حلوائی کی دکان نانا جی کی فاتحہ
از، لیاقت علی
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل اسلام آباد میں وکَلاء کے کنونشن سے خطاب کیا۔ اس کنونشن کا اہتمام سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کیا تھا اور مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ارکان میں اسلام آباد میں پلاٹ الاٹمنٹ لیٹرز تقسیم کیے جائیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کافی سالوں سے اپنے ارکان کے لیے اسلام آباد میں پلاٹ الاٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ سپریم کورٹ بار نے اپنے ارکان سے پلاٹ الاٹمنٹ کے لیے درخواستیں اور ایک مخصوص رقم بھی لی تھی۔ منتخب ہونے والی ہر قیادت ان پلاٹس کےحصول کے لیے متحرک رہی ہے اور اب شاید یہ مطالبہ کسی حد تک پورا ہو گیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے وکلاء تو پہلے ہی معاشی طور پر خوش حال ہوتے ہیں، انھیں ڈویلپڈ پلاٹس ارزاں نرخوں پر کیوں دیے جائیں۔ محض اس لیے کہ وہ منظم زیادہ vocal ہیں اور حکومت کو چیلنج کرتے ہیں اور حکومت ان کے چیلنج سے ڈر کر انھیں رشوت دے رہی ہے۔
پلاٹوں، زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ اور روٹ پرمٹ کو بہ طورِ سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا چلن قیامِ پاکستان کےساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ ابتدائی دس سال یُو پی اور بہار سے آنے والوں نے اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے تھے۔ ادھر پنجاب میں پلاٹ اور زمین الاٹ کرواتے اگلے دن اس کو بیچ کر کراچی کی راہ لیتے تھے۔
پھر جنرل ایوب خان نے فوجی افسروں میں سندھ کی زمینیں حاتم طائی کے انداز میں تقسیم کی تھیں۔ ان دنوں روٹ پرمٹ کی بہت مانگ تھی۔ جنرل موصوف نے روٹ پرمٹس اپنے حامیوں میں تقسیم کیے اور اپنی سخاوت کی داد سیاسی حمایت کی صورت وصول کی تھی۔
بھٹو شہید جب بