عمران خان کا بڑا جرم
عمران خان کے اس جرم کا احساس اب پی ٹی آئی کے ووٹرز کو ہو چکا ہے؛ کس طرح غیر حقیقی بلند بانگ دَعاوی کر کے ان کے جذبات اور ولولوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے وہ وعدے بھی پورے نہیں کیے جو قابلِ عمل تھے، مثلاً پرٹوکول نہ لینا، تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنا، پولیس ریفارمز کرنا وغیرہ۔
لیکن میرا احساس ہے کہ عمران خان کا زیادہ بڑا جرم اپنی پیرو کار نو جوان نسل میں غیر جمہوری اقدار کو پروان چڑھانا، بَل کہ جمہوریت سے نفرت اور بے زاری پیدا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پی ٹی آئی کا ورکر اور ووٹر جہاں کرپشن کے بارے میں اتنا حساس ہے کہ خود پی ٹی آئی کی کرپشن پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر ڈالتا ہے، وہاں وہ حکومت کے غیر جمہوری اقدامات اور ہتھکنڈوں پر نہ صرف یہ کہ تنقید نہیں کرتا، بَل کہ اس کی کھلی اور خاموش حمایت بھی کرتا ہے۔ یہ آمریت پسند ہے۔ مسیحا کمپلیکس کا شکار ہے کہ ایک ایمان دار مطلق العنان آمر سب ٹھیک کر سکتا ہے۔
اس تصور کا اگر آپ تجزیہ کر کے دیکھیے تو اس میں منفی اقدام کا ذکر ملے گا جیسے سب کو جیلوں میں ڈال دیا جائے، سب کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے، کرپشن ثابت ہو نہ ہو، ملزم پیسہ دے کر چھوٹ سکتا ہے وغیرہ، لیکن مَثبت اقدام کی جگہ آپ کو محض بیانات ملتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، باہر سے لوگ نوکریاں تلاش کرنے ادھر آیا کریں گے، وغیرہ۔
مگر یہ ہوگا کیسے اس جھمیلے میں پڑنا نہ مسیحا کمپلیکس کے شکار لیڈر کو پسند ہے اور نہ ورکر یہ جاننے میں دل چسپی رکھتا ہے۔
میڈیا پر پا بندی لگی تو تحریک انصاف کے ورکر اور ووٹر نے مسرت کا اظہار کیا۔ آزادیِ اظہار کی خاطر اپنی نوکریاں قربان کر کے جانے والے صحافی سچائی کے عَلَم بردار سمجھے جانے کی بَہ جائے بغضِ عمران کے مارے سمجھے گئے جنھوں نے اپنے روزی روٹی پر خود لات مارنا گوارا کر لیا مگر بغضِ عمران سے ہاتھ نہ اٹھائے۔
سیاسی مخالفین کی تقاریر کو نشر کرنے کی اجازت نہ ملی تو پی ٹی آئی کے ورکر نے اس کی بھی حمایت کی۔ مخالفین کی بیماریوں کا مذاق اڑایا گیا۔حزبِ مخالف کو جمہوری عمل کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا گیا، بَل کہ اس کا بھی مذاق اڑایا گیا۔
سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا دینے کا یہ نتیجہ آزادی مارچ کی صورت اب حکومت کے گَلے پڑ گیا ہے۔ اس سنگین صورتِ حال کو ختم یا نرم کرنے کے لیے سیاسی راہیں تلاش کرنے میں حکومت سنجیدہ نہیں اور وزیرِ داخلہ اپنی غیر جمہوری تربیت کے مطابق تن کر رکھ دیں گے جیسےبیان دے رہے ہیں۔
وزارتِ داخلہ جیسا اہم اور نازک منصب جو ایک ہَمہ جِہت قسم کی شخصیت کا تقاضا کرتا ہے، اسے ایک قابلِ اعتراض ماضی رکھنے والے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو دے دیا گیا۔ اس پر پی ٹی آئی کے عام ورکر اور ووٹر کی طرف سے کوئی مخالفت سامنے نہیں آئی۔
اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات پر فخر کا اظہار کھلے بندوں کیا گیا۔ سیاست دان ہمیشہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن لیتے آئے ہیں، مگر یہ خلوتوں کی شرم ناک حرکت پہلی بار پی ٹی آئی کے عہد میں قابلِ فخر گردانی گئی۔
عمران خان پارلیمنٹ میں تشریف نہیں لاتے، بِل پیش نہیں ہوتے، ان پر بحث اور ووٹنگ نہیں ہوتی، قانون سازی کا کام صدر کے آرڈیننس سے چلایا جا رہا ہے، مگر تحریکِ انصاف کے کارکن اور ووٹر کو ان مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔
قوم کی نئی پَود کی یہ غیر جمہوری سیاسی تربیت ایک المیہ ہے۔ پی ٹی آئی کے علاوہ عوام کا زیادہ بڑا طبقہ حکومت کو own نہیں کرتا۔
اس سادہ اور کج فکری کا علاج اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ وقت کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ وقت خود سب سے بڑا استاد ہے۔ جمہوریت اور آزادیِ اظہار کی پُر امن تحریکوں کی حمایت کی جائے اور یہ چراغ اس وقت تک جلائے رکھے جائیں کہ جمہوریت مخالف آندھیاں ہار مان لیں۔
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد