نو رتن اور ریلو کٹے
از، معصوم رضوی
ہندوستان ظہیر الدین بابر نےفتح کیا مگر مغل سلطنت کا بانی بلا شبہ جلال الدین اکبر ہے، شہزادہ اکبر، سکندر سُوری کے تعاقب میں تھا کہ ہمایوں کی موت کی اطلاع ملی، سپہ سالار ہیمو بقال نے تخت دھلی پر قبضہ کیا اور شہزادے کو اطاعت کے لیے طلب کیا۔ بوڑھے جرنیل بیرم خان نے گورداس پُور میں اینٹوں کا چبوترہ بنا کر 14 سالہ شہنشاہ اکبر کی رسم تاج پوشی ادا کی۔ بیرم خان کُمک کے انتظار کا مشورہ دیتا ہے، مگر پُر جوش اکبر صرف 200 ساتھیوں کے ساتھ پانی پت میں ہیمو بقال کے لشکر کو شکستِ فاش سے دو چار کر کے فاتح ٹھہرتا ہے۔
لگ بھگ 50 سال بعد جب اکبر دنیا سے رخصت ہوا تو سلطنت میں ہندوستان، کشمیر، بنگال، افغانستان اور سری لنکا شامل، خزانے بھرے ہوئے، ریاست مستحکم، عوام خوش حال، کیا یہ سب تنِ تنہا اکبر کا کار نامہ تھا؟
نہیں جناب ایسا ہر گز نہیں، نو جوان اکبر اگر چِہ اس زمانے کے شہزادوں کی طرح پڑھا لکھا نہ تھا مگر شجاع، ذھین اور جوہر شناس ضرور تھا، اکبر کی ٹیم آج بھی نو رتن کے حوالے سے معروف ہے۔ گو کہ ہم نو رتن کو صرف مُلا دو پیازہ اور بیربل کے حوالے سے جانتے ہیں، مگر ان ہی نو رتنوں میں شاعر، ادیب، دانش ور ابو الفیض فیضی اور ابو الفضل جیسے عالم و دانش ور، راجہ ٹوڈر مل جیسا با حکمت وزیر، راجہ مان سنگھ جیسا جری سالار، مرزا عزیز کوکلتاش جیسا مشیر، عبدالرحیم خانِ خاناں جیسا مدبر اور تان سین جیسے عظیم گلو کار شامل تھے۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کسی بھی عظیم لیڈر کے پیچھے اس کی ٹیم کھڑی نظر آئے گی، لیڈر اپنی ٹیم میں کتنے با صلاحیت ہیروں کو جمع کرتا ہے، یہی اس کی پہلی پہچان ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی حکومت بنتے ہی اپنی ٹیم بنائی، اسد عمر تحریک انصاف کا معاشی تھنک ٹینک اور وہ واحد شخص تھے جنہیں حکومت بننے سے پہلے ہی وزیرِ خزانہ کا منصب سونپا گیا تھا مگر نو ماہ میں ہی فارغ ہو گئے۔ دوسری اہم وزارتِ اطلاعات کی تھی جہاں فواد چودھری کو تعینات کیا گیا، ماشا اللہ فواد چودھری صاحب نہ صرف بیش تر سیاسی گھاٹوں کا پانی پی چکے ہیں بل کہ دریدہ دہنی کے حوالے سے شہرت بھی رکھتے ہیں، انہیں وزیرِ اطلاعات فائز کرنے پر سب کو حیرت تھی، مگر کپتان فیصلہ کر چکے تھے۔
تو جناب ہوا کچھ یوں کہ کچھ ہی عرصے میں چودھری صاحب نے دوستوں کو بھی دشمن بنا دیا، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں چنگھاڑتے رہے، سینیٹ میں داخلہ ممنوع ٹھہرا، پریس کلبز نے پابندی لگا دی۔ حکومت کا ترجمان مذاق بن کر رہ گیا، سو انہیں بھی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
وزارتِ داخلہ اہم ترین ہے سو وزیرِ اعظم کے پاس ہے، مگر شہر یار آفریدی وزیرِ مملکت ٹھہرے، سو جلد انہیں بھی فارغ ہونا پڑا۔ عامر کیانی وزیرِ صحت بنے، مگر گھر جانا پڑا۔ غلام سرور خان بغضِ نثار میں وزیرِ پیٹرولیم بنے مگر بوجھ بن گئے۔
اگر چِہ عمران خان نے ان تبدیلیوں کو کار کردگی سے مشروط قرار دیا ہے، مگر سب جانتے ہیں یہ ان میں سے بعض پر کرپشن، اقربا پروری اور اختیارات سے تجاوز کے الزامات ہیں۔ اعظم سواتی سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر بنے، اسلام آباد کے فارم ہاؤس کے قریب غریبوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، سپریم کورٹ میں معتُوب ٹھہرنے کے بعد وزارت ہاتھ سے گئی، مگر سابق چیف جسٹس کے جاتے ہی دو بارہ پارلیمانی امور کے وزیر ٹھہرے۔
