عمران خان کی صحت یابی کی ایک دعا، ایک خواہش
از، یاسر چٹھہ
مارچ 2021 کے پہلے عشرے میں میری کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو ایک مُنھ تَوپ نے کہا:
“میں کہتا تھا ناں کہ جو زیادہ احتیاط کرتے ہیں، اُنھیں کرونا زیادہ لگتا ہے۔”
یہ صاحب وہی والے سائنس دان تھے جنھوں نے کرونا کی موجودگی پر یقین باندھتے مہینے لگا دیے تھے۔ انھوں نے کرونا وباء کے اوّلین دنوں میں مجھ سے کئی بار خطیبانہ انداز کا سوال پوچھا تھا:
“کیا آپ کا کوئی جاننے والا کرونا سے بیمار ہوا ہے؟”
مَیں ابھی ذہن ہی ذہن میں گِن رہا ہوتا تھا کہ بتاؤں، لیکن میرے جواب کا انتظار کیے بَہ غیر خود ہی جواب نازل کرتے:
“نہیں ناں… پس ثابت ہوا کہ یہ بین الاقوامی امداد لینے کے لیے حکومت کا ڈھکوسلا ہے، اک جھانسہ ہے۔”
یہ وہی صاحب تھے جِنھوں نے مجھ نا سمجھ کو بل گیٹس کی چِپ کا تعارف کرایا تھا۔ انھوں نے ہی مجھے ویکسین کے آنے کی خبروں پر جناب زید حامد اور جناب اوریا مقبول جان کے فیس بک اور ٹویٹر کے lyceum کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس ویکسین کے اصل مقاصد میں کلمہ گووں کی ضبطِ تولید مقصدِ اوّلین میں سے ہیں۔
خدا گواہ ہے راقم کو یہ سب بریکنگ نیوز اور myth busting بتا کر اپنے ناصِح کو demonise کرنا مقصود نہیں اور زیبِ داستان کی کوئی سستی فصل کاشت نہیں کرنی۔ ورنہ نام لے لیتا۔
(البتہ اس دوران مجھے زیادہ حیرانی اس بات پر نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے فہم میں ایسی باتیں گوندھتے پکاتے رہتے تھے اور اپنی تندوری میں ایسی روٹیاں لگا لگا کر فی سبیلِ اللہ تقسیم کرتے رہتے تھے۔ کتنے سارے لوگ ہیں جو ہر روز اسی طرح پانی سے گاڑیاں بناتے اور دوڑاتے رہتے ہیں۔
زیادہ حیرانی اس بات پر ہوتی تھی کہ وہ مجھے ایسی باتیں کس امید پر سناتے تھے۔ مطلب یہ کہ ایسا وہ مجھے اپنے کسے عقیدے پر لانے کے لیے، کسی راہِ راست پر لانے کے لیے بتاتے تھے، یا مجھے اس قدر dim wit سمجھتے تھے؟ شاید ایسا میرا عزتِ نفس کا احساس بڑھتا بڑھتا منفی انا کے درجے پر پہنچنے کی شہادت تھی، یا کچھ اور…)
میرے پاس ان سوالوں کے (کم از کم خود کو) یقین دلانے والے جواب ضرور موجود تھے، جو اس تصورِ حقیقت سے متبادل منطقے کے تھے۔ لیکن خاموش رہنا زیادہ بہتر جانتا تھا۔ اپنی اس سماج کاری اور معاشرتی تربیت کے سبب جانتا ہوں کہ ایسے کئی علامہ صاحبان ہمارے سماجی منظر نامے مَنبر نامے، تھڑے نامے، چوک نامے، چوبارے کے landscape، میں بَہ درجۂِ اتم (بَل کہ بَہ درجۂِ اُترَم نَکَھترَم) موجود ہیں۔
چھوڑیے ان تفصیلوں کو کنویں کَم نہیں ہوں گے، مینڈکوں کا پرودگار قائم…
فی لمحہ بات یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے وزیرِ اعظم جناب عمران خان کی آج کرونا مَثبت آنے کی خبر ہے۔ ساتھ ہی عمران خان کو جُمعے رات کو لگنے والی ویکسین کی تاثیر کو حرفِ غلط کہا جانے لگا ہے۔ ایسی باتیں مختلف پیرایۂ اظہار میں ہو رہی ہیں۔ بہت کم لوگوں نے اس نُِکتہ کو لائقِ توجہ جانا ہے کہ ویکسین کے اثر کرنے کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے؛ اس دورانیے سے پہلے کا لگ چکا جرثومہ کیسے اپنا کام دکھا سکتا ہے۔
ان باتوں کو بھی بَر طرف کیجیے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ عمران خان کو اگر کرونا مثبت کی تشخیص ہوئی ہے تو وہ اس وقت ہمارے احساس اور ہماری ہم دردی کے حق دار ہیں۔ جب ہم کسی کا احساس اور ہم دردی کرتے ہیں تو اس وقت ہم کثیر جِہتی خیر جنمانے والے رویّے کی ترویج کرتے ہیں۔ ہم اپنے اندر کے انسان کی انسانیت کو سِینچتے ہیں اور معاشرے میں بھلائی کا بول بالا کرتے ہیں۔
ہماری معاشرت کی اچھائیوں اور بھلائیوں کے معاملات کا خزانہ جو کسی معاشرے کے چلنے میں گردشِ خون جیسا اہم ہوتا ہے، وہ اچھا خاصا ثروت مند ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں کے سماجی ناقدین کی ایک مقدور بھر تعداد اور چہکنے والا طبقہ اپنی تنقیدی بصیرت میں یَک رنگا، monochromatic واقِع ہوا ہے۔
عمران خان (راقم جیسے فرد کے لیے) جب وہ طاقت کے منابِع اور سر چشموں سے فیض یابی کا اذن لے کر طاقت کی ترجمانی کرتے ہیں تو حروفِ طنّازی کا نشان بنتے ہیں۔ پر ہم اسی معاشرے سے ضوفشان ہوتے ہیں جس نے ہمیں اپنے عمدہ اور روشن تر پہلووں سے بھی متعارف کرایا ہے، وہ پہلو عمران خان کے لیے اس وقت صحت یابی کی دعا کے لیے بَہ طورِ ہاتھ بنے کھڑے ہیں۔
سو، خدائے بزرگ و بَر تر عمران خان صاحب کی صحت لوٹائیں؛ اور ہمارے یہاں کے کُوچہ بَہ کُوچہ موجود سائنس دانوں کے جَتّھوں کی ذہنی صحت کی دعائیں!
آخر پر عرض ہے کہ زندگی باقی ہے تو بچی ماندی باتیں چلتی رہیں گی۔
پسِ تحریر:
مزاحمت کے معیار (جسے آپ بے شک حقارت سے، مربیانہ پوِیترتا کے احساس سے خود ساختہ کہہ لیجیے گا) اور اصول کے مطابق کسی ایسی پوسٹ، جس میں عمران خان کی صحت پر حرفِ مذاق ارزاں ہو گا، اس پر کوئی interaction نہیں دوں گا۔ سوشل میڈیا influencer ہونے کا مدعی نہیں ہوں، پَر اپنے شعور کی تاثیر و اثر سے لطف کشیدگی کو جواب دہ ضرور محسوس کرتا ہوں۔