علموں بس کریں او یار
ڈاکٹر صغرٰی صدف
بلھے شاہ پنجاب کا مان، پاکستان کی شان، انسانیت کا علمبردار اور آفاقیت کا پرستار ایسا صوفی شاعر ہے جس نے پہلی دفعہ وہ سوالات اٹھائے ہیں جو ازل سے انسان کے ذہن میں کلبلا رہے تھے مگر اسکی زبان پر نہیں آتے تھے۔
سقراط نے کہا تھا کہ بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ نہیں جانتا۔ علم کے رستے پر ثابت قدمی سے چلنے والا بندہ کبھی بھی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ کیوں کہ اسے علم ہو جاتا ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں اور وہ حد کو پا لینے کی خواہش میں لاعلمی کا اعلان کرتا آگے بڑھتا رہتا ہے۔
بُلھا بھی کئی برس بھولا رہا۔ جب وہ علم کے اونچے اونچے محل مناروں کے بڑے دروازے اور الماریوں کی چمک دمک میں گھرا اندر داخل ہوا تو اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ایک اور دنیا اس کے انتظار میں تھی۔ مختلف شکلوں، رنگوں، نسلوں، قوموں، مذہبوں اور خاندانوں کے فخر میں ڈوبا بندہ اپنا آپ ہی بھول بیٹھا۔
بُلھا ایک طرف کھڑا ہو کے تماشا دیکھتا رہا۔ پھر اسے لگا وہ تماشا نہیں تماشائی بن چکا ہے۔ اسے لگا اس کا اپنا جسم بھی کہیں گم ہو گیا ہے اور باقی اجسام کے ساتھ ایسے گھل مل گیا ہے کہ جیسے کسی برتن میں گندم کے دانے ایک جیسے لگتے ہیں اور ان میں کوئی فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کا شعور کہیں ہلکا سا جاگ رہا تھا۔ سو اسے اپنی منفرد پہچان کو ڈھونڈنے کے لیے حضرت آدمؑ سے سفر شروع کرنا پڑا لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر شیشے میں بس ایک ہی شبیہ تھی۔ اس لیے وہ بول اٹھا:
کیہ جاناں میں کون
ایک بندے کی اتنی ساری شکلیں دیکھ کے اس کا ذہن مزید پریشان ہو گیا۔ اس کے دل میں اول کا عشق تھا اور ازل سے تھا۔ اس نے تلاش شروع کی اور ایک کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ اردگرد ہر طرف فطرت کے ہر شیشے میں اسے ایک تصویر نظر آنے لگی، جو اسے بندوں میں بھی نظر آتی تھی۔ اسے معلوم ہوا یہ روحِ مطلق ہے جو ایک ہے اور ہر شےپر صادر کرتی ہے۔ اس لیے دنیا میں صرف ایک ہی ایک ہے باقی جو کچھ نظر آتا ہے وہ آنکھ کا قصور ہے۔ اس نے زیادہ بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے ایک نکتے میں بات ختم کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو بھی سمجھانا شروع کر دیا کہ ’’ایک‘‘ کےعینک لگاؤ، دوئی کا چولا اُتار دو، اور ایک کے رنگ میں رنگ جاؤ۔ کیوں کہ احد اور احمد، ع اور غ ایک ہی ہیں احد اکیلا ہے۔ احد کا جلوہ ہر شے ہر منظر میں ہے۔ ہر دل اور ہر روح میں ہے لیکن وہ کسی ایک وچ میں ظاہر نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے لیکن اوجھل بھی ہے جب کہ اسے ڈھونڈنے کے لیے کئی پردوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ کچھ پردے آنکھوں، کچھ دل اور کچھ روح کے ہوتے ہیں جب کہ احمد بھی اکیلا ہے لیکن میم یعنی مادے کے ایک لطیف سے پردے نے ان کو ایک ظاہری روپ دیا ہوا ہے۔
ان کا جلوہ بھی ہر شے میں موجود ہے لیکن وہ ایک وجود میں ظاہر ہیں۔ جب ہر شے میں احد کا روپ ہے تو پھر برا کس کو کہیں، بلھے شاہ کو پوری دنیا ایک تسبیح میں پروئی لگنے لگی۔ تسبیح کے سارے دانے اس دنیا کے باشندے تھے جن کے ظاہری روپ میں کوئی اونچ نیچ بُلھے کو نظر نہیں آتی تھی کیوں کہ سب وحدانیت کے دھاگے میں بندھے ہوئے تھے اور ہر وقت دھاگے کو دل کے ساتھ لگاتے پھرتے تھے۔ ان کی روح میں ایک شمع جلتی تھی اور ان کی آنکھوں میں ایک ہی دیا روشن تھا۔
اس لیے سب کے دل کی آواز بھی ایک ہونی چاہیے تھے کیوں کہ لفظ نامانوس ہو سکتے ہیں لیکن مفہوم اور معنی ایک ہی رہتا ہے۔ بُبُلھے شاہ کو مولانا روم کی بانسری اور کاہن (کرشن مہاراج) کی بانسری میں ایک ہی سُر سنائی دیتا تھا۔ دونوں وجدان، حقیقت اور عشق کی بات کرتے تھے۔ کاہن کی بانسری روح کی روحِ مطلق کے ساتھ وصال کا سندیسہ لے کے آتی اور جدائی کا رونا روتی رہتی۔ کاہن کی بانسری آخری وقت جب عزرائیل دروازے پر کھڑے تھے، بھی اپنا پیغام پہنچاتی رہی۔
روح کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا جواب ظاہری نہیں باطنی طور پر ممکن تھا۔ اس موقع پر ایسے علم کی ضرورت تھی جو آنکھیں بند کر کے حاصل کیا جاتا اور جس میں حرف اور لفظ کی محتاجی بھی نہ ہو۔ بُلھے شاہ پر ظاہری علم کی وقعت ظاہر ہو گئی تو اس نے کہا:
علموں بس کریں او یار
اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ بالکل ہی علم حاصل کرنے کے خلاف تھا بلکہ وہ صرف ظاہری علم پر اِترانے کو مٹانا چاہتا تھا۔ بلھا ظاہری دنیا سے آگے باطنی دنیا کی سیر کرنا چاہتا تھا جو ظاہری آنکھوں سے اوجھل لیکن موجود ہے۔ اس کے لیے ضروری تھی کوئی ایسی معتبر ہستی جو اس کی انگلی پکڑ کر اسے اک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف لے جائے اور اسے روحانی اسراروں سے واقف کرائے۔ بُلھے کی خوش بختی کہ اسے شاہ عنایت قادری جیسی روحانی ہستی مل گئی جس کا تن من عشق کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ بُلھے نے ان کا ہاتھ پکڑ کر سفر کا آغاز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو معلوم ہوا پہلے روح کو مادے کے اثر سے آزاد کرنا ہو گا۔ آگ، پانی، مٹی، ہوا سے بنے جسم سے تخریب نکال کر تعمیر کو چمکانا پڑے گا۔ دل کو حرص و ہوس سے پاک کرنا ہو گا۔ وجود سے مادے کی کثافت ایسے دھونی پڑے گی کہ ہر شے آر پار نظر آنے لگے۔ سوچ کی دھلائی کر کے اسے اک مرکز پر مرکوز کرنا ہو گا۔
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن نامعلوم کو جاننے کی خواہش نے بُلھے کو کچھ سمجھایا، اس نے دِل میں انا الحق کا نعرہ لگایا اور خوشی سے اپنے وجود کو پھانسی پر لٹکا کر ایک نئے وجود کو روح پر اوڑھ لیا۔ یہ نیا وجود اس نے اپنی ہر انا اور خودداری کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا۔
شاہ عنایت کی نظر کرم نے بُلھے کو علم سے اگلی منزل یعنی عشق کے رستے پر ڈالا جس کی کئی منزلیں تھیں۔ عشق حقیقی یا معرفت سے پہلے مجازی عشق کا ڈیرہ تھا۔ بُلھا بہت دیر اس پُل پر بیٹھ کر مجاز کے دریا میں تن من سیراب کرتا رہا۔ مجازی رنگ نے بُلھے کی تانگھ کا حسن اور دوبالا کر دیا، اس کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ اس کے حرفوں سے مٹھاس اور لفظوں سے وصال کی خوشبو آنے لگی۔ وصال کی ادھ موئی تانگھ نے طبیب کو کئی چٹھیاں لکھیں اور کبھی بُلھے کا وجود اوڑھ کر تھیا تھیا ناچنے لگی۔ اس عشق نے بُلھے کی سدھ بدھ بھلا دی اور اسے پوری طرح دیوانہ کر دیا۔ کُل جُز میں سمٹ آیا تو بُلھے نے والہانہ رقص کرتے کہا:
حاجی لوک مکے نوں جاندے میرا رانجھا ماہی مکہ
پھر حقیقی محبوب آپ بھی مجاز میں نظر آنے لگا تو بُلھے کو کہنا پڑا:
ڈھولا آدمی بن آیا
وحدت الوجود کے رستے پر چلتے بُلھے کے لیے مجاز اور حقیقت اک مِک ہو گئے۔ کبھی مجاز کا رنگ غالب آ جاتا تو کبھی حقیقت کا۔ فنا کے علاقے میں قدم رکھتے ہی اسے انا الحق کا نعرہ بلند کرنا پڑا لیکن لفظوں کے ہیر پھیر نے اسے بچا لیا کیوں کہ اس نے علامتوں کے ذریعے اپنے دل کی کیفیت بیان کر دی:
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
قطرہ سمندر میں مل کے اس کا حصہ بن گیا۔ جب ایک کا جلوہ اسے اندر باہر ہر طرف نظر آنے لگا تو بُلھا اپنے آپ میں نہ رہا۔ اسے حیاتی کے سارے نظم و ضبط بھول گئے، عشق کے سبق نے بُلھے کو ظاہری عالموں سے دور کردیا۔ عشق کی رمز نے اندر باہر صفائی کی تو نفس کے سارے بُت پاش پاش کر دیئے۔ اسے ہر جلوے میں محبوب نظر آتا تھا لیکن مکمل وصال کی خواہش اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتی تھی۔
گھونگھٹ چُک اوئے سجناں
یہ گھونگھٹ مادے اور روح کے درمیان حائل پردہ ہے جو ایک لمبی ریاضت کا متقاضی ہے۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