امتیاز علی کا ترکش خالی ہو گیا ہے

امتیاز علی کا ترکش خالی ہو گیا ہے
امتیاز علی

امتیاز علی کا ترکش خالی ہو گیا ہے

خضرحیات

امتیاز علی خود آگہی کے راستے پر چلتے چلتے اور اس راستے کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے کہیں پھنس کے رہ گئے ہیں۔ وہ ایک مسلسل سفر میں ہے اور اس کا سفر خود سے شروع ہو کر خود تک ہی جاتا ہے مگر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ وہ ذات کے حوالے سے تصنع، بناوٹ اور ملمع کاری کے سخت ترین ناقد ہیں۔ ہر ذات انفرادی طور پر دوسری ذات سے جدا ہوتی ہے جس کا سوچنے، سمجھنے، دنیا دیکھنے، محسوس کرنے اور مظاہر فطرت پر ردعمل ظاہر کرنے کا اپنا مختلف انداز ہوتا ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی اصل اور جینوئن ذات کو بھول کر یا کہیں پیچھے چھوڑ کر وقت اور حالات کے پیش نظر یا خود کو دھوکا دینے کی غرض سے اپنی ذات پہ کسی ایسی ذات کی تہہ چڑھا لیتا ہے جو جینوئن نہیں ہوتی۔

امتیاز علی اپنا کام یہیں سے شروع کرتے ہیں اور اسی مسئلے کو کیمرے میں قید کرتے ہے۔ امتیاز محسوس کرتے ہیں کہ انسان کو زندگی میں وہی کرنا چاہیے جسے کرنے میں وہ دل سے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اسے صرف ان لوگوں کے آس پاس رہنا چاہیے جن کی موجودگی میں اسے اپنا آپ چھپانا نہیں پڑتا اور وہ اپنی اصلی ذات کے ساتھ کسی خوف کے بغیر رہ سکتا ہے۔ کیریئر بھی وہی اپنانا چاہیے جس میں اس کا من لگے اور محبوب کی صورت میں بھی کسی ایسی ہی ذات کا انتخاب کرے جس کی موجودگی میں وہ اپنا آپ مکمل ہوتا ہوا محسوس کرے۔

ہوتا  یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ ہمارے اصل کے اوپر گرد جمتی جاتی ہے جس سے وہ کہیں نیچے دب جاتا ہے۔ امتیاز علی کہتے ہیں کہ ہمیں اس گرد کو جھاڑ کر اپنا اُجلا پن سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اسی اصل سے دوری ہمیں اپنی ہی زندگی میں بیگانہ کر دیتی ہے۔

زمینی حقائق بلاشبہ نہایت تلخ ہوتے ہیں اور ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ زندگی کے واقعات آپ کی مرضی کے مطابق رونما ہوتے رہیں۔ اکثر سے بھی زیادہ موقعوں پر آپ کو اپنے اردگرد کے حالات، جو آپ کے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں سے مجبور ہوکر فیصلے لینے پڑتے ہیں اور مجبوری میں لیا گیا ہر فیصلہ آپ کو ایسے ہی مزید فیصلے لینے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ یوں اس ڈَگر پر چلتے چلتے آپ مکمل طور پر ایک دوسرے اور مختلف راستے پر آ جاتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ آپ کا اپنا ہی چنا ہوا راستہ ہوتا ہے۔

حالانکہ زندگی میں کبھی پیچھے جھانکنے کا موقع ملے (جو بہت کم ملتا ہے) تو انسان خود حیران رہ جاتا ہے کہ میں نے تو کسی اور طرف جانے کے لیے سفر شروع کیا تھا مگر میں یہاں کیوں اور کیسے پہنچ گیا۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ یہ جو شخص اس جگہ پر پہنچا ہے تو کیا یہ واقعی اصل والا میں ہوں یا میری جگہ کوئی اور یہاں پہنچ گیا ہے۔ اگر یہ میں نہیں ہوں تو پھر میں کہاں ہوں۔ وہ خود کو بھٹکا ہوا محسوس کرتا ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جس میں اس کی ملاقات اس شخص سے ہوتی ہے جو اصل میں وہ ہے ہی نہیں جو وہ ہے اور جو وہ اصل میں تھا اسے تو اس نے بہت پیچھے ہی چھوڑ دیا تھا۔

