اسلاف کے ساتھ یہ رویہ، اور ثریا کا غضب!
از، روزن رپورٹس
جو غافل اور احسان نا شناس قوم اپنے مشاہیر اور محسنوں کو نہیں پہچانتی، تاریخ اس قوم کو بھلا دیتی ہے۔ بھلا دیتی ہے، بھلا دیتی ہے۔
ایمان داری سے بتائیں کہ کتنے پاکستانی ان بزرگ سے واقف ہیں؟
شاید ایک فی صد بھی نہیں۔ (اسلاف کے ساتھ ایسا رویہ آخر ہمیں کہاں لے کر جائے گا، سوچ کر بھی دماغ کی رگیں پھُول جاتی ہیں۔)
یہ عظیم ہستی اگر انگلستان کے شہر برسٹل کے قریب ڈاؤن اینڈ نامی گاؤں میں 18 جولائی سِنہ 1848 کو پیدا نہ ہوتی تو آج تک پاکستانی قرُونِ 35 برس قبل کی تاریکیوں میں ایک دوسرے کو ٹکریں مار رہے ہوتے۔
اِنھیں نیا اجالا، نئی روشنی، خطے میں سستا ترین پٹرول، لشکارے مارتی ہوا دے نال اُڈّی اُڈّی جاندی چینی، ستاروں جیسی چمکتی دمکتی اور خالص ترین وولٹیجوں کے شربت پلائی ہوئی بجلی، دیوانہ وار جھومتی رقص کرتی قدرتی و فطرتی گیس، سٹیٹ بینک کا بین الاقوامی سند یافتہ در آمدی گورنر، اور نیا وطن نہ ملتا۔
خسارہ تھا، سرا سر خسارہ… خسارے منڈلاتے رہتے!
ان بزرگ ہستی کا نام جس نے ان سارے آگ کے کُنویں والے منظروں سے چھٹکارا دینے کا بیج ڈالا ان کا اسمِ گرامی ڈبلیو جی گریس، WG Grace ہے۔
دنیا انھیں بابائے کرکٹ کے نام سے جانتی ہے۔
نہیں جانتے تو پاکستانی نہیں جانتے، جن نا شکروں کو اس بزرگ کے کھلنڈرے پن اور کرتوتوں کی وجہ سے نیا پاکستان ملا۔
…
انھی سنجیدہ و فہمیدہ خیالات میں سر گَراں پھرتے اس افسوس کا اظہار کیا کہ مصوّرِ نیا پاکستان جناب ڈبلیو جی گریس سے پاکستانیوں کی اکثریت نا واقف ہے، جو باعثِ شرم، ندامت اور سر تا پا ننگِ اجتماعی ہے۔
اس پر برادرِ محترم، ملک آفتاب احمد اعوان نے علم میں اضافہ فرمایا کہ مصورِ نیا پاکستان ایک میچ میں بیٹنگ کرنے کے لیے آئے۔
خورشیدِ جہاں تاب کے نیچے پھیلی زمین نے کیا دیکھا کہ ایمپائر نے پہلے ہی اوور میں انھیں ایل بی ڈبلیو آؤٹ دے دیا۔ (ابھی نوّے گیندیں تک نہیں ہوئی تھیں۔) جنابِ گریس نے وکٹ کو خیر باد کہنے سے انکار کر دیا، جناب نے باہر جانے سے انکار کر دیا۔
حرفِ انکار میں وہ بھی ہمارے جنرل شمس و قمر جیسے تھے جنھوں نے خطے میں سلامتی کی انتہائی مخدوش صورتِ حال میں دنیا کے کسی اور گوشے میں جزیرہ یا فلیٹ خرید کر جانے سے منع کر دیا تھا، حتیٰ کی ساری اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر آ گئی اور مانا کہ ہمارا شمس، ہمارا قمر ٹھیک ہی آہندا ہونا ایھ…) تو جنابِ گریس نے شیطانی قوتوں کے مبذول کردہ ایمپائر کو کہا:
“الو کے پٹھے، لوگ یہاں تمھاری ایمپائرنگ نہیں میری بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔”
چشمِ فلک نے دیکھا کہ جنابِ گریس کی استقامت کے سامنے ایمپائر کو خاموشی سے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ جناب ڈبلیو جی گریس باجوہ نے اپنی بیٹنگ جاری رکھی۔ اسی لمحے کسی شاعر نے کہہ دیا:
ثبات ایک باجوے کو ہے زمانے میں!
یہ پڑھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ نئے پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے سارے خدشات رفع ہو گئے۔
بانئِ نیا پاکستان بھی ہُو بَہ ہُو مصورِ نیا پاکستان کی سنت پر چلتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آنکھیں دکھاتے رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ گریس صاحب سے مَتھا لگانے والے جاہل ایمپائر کی طرح یہ گُم راہ الیکشن کمیشن بھی راہِ راست پر اسی رفتار سے گام زَن رہے گا اور بانئِ نیا پاکستان بیٹنگ دکھاتے رہیں گے۔
پسِ آئینہ
صاحبِ دیوار کو یہ معلوم ہے کہ اس تحریر کا معرضِ صفحہ پر لانا کَلّے بندے دا کَم نئیں سی۔ جنُوں کی اس حِکایتِ خُوں چُکاں کو لکھتے لکھتے تین افرادِ ملت کے ہاتھ قلَم ہوئے۔ یہ افراد ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کے اعزازی ارکان بھی ہیں۔
1. علامہ عامر فاروق بجنوری
2. قبلہ ملک آفتاب احمد اعوان پانی پت والے
3. اور ہم نوا، اعلیٰ حضرت چاچُو الکلام یاسر پنڈی بھٹیاں والے