انہوں نے جہاں فوجی طاقت کے ذریعہ ہندوستان کو اپنے تابع رکھا، وہاں انہوں نے تعلیم کے ذریعہ ذہنوں کو تبدیل کر کے انگریزی حکومت کی برکتیں لوگوں کے ذہن نشین کرائیں۔ اب تک تعلیم ریاست کے کنٹرول میں نہیں تھی۔ مگر انگریزی حکومت نے اسے اپنے کنٹرول میں لے کر تعلیمی نصاب کے ذریعہ سے طالب علموں کے ذہنوں کو اس طرح سے ڈھالا کہ وہ ان کی حکومت کے لئے مفید ثابت ہوں۔

تقسیم کے بعد پاکستان کی ریاست نے بھی تعلیم پر اپنے کنٹرول رکھا اور جیسے جیسے پاکستان ایک نظریاتی ملک بنتا چلا گیا، اس طرح سے تعلیمی نظام میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی۔ حکومت نے ذرائع ابلاغ کو بھی اپنی ماتحتی میں لے کر انفارمیشن کو کنٹرول کر لیا۔ جب ملک میں فوجی حکومتیں آئیں تو سنسر شپ اور انفارمیشن کے حصول پر مزید پابندیاں لگ گئیں۔

اس وقت پاکستان میں علم پر دو طرح کی قدغنیں ہیں: ایک ریاستی کہ جو قانونی ذریعہ سے نظریاتی افکار کو چیلنج کرنے سے روکتا ہے۔ دوسرے معاشرے میں ایسے گروہ اور جماعتیں ہیں کہ جو اہل علم کو خوفزدہ کرتی ہیں کہ کوئی بات ان کے نظریات و افکار کی مخالفت میں نہ کی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی افکار کی راہیں بند ہو گئی ہیں۔ ریاستی اور معاشرتی دباؤ کے نتیجہ میں اہل علم سنسر شپ کے تحت خود اپنی تحریروں پر پابندیاں لگاتے ہیں۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے مخالفت فکر صاف اور واضح الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دانشوری کی روایات ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ جب دانشوری کی روایات ختم ہو جائیں، اور جب متبادل علم و تحقیق نہ ہو، تو ایسی صورت میں ملک میں آمرانہ اور مطلق العناق حکومتوں کے لئے میدان صاف ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی انہیں چیلنج کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔

اگر کوئی معاشرہ اپنا نالج سسٹم تخلیق نہیں کرتا ہے تو وہ ذہنی طور پر کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس مقدمہ لڑنے کی، یا اپنا کیس پیش کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں چاہے وہ غیر ملکی امور ہوں، تجارت ومعیشت ہو، یا ملکی حالات ہوں، ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اپنی بات کو دلیل کی قوت سے پیش کیا جائے، اگر جذبات کے سہارے اپنا کیس پیش کیا جائے گا تو وہ نہ تو کسی کو متاثر کرے گا اور نہ حمایت پر آمادہ کرے گا۔

متبادل علم، نئے افکار ونظریات اور خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ اس کی جگہ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں، خاص طور سے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور تحقیقی انسٹی ٹیوٹس کہ جہاں اہل علم اور اسکا لرز تحقیق وتنقید کے ذریعہ نئی فکر کو پیدا کرتے ہیں۔ اس لئے سوال ہوتا ہے کہ کیا ہماری یونیورسٹیاں اس مقصد کی تکمیل کر رہی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

پاکستانی ریاست کے ساتھ ابتداء ہی سے یہ مسئلہ رہا کہ اس نے خود کو ایک نظریاتی ریاست ہونے کا دعویٰ کیا، اس کی وجہ سے آنے والی حکومتوں نے تعلیمی اداروں اور ان کے نصاب کو نظریہ کے تحت تشکیل دینا شروع کر دیا۔ جو مختلف تعلیمی پالیسیاں بنائی گئیں ان میں اس کا اعلان کیا گیا کہ تعلیم کا مقصد اچھے مسلمان اور پاکستانی پیدا کرنا ہے لہٰذا علم کو ان دو مقاصد میں محدود کر کے اس وسعت کو گھٹایا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نصاب خشک سے خشک تر ہوتا چلا گیا، گھسی پٹی باتیں اور خیالات کو باربار دہرایا جاتا رہا۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے مضامین کو لازمی کر دیا گیا کہ جن میں طالب علموں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

جب سوچ وفکر کی راہیں بند ہو گئیں، اور تخلیق کے تمام سوتے خشک ہو گئے تو اس تعلیمی نصاب سے طالب علموں کی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ تعلیمی ادارے ان کے لئے دلکشی کا باعث نہیں رہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ طالب علموں نے مطالعہ اور تحقیق کے بجائے نقل کر کے امتحان میں پاس ہونا زیادہ مناسب سمجھا، کیونکہ جس قسم کا تعلیمی نصاب ہے اس میں پڑھنے اور سیکھنے کی گنجائش بہت کم ہے۔

اس صورت میں ہمارے تعلیمی ادارے ایک تو نصاب کی خرابی کی وجہ سے علم حاصل کرنے اور تحقیق کرنے میں ناکام ہو گئے، دوسرے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلب علموں کی سیاسی جماعتوں نے ان پر قبضہ کر کے وہاں اپنا تسلط قائم کر لیا۔ یہ جماعتیں طالب علموں کو امتحان میں نقل کرانا، جعلی ڈگریاں دلوانا، اساتذہ کو مارنا پیٹنا، انہیں ہراساں کرنا، یونیورسٹی انتظامیہ سے بھتہ وصول کرنا، اس قسم کے سارے کام کرتی ہیں۔ عام طالب علم اس لئے ان کے رحم وکرم پر ہوتا ہے کیونکہ یہی اسے ہاسٹل میں کمرے دلواتی ہیں، استادوں پر دباؤ ڈال کر نمبر دلواتی ہیں، اور یونیورسٹی انتظامیہ سے اس کے کام کرواتی ہیں۔

اس مضمون کع بھی ملاحظہ کیجئے: مذہبی اور دنیاوی نظام تعلیم کی بحث از ڈاکٹر فاروق احمد

ان حالات میں حکومت یونیورسٹی کا وائس چانسلر اب اس کو نامزد کرتی ہے کہ جو طالب علموں کی ان جماعتوں کو قابو میں رکھ سکے۔ اب اسکالرز اور اہل علم کے بجائے فوج کے جنرل وائس چانسلر ہوتے ہیں۔ اب علم سکھانے کے بجائے،طالب علموں پر کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیمی ادارے ہر لحاظ سے اپنی افادیت کھو چکے ہیں، یہ سازش ، گٹھ جوڑ، اور خوشامد کے ادارے بن گئے ہیں کہ جہاں نااہل اساتذہ نااہل طلباء کو ڈگریاں دے کر فارغ کرتے ہیں۔

چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ اب ہمارے اساتذہ طالب علموں اور معاشرہ کو اپنے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اب ہماری تاریخ، ادب، آثار قدیمہ، معیشت، اور دوسرے سماجی علوم کے بارے میں امریکہ اور یورپ کے اسکالرز آ کے بتاتے ہیں۔ اس لئے ہمارا جو امیج ان کی نظروں میں بنتا ہے ہم بھی اسی آئینہ میں خود کو دیکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے لئے اجنبی ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں اردو میں جو کتابیں چھپتی ہیں، وہ یا تو ادبی ہوتی ہیں یا مذہبی ۔ سماجی یا نیچرل سائنس پر یہ کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی حال دوسری مقامی زبانوں کا ہے۔ اس لئے جب قومی اور مقامی زبانوں میں کوئی تحقیق نہیں ہو گی، تو زبانیں فکر اور خیال کے اعتبار سے کمزور رہیں گی، اور ان زبانوں کے بولنے اور جاننے والوں کا ذہن بھی اس مواد پر بنے گا کہ جو اس میں شائع ہوتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت جس شدت کے ساتھ نظریاتی بندھنوں میں جکڑا ہواہے، اس سے آزاد کرانے کے لئے متبادل علم وفکر کی ضرورت ہے جو ریاستی افکار ونظریات اور معاشرہ کی انتہا پسندی کو چیلنج کر سکے۔ اگرچہ متبادل علم کے لئے مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے لوگوں تک پہنچنے کے لئے مشکلات ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ علم لوگوں کا کیریر بنانے میں مدد نہیں دیتا ہے، نہ اس کے ذریعہ ریاست میں پذیرائی ہے، اور نہ ہی معاشرے میں مقبولیت ملتی ہے، لیکن اس سے ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے، نیا ذہن پیدا ہوتا ہے اور ذہن جب عقائد اور نظریہ کے بندھنوں کو توڑتا ہے تو وہ خود کو ایک وسیع اور روشن ماحول میں پاتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک نئی دنیا تعمیر ہوتی ہے، ایک نیا معاشرہ پیدا ہوتا ہے اور اسی سے زندگی ایک جگہ ٹھہرے رہنے کے بجائے آگے کی جانب بڑھتی ہے۔


بشکریہ: نیا زمانہ