اکیلے دوڑ کر بھی مقابلہ ہارتی عمران خان کی حکومت
از، فرحان خان
پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی حکومت اپنے منشور پر عمل کی جھلک اقتدار کے پہلے ہی برس دکھانے لگے تو اس کا کام چل پڑتا ہے۔ اگلے برسوں میں کام کی رفتار میں فرق آ جائے تو بھی گزارہ ہو جاتا ہے۔
گھاگ قسم کی سیاسی جماعتیں شروع اور آخر میں ذرا اچھا impression دیتی ہیں اور اپنا کام چلاتی رہتی ہیں۔ پاور پالیٹکس کی تکنیکیں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں۔
عمران خان کا پہلا impression ہی اچھا نہیں تھا، انھوں نے 100 دنوں میں ملک کی کایا پلٹنے کے دعوے کیے تھے۔ اپنی زبردست ٹیم لانے کی باتیں کی تھیں۔
لیکن شروع ہی سے وہ مسلسل ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنے ماضی کے ایک ایک اصولی موقف کو انھوں نے جھٹلایا، یُو ٹرن پر یُو ٹرن تو ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔
اب ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ اس حکومت کو کوئی سمت سُجھائی نہیں دے رہی ہے۔ مسلسل ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہیں۔
عمران خان کے مداح جو سوشل میڈیا وغیرہ پر رائے ساز کا کام بھی کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”دیانت دار“ تو ہے، بھئی ہو گا۔۔۔ لیکن اس دیانت داری کا کیا کِیا جائے؟
عمران خان سے زیادہ ساز گار ماحول کِسے ملا، عدلیہ نے ماضی کی طرح کا پریشر نہیں رکھا ہوا۔ عمران خان کے مداح خود ہی بتاتے ہیں کہ فوج بھی خان کے ساتھ ہے۔ فوجی ترجمان بھی کم وبیش یہی کہتے رہے ہیں۔
اپوزیشن کوئی خاص مزاحمتی تحریک نہیں چلا رہی۔ ن لیگ جھاگ کی طرح بیٹھ چکی اور پیپلز پارٹی ایک حد سے آگے جانے کا رسک نہیں لے رہی۔ یعنی اکھاڑے میں عمران خان پہلوان ہی کھڑا ہوا ہے لیکن اسے ابھی تک اپنی پہلوانی کا یقین نہیں آ رہا۔ حالاں کہ سارے مقابل پہلوان وہیں سامنے بندھے ہوئے اوندھے مُنھ پڑے ہیں۔
حکومت کا impression بنانے کا وقت تو گزر چکا ہے۔ اب یہ گھسٹ گھسٹ کر اپنی میعاد کو پہنچیں گے۔ اس بیچ عمران خان کا دفاع کر کر کے ان کے مداح تھک جائیں گے۔ ابھی ان کے اقتدار کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔
لیکن ان کے فین ٹائپ رائے سازوں کی سانسیں پھوی ہوئی ہیں۔ اب وہ الٹے پاؤں کافی احتیاط سے تبدیلی کے بلند مینار کی سیڑھیاں اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ ان کے لیے کافی تکلیف دہ ہے۔ شکستہ خوابوں کی کِرچیوں کی چُبھن بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔ یہاں مجھے نواز شریف کا ’مزاحمت کا بیانیہ‘ اور اس کے ساتھ بندھے خواب بھی یاد آئے۔ طعنوں اور ملامتوں کے نوکیلے سنگ ریزوں پر برہنہ پائی کی تکلیف کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
لیکن کیا کیجیے۔ ’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔‘ حالات دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک تجربہ تھا جو ٹھیک طرح سے execute نہیں کیا جا سکا۔ اب کھسیانی دلیلوں کو اس رَتھ کے پہیوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اُدھڑی ہوئی شاہ راہ پر بے ہنگم سفر جاری ہے۔