عمرانی خارجہ پالیسی کے اثرات
از، حسین جاوید افروز
25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بر سر اقتدار آ چکی ہے اور وزیر اعظم عمران خان عنان حکومت سنبھالتے ہی تواتر کے ساتھ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ جہاں عمران خان قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں وہاں انہوں نے اپنی ترجیحات میں خارجہ امور کو بھی اولیت دی ہے۔ اس کا اندازہ 24 اگست کو ہوا جب انہوں نے بحیثیت وزیر اعظم پہلی بار دفتر خارجہ کا دورہ کیا جہاں ان کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خارجہ امور پر مفصل بریفنگ دی۔ بلا شبہ اس وقت پاکستان کو نہایت ہی گھمبیر خارجہ بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایک جانب ہمارے ہمسائے افغانستان میں علاقائی ابتری اپنے جوبن پر ہے اور امریکہ اسی وجہ سے ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح اپنی 17 برس کی نا کام مہم جوئی کا ملبہ اسلام آباد پر گرا رہا ہے۔
دوسری جانب ہماری مشرقی سرحدیں بھی خاصی حدت دے رہی ہیں کیوں کہہ خاصے عرصے سے لائن آف کنٹرول پر ہر گزرتے دن کے ساتھ اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوج کی بربریت خطے میں بے یقینی اور عدم استحکام کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ جب کہ پاکستان کو روایتی دوست چین کی جانب سے ہی ٹھنڈی ہوا میسر آتی ہے جو کہ سی پیک جیسے کثیر الجہت منصوبے سے ہماری معیشت کو سہارا دئیے اپنا کردار نبھا رہا ہے۔
بلا شبہ عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کی دگر گوں حالت ہے جو کہ قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے ایک تگڑے بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر اس سمت میں پہلے ہی صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ معیشت کو راہ راست پر لانے کے لیے ہمیں سخت اور کڑوے فیصلے کرنے ہوں گے۔
تاہم اس ساری صورتحال میں یہ ہماری مخصوص جغرافیائی پوزیشن ہی ہے جس کی بدولت دنیا ہمیں نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اس محل وقوع کی بدولت ہم عالمی منظر نامے میں امکانات کے نئے جہاں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ رابرٹ ڈی کاپلان نے درست ہی کہا ہے کہ کسی بھی ملک کا محل وقوع ہی اقوام عالم میں اس کی حیثیت کا تعین کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی مخصوص جغرافیائی پوزیشن ہمارے لیے دفاعی لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہذا ابھی بھی خارجہ محاذ پر پاکستان کے پاس اسی محل وقوع کی شکل میں ایسا پتہ موجود ہیں جن کی بدولت نئی حکومت اپنے کارڈز عالمی تعلقات کی بساط پر ہوشیاری سے کھیل سکتی ہے۔ آئیے وزیر اعظم عمران خان کی ممکنہ خارجہ پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں۔
وزیر اعظم نے درست کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی ملک کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتا بل کہ وہ اس خطے میں اپنی سا لمیت کا تحفظ کرتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔ سب سے پہلے بھارت کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں۔ عمران خان ان چند پاکستانی شخصیات میں شامل ہیں جو بطور کرکٹر ،بطور سیاست دان ،بطور سوشل ورکر ہندوستان میں بہت مقبول رہے ہیں اور بھارتی اہل دانش میں ان کے خیالات کو بہت انہماک سے سنا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تقریب حلف برداری میں ہی انہوں نے سابق انڈین کھلاڑیوں کو مدعو کر کے بھارت کے ساتھ خوشگواریت قائم کرنے کا واضح عندیہ دیا۔ عمران خان نے واضح طور پر انتخابات جیتنے کے بعد کہا کہ مجھے بہت افسوس ہوا کہ بھارتی میڈیا نے مجھے ایک ولن کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ امن کا راستہ ہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ترقی کی ضمانت ہے اور ہمیں اس پر چل کر ہی مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے دائمی مسئلے کا حل نکالنا ہو گا اور تجارتی میدان میں تیز تر پیش رفت کرنا ہوگی۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بھارتی اہل دانش اس نظریہ کے اسیر ہیں کہ پاکستان میں سول ملٹری کشمکش بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام میں مستقل حائل رہتی ہے۔ اس بات کا جواب ان کو نوجوت سنگھ سدھو نے ہی کامل سچائی کے ساتھ دے دیا کہ جنرل باجوہ نے مجھ سے بغلگیر ہوکر امن کی پرزور خواہش کا اظہار کیا اور وہ تو ایک قدم آگے جاکر کرتار سنگھ بارڈر کھول کر سکھ زائرین کو زیارت کی اجازت دینے پر بھی گرم جوشی سے آمادہ نظر آئے۔ اب مجھے بتائیں اس فراخ دل پیشکش پر میں ان سے گلے نہ ملتا تو کیا کرتا۔
مزید و متعلقہ: پاکستان کی وزارت خارجہ، سر محمد ظفراللہ خان اور بھٹو سے خواجہ آصف تک از، انوار عباس انور
شیریں مزاری، اپنی ٹویٹس میں وہ دوسرا ٹیگ کس کو تھا؟ از، نصرت جاوید
اسی طرح کیرالا میں تباہ کن سیلاب کے بعد عمران خان کی جانب سے امداد کی پیشکش بھی امن پسندی کا واضح ثبوت ہے۔ لہذا اب بال بھارتی حکومت کے کورٹ میں ہے کہ دونوں ممالک کے مابین برف پگھلنے کے عمل کو تیز کیا جائے۔ اسی طرح عمران خان کے لیے امریکہ کے ساتھ سودمند تعلقات کا قیام بھی ایک ہمالیائی چیلنج ہے خاص کہ جب سے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے ستمبر میں متوقع دورہ اسلام آباد کا وقت بھی قریب آ رہا ہے۔ لیکن تاحال لگ ایسا رہا ہے کہ عمران حکومت امریکیوں سے do more کا منترا سننے کے موڈ میں بالکل نہیں ہے کیوں کہہ صرف ٹرمپ دور میں حال ہی میں پاکستانی فوجی افسران کے امریکہ میں تربیتی پروگرامز پر روک لگا دی گئی ہے بل کہ پاکستان کے لیے دفاعی امداد میں بھی واضح کٹوتی کی گئی ہے۔
جب کہ افغانستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور غیر واضح اور قدرے الجھے ہوئے سیکیورٹی تناظر میں امریکہ اپنی نا کامی کابار اسلام آباد تھوپنا شروع ہو گیا ہے جس کے نہایت مہیب اثرات خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ عمران خان کو مائیک پومپئیوپر واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تمام تر قربانیوں اور معاشی نقصان اٹھانے کے بعد امریکہ کی جانب سے ڈبل گیم کھیلنے اور ایک نا قابل اعتبار اتحادی ہونے کے طعنے مزید نہیں سن سکتا۔ ٹرمپ نتظامیہ کو اسلام آباد کو جہاں اپنی ضروریات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے وہاں اسے پاکستانی خدشات اور محدودات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ یاد رہے اس وقت پاک امریکہ تعلقات گراوٹ کے انتہائی درجے پر موجود ہیں اور اسلام آباد کو اپنی معاشی اٹھان کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا ہی پڑے گا جس ضمن میں اسے واشنگٹن کی مدد بھی درکار ہو گی۔ یوں پاک امریکہ تعلقات اس وقت ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔ شائد اسی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان اب ایک متوازن خارجہ پالیسی کے خواہاں نظر آتے ہیں جس میں امریکی انحصار کو دفاعی اور معاشی حوالے سے بتدریج کم کرنے کے آپشن پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
اسی لیے گزشتہ گیارہ برس سے اسلام آباد اور کریملن کے تعلقات میں بھی تیزی سے سازگاریت پیدا ہو رہی ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی تعلقات میں پاک روس تعلقات میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب من موہن سنگھ کے دور میں بھارت اور امریکہ کے درمیان طویل المعیاد حربی شراکت داری قائم ہو گئی۔ اور انڈین آرمی نے بھی دفاعی میدان میں روس پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کو فروغ دینا شروع کیا۔ دوسری جانب نائن الیون کے بعد دھیرے دھیرے امریکہ کی جانب سے do more کی لا حاصل گردان نے بھی پاکستان کو امریکی کیمپ سے دور کیا اور یوں 2007 میں روسی وزیر اعظم فریڈ کوف کے دورہ پاکستان سے تعلقات میں مثبت اپروچ سامنے آتی گئی۔ جب کہ 2011 میں سلالہ سانحے پر بھی روس کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری کی حمایت نے خارجہ معاملات کو مزیداعتمادیت بخشی۔ جب کہ افغانستان میں قیام امن، داعش کے خراسان ونگ کی روک تھام، ستمبر 2016 میں پہلی بار پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں نے بھی دونوں ممالک کو ا یک دوسرے کے مزید قریب کردیا۔
یوں خطے کے حربی تناظر میں کریملن اور اسلام آباد میں سیکورٹی شراکت کے وسیع اور دیرپا مواقع موجود ہیں جس کا واضح ثبوت کہ اب پاکستان دفاعی میدان میں روسی T-90 ٹینکوں اور Su-35 فائٹر جیٹ سے بھی عنقریب مستفید ہوجائے گا۔ افغانستان، گزشتہ چالیس برس سے پاکستان کے لیے سیکورٹی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے افغان معاشرہ مسلسل کشت و خون، طوائف الملوکی اور انارکی کا شکار رہا ہے۔ یو این اسسٹینس مشن افغانستان کی رپورٹ کے مطابق صرف 2018 میں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق دوہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ گزشتہ ایک دھائی کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتوں کی شرح ہے جو کہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ صرف اگست کے مہینے میں 300 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس وقت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی تعطل کا شکار دکھائی دیتے ہیں جب کہ داعش کی جانب سے بھی خونریز کاروائیوں کی شرح میں گونا گوں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس خونی حدت کے اثرات ڈیورنڈ لائن پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں جہاں چمن سے طور خم بارڈرپر افغان فورسز کی جانب سے حملے حالات کو مزید پیچیدہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ صدر اشرف غنی نے عمران خان کی اقتدار میں آمد کو کھلے دل سے سراہا ہے مگر کابل اور اسلام آباد کے درمیان بداعتمادی کی گھٹا چھانے میں بھی وقت نہیں لگتا اور الزامات در الزامات سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
عمران خان ماضی میں بھی افغان گروپس میں امن عمل کے داعی رہے ہیں اور وہ اس مقصد کے لیے صدر غنی، طالبان قیادت کے مابین مصالحتی عمل شروع کرانے میں بھی موثر اور ہمدردانہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کریملن اور بیجنگ کی اعانت بھی مخاصمت کی گرد جھاڑنے میں تریاق کا کام کرسکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی مبہم افغان پالیسی، عمران خان کے لیے مزیدالجھاؤ کو جنم دے سکتی ہے۔ عمران حکومت کے لیے عظیم دوست ملک چین کی مسلسل رہنمائی اور موجودگی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گی اور دونوں ممالک کے درمیان سی پیک منصوبہ اپنی آب وتاب کے ساتھ جاری وساری رہے گا۔ چین کی جانب سے عمران حکومت کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے مالی مدد کا اعلان بھی دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے اعتماد و اشتراک کی ایک روشن مثال ہے۔ تاہم عمران خان افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے بیجنگ کی فراخ دلانہ اعانت سے بھی استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ ستمبر کے اوائل میں چینی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان نئی حکو مت ور بیجنگ میں اعتماد سازی کے عمل کو مزید مستحکم بنائے گا۔
اب آخر میں سعودیہ عرب اور ایران کی باہمی کشا کش میں پاکستان کے کردار پر بات کی جائے تو ایسے آثار ہیں کہ نئی حکومت، ایران اور ریاض کے ساتھ متوازن ورکنگ ریلیشن شپ کے اصول کو اولیت دے گی کیوں کہ ماضی میں ان دونوں ممالک کی کشیدگی کے فرقہ ورانہ اثرات نے پاکستان کے اندر بھی فرقہ ورانہ تناؤ کو جنم دیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم کی جانب سے سعودیہ کے دورے کے دوران مزید پیش رفت ہونے کا امکان بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب کہ تہران پر بڑھتے امریکی دباؤ کے اثرات بھی عمران حکومت کو محسوس کرنے چاہیے کیوں کہ اس سے خطے میں بے یقینی کے سائے بڑھتے جائیں گے۔
اگست کے آخر میں ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ یقیناً تزویراتی اورریجنل تبدیلیوں کے حوالے سے دونوں ممالک کو ایک صفحے پر آنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس ساری بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی طاقتوں سے متوازن تعلقات قائم رکھتے ہوئے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہو گا۔ کیوں کہہ ماضی کی طرح سارے انڈے امریکی ٹوکری میں ہی رکھنے کی پالیسی اب متروکیت کا شکار ہو چکی ہے۔