بابر اعوان سے نندی پور ریفرنس میں ملوث ہونے کے باعث استعفیٰ لیا گیا، اب وہ عدالت سے بری ہو چکے ہیں سو دو بارہ وزارتی دوڑ میں شامل ہیں۔ بہ ہر حال، حضور صورت حال کچھ یوں ہے کہ کار کردگی کچھ بھی ہو مگر قیادت اعلیٰ کی جوہر شناسی پر تو حرف آتا ہے، ایک سال کے دوران اتنی بڑی تبدیلیاں قیادت پر سوالیہ نشان تو ہیں۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ نو رتن بدل چکے ہیں، منتخب حکومت کی بیش تر نمائندگی آزمودہ غیر منتخب رتنوں کی مرہونِ منت ہے۔ وزیر خزانہ کی پہچان آئی ایم ایف اور پیپلز پارٹی ہے، وزیرِ اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی ما شا اللہ پیپلز پارٹی میں اسی عہدے پر فائز رہیں۔ ویسے تو شاہ محمود قریشی، اعجاز شاہ، فہمیدہ مرزا، ندیم چن، نورالحق قادری، اعظم سواتی، صمصام بخاری سمیت کئی وزیر و مشیر زرداریات کا حصہ رہ چکے ہیں جب کہ زبیدہ جلال، عمر ایوب، رزاق داؤد، شفقت محمود، محمد میاں سومرو، خسرو بختیار، طارق بشیر چیمہ اور شیخ رشید مشرفیات کے سپاہیوں کا فریضہ انجام دے چکے ہیں۔ جہانگیر ترین وُزَراء سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں، بیش تر ایسے جو حَسبِ استطاعت کئی کئی سیاسی گھاٹوں کی پہرہ داری کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا نظریاتی کار کن جانے کب کا بچھڑ چکا ہے، سو نظریات بھی کہیں پیچھے رہ گئے، کپتان ریلو کٹوں کے حصار میں ہیں۔ ایک بے چارے فیاض الحسن چوہان بھی ہوا کرتے تھے، گھاٹ گھاٹ کا تجربہ تھا مگر اپنی ہی زبان کے ہاتھوں شہید ہوئے، فواد چودھری کا حشر سامنے ہے اطلاعات گئی تو سائنس و ٹیکنالوجی کے مسند پر جا بیٹھے، ہاتھ اور زبان پر قابو رکھنے کے مرض میں مبتلا ہیں، سوشل میڈیا حکایتوں اور شکایتوں سے بھرا پڑا ہے۔
ایک فیصل واوڈا صاحب ہوتے ہیں، نہ صرف بلند آواز میں سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بل کہ بسا اوقات تو ٹوئٹر پر بھی خیالی محلات بنانے پر قادر ہیں، بھائی مجھے تو لگتا ہے کہ ف کا حرف کپتان کو راس نہیں آتا، اب دیکھیں فردوس بی بی کا کیا ہوتا ہے؟
سنا کرتے تھے غریب ممالک کی کابینہ 10 سے زائد ہونا عیاشی ہے، سو اب 55 ارکان کی ہے۔ یہ بھی سنا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں 524 ملازم تھے، وزیر اعظم ہاؤس یونی ورسٹی بن رہا ہے، وزیر اعظم ملٹری سکریٹری کے گھر میں قیام کریں گے، سادگی اور قناعت، گاڑیاں اور بھینسیں بھی نیلام کر دی گئیں۔
مگر جانے کیوں بجٹ 96 کروڑ سے ایک ارب 9 کروڑ ہو گیا، جانے کیوں اس بار بجٹ میں صرف تنخواہوں کی مد میں 35 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ جانے کیوں اسٹیٹ بینک کہتا ہے کہ قوم پر ہر سال قرضہ 2 ہزار 319 ارب بڑھا کرتا تھا، مگر اس سال 5 ہزار 215 ارب روپے یعنی دو گنا ہو چکا ہے۔ ڈالر 165 کو چھو رہا ہے، پیٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس سب مہنگی، کھانے پینے کی اشیا نا یاب، کاروں کی قیمتوں میں 4 سے 5 پانچ لاکھ اضافہ، دوائیں دو گنا قیمت پر، عوام کی سانسیں رک رہی ہیں، غریب آدمی کا جینا مشکل ہے، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں، پہلے تجربہ کار بد کاروں کے ہاتھوں لُٹے، اب نا تجربہ کار نیکو کاروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں، لیکن بس گھبرانا نہیں ہے۔
ایک سال بعد تحریک انصاف ہر کجی و خامی کو گزشتہ حکومتوں کا کار نامہ قرار دے رہی ہے، گزشتہ حکومتیں پورے پانچ سال یہی کیا کرتی تھیں، حوصلہ رکھیں ابھی چار سال باقی ہیں۔ پارلیمنٹ سلیکٹڈ، الیکٹڈ، ریجیکٹڈ کی بحث میں پھنسی ہے، اپوزیشن آل پارٹیز کانفرنس کے بعد بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں، سیاست، ریاست کو نگلتی جا رہی ہے۔
ایسا نہ سمجھیں کہ مجھے تحریک انصاف کی ہر چیز میں عیب نظر آتا ہے، کپتان نیک نیت ہیں، مگر نیک اعمال بھی ضروری ہیں، صرف نیت سے کام نہیں بنا کرتا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کو خلیل جبران بنایا، جرمنی و جاپان پڑوسی بنے، گولان کی پہاڑیاں فلسطین کو بخشیں، میں نہیں گھبرایا۔ شراب کو شہد بنتے دیکھا، ہیلی کاپٹر کا 55 روپے کلو میٹر سفر کیا، ہرشل گبز کو بھی عمران خان بنتے دیکھا، ملک میں تیل نکلتے اور تین ہفتوں میں ہزاروں نوکریاں بٹتے دیکھا، اس کے با وجود میں نہیں گھبرایا۔
لیکن بھائی کم زور انسان ہوں جب یہ سوچتا ہوں کہ نو رتنوں میں کتنے ریلو کٹے ہیں تو یقین جانیں پسینے چھوٹ جاتے ہیں، دل کی دھڑکن بے قابو اور اعصاب شَل ہو جاتے ہیں، مگر گھبراتا پھر بھی نہیں ہوں۔