امتیاز علی اپنی فلموں میں جو کردار تخلیق کرتے ہیں انہیں اسی کشمکش، تذبذب اور دوراہے پر لا کر پھنسا دیتے ہیں، پھر مزے لے لے کر ان کے مُنھ میں اپنے الفاظ ڈالتے ہیں اور کیمرے کو اپنی مرضی سے رول کرواتے رہتے ہیں۔ حقیقی حالات میں تو انسان کو جب تک اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور ہی طرف آ نکلا ہے تب تک وہ اکثر اتنی دور نکل آیا ہوتا ہے کہ اکثر صورتوں میں واپسی کا راستہ چاہ کر بھی نہیں اختیار کیا جا سکتا۔ لیکن فلمی حالات میں ماجرہ قدرے مختلف ہوتا ہے۔ امتیاز علی کی بنائی گئی فلموں میں تذبذب کا شکار یہ کردار اپنے حالات و واقعات سے لڑ جھگڑ کر اپنے دل کا فیصلہ سننے اور اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اصلی پن کو گلے لگا لیتے ہیں۔

اگرچہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کمرشل سینما کے اس دور میں فلم بنانا بہت جرات مندانہ فیصلہ ہے مگر امتیاز علی کی جرات کو سلام ہے کہ وہ بار بار یہ خطرہ مول لیتے ہیں اور پھر یہ ہوتا ہے کہ کبھی دیکھنے والوں کو فلم کا مرکزی خیال سمجھ آ جاتا ہے تو یہ کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی مرکزی خیال جب پکڑ میں نہیں آتا تو اسی ڈائریکٹر کی بنائی ہوئی اگلی فلم ناکام ہو جاتی ہے۔ ‘راک سٹار’ تو خاصی مقبول ہوئی اور اس نے پیسے بھی دونوں ہاتھوں سے سمیٹے مگر ‘تماشا’ کو لوگ سمجھ نہیں سکے اور یہ اس طرح سے تماشا نہ لگا سکی جیسے راک سٹار نے لگایا تھا۔ اس فلم کے بارے میں عمومی رائے یہی سامنے آئی کہ بہت سست چلنے والی فلم ہے اور مزہ نہیں دیتی۔ عالیہ بھٹ کی ‘ہائی وے’ بھی اوسط کامیابی حاصل کر سکی اور اب ‘جب ہیری میٹ سیجل’ بھی باکس آفس پر ناکامی سے دوچار ہو گئی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو امتیاز علی کے تخلیق کردہ سارے نہیں تو اکثر کردار ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور ایک ہی جیسی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ‘جب وی میٹ’ کا ادتیا کشیپ (شاہد کپور) ظاہری طور پر ایک امیر ترین اور کامیاب ترین بزنس مین ہے مگر فلم کے شروع میں ہی سب کچھ چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور اسے خود بھی نہیں پتا کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے۔ اسے پھر جب محبت ہوتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اسے اصل میں زندگی میں کیا چاہیے اور اس سے پہلے وہ کن بھول بھلیوں میں بھٹکتا پھر رہا تھا۔

‘راک اسٹار’ کا جورڈن (رنبیر کپور) اس ادراک کے بعد مکمل طور پر بدل جاتا ہے کہ اسے راک اسٹار بننا ہے۔ اس سے پہلے کا کردار یوں چل رہا ہوتا ہے جیسے اسے پتہ ہی نہیں کہ جانا کہاں ہے۔ اسی طرح ‘کاک ٹیل’ کا گوتم کپور (سیف علی خان) بھی لا اُبالی طبیعت کا مالک ہے اور رہتا کسی اور کے ساتھ ہے مگر اسے محبت کسی اور کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ اب اس کے لیے مشکل یہ ہوتی ہے کہ کیسے اپنے دل کی سنے اور صحیح فیصلہ لے۔ یہی وہ کشکمش ہے جس میں اسے صحیح فیصلہ لینا ہے اور یہی وہ گھڑی ہے جو خاصی کٹھن ہے۔ اسی گھڑی میں انسان کا خود سے سامنا ہوتا ہے اور اسے اندر کی آوازیں بہرہ کر دینے کو آ جاتی ہیں۔ اسی گھڑی کو فلمانا امتیاز علی کا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔ اور پھر ‘ہائی وے’ کی ویرا ترپاٹھی (عالیہ بھٹ) بھی تو مصنوعی دنیا سے باغی نظر آتی ہے اور انہی مصنوعی جذبوں والے پر آسائش گھریلو ماحول کی نسبت اسے پتھروں پر سونا اور گندے مندے کپڑے پہننا زیادہ آسان لگتا ہے۔

‘تماشا’ میں وید وردھن ساہنی (رنبیر کپور) کے کردار کی صورت میں امتیاز علی نے اس تذبذب اور کشمکش کی صورت حال کو جس مہارت سے لکھا اور پھر جس خوبصورتی سے فلما دیا ہے اس پر امتیاز علی کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ امتیاز علی نے کمالِ فن سے اس صورت حال کا احاطہ کیا ہے جب انسان اصل میں کچھ اور ہوتا ہے اور زندگی کسی اور طرح کی گزار رہا ہوتا ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اپنے اصل سے اس وقت مِڈ بھیڑ ہو جانا جب آپ کسی دوسرے راستے پر بہت دور نکل چکے ہوں، نہایت تکلیف دہ منظرنامہ ہوتا ہے۔

اسی طرح امتیاز علی کی تازہ فلم ‘جب ہیری میٹ سیجل’ بھی اسی کشمکش پر بننے والی فلم ہے۔ اگرچہ وہ وجہ جو دونوں مرکزی کرداروں ہیری (شاہ رُخ خان) اور سیجل (انوشکا شرما) کو اکٹھے رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ خاصی کمزور اور بچگانہ لگتی ہے۔ امتیاز علی کے ذہن میں یقیناً منگنی کی انگوٹھی ڈھونڈنے سے بہتر بھی کوئی وجہ ہوگی جو دونوں مرکزی کرداروں کو باندھ کے رکھتی اور اسی وجہ کو فلم کے پلاٹ کا حصہ بننا چاہیے تھا نا کہ انگوٹھی ڈھونڈنے والی وجہ کو۔ اس فلم میں امتیاز علی نے وہی پرانا فارمولا لگایا ہے جو بعض موقعوں پر خاصا ناگوار بھی گزرتا ہے۔ کچھ ڈائیلاگ اور سیچوئیشنز تو ہو بہو وہی ہیں جو ‘راک اسٹار’ یا ‘تماشا’ میں پہلے بھی شامل کی جا چکی ہیں۔ مثال کے طور پر شاہ رخ خان جب انوشکا شرما کو یہ کہتا ہے کہ تم بہت صاف ستھری اور مہذب لڑکی ہو اس  لیے تم پر لائن نہیں ماری جا سکتی تو دیکھنے والا سوچتا ہے کہ یہی تو وہ ڈائیلاگ تھا جو رنبیر کپور نرگس فخری کو ‘راک اسٹار’ میں پہلے بھی سنا چکا ہے۔

اس کے علاوہ اداکاری کے لحاظ سے انوشکا شرما اس فلم میں شاہ رخ کے مقابلے میں بہت کمزور دکھائی دی ہیں۔ کئی موقعوں پہ ان کی اداکاری اوور ایکٹنگ بھی لگتی ہے اور بعض مکالموں میں تاثرات کی شدید کمی محسوس ہوئی ہے۔ دیپکا پڈوکون اس رول میں انوشکا سے کہیں زیادہ جان ڈال سکتی تھیں۔ فلم کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایسا ہرگز نہیں کہ یہ فلم دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ شاہ رخ خان نے اس فلم میں بہت جاندار اور متاثر کن اداکاری کی ہے اور  فلم کا میوزک جو کہ پریتم نے دیا ہے وہ بھی بہت خوب ہے۔ تمام گیت کہانی میں درست جگہ پر ڈالے گئے ہیں اور نہایت برمحل ہیں۔ باقی کچھ چیزیں جو امتیاز علی کا ٹریڈ مارک ہیں وہ تو اس فلم میں بھی نہایت دلکش ہیں مثلاً سینماٹوگرافی، لوکیشنز، کاسٹیومز، ایڈیٹنگ وغیرہ مجموعی طور پر فلم کا اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔

فلم دیکھنے کے قابل ہے مگر ساتھ ہی فلم دیکھتے ہوئے یہ احساس بھی شدت سے ہوتا ہے کہ امتیاز علی کے اسٹاک میں جو کچھ تھا وہ دھیرے دھیرے ختم ہو گیا ہے۔ ان کے ترکش میں جتنے تیر تھے وہ ایک ایک کرکے داغے جا چکے ہیں اور اب وہ بار بار وہی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ اس سے پہلے بہت عمدہ طریقے سے دکھا کر داد سمیٹ چکے ہیں۔ امتیاز علی ایک نہایت ہی ذہین اور خوبصورت سوچنے والے ڈائریکٹر ہیں اور ان کی بنائی ہوئی فلمیں نہایت پسند کی جاتی ہیں مگر سرِ دست انہیں چاہیے کہ وہ فلموں سے کچھ عرصے کے لیے بریک لے لیں اور جب دوبارہ آئیں تو ایک فریش اسٹارٹ لیں اور نئے نئے موضوعات پہ فلمیں بنائیں۔ فی الحال چُوسی ہوئی گنڈیریوں کو دوبارہ مارکیٹ کرنا چھوڑیں اور اس کولاج سے ہمیں معاف رکھیں۔ ہمیں آپ کی واپسی کا شدت سے انتظار رہے گا۔

1 Trackback / Pingback

  1. ریس 3 : ٹائیں ٹائیں فش — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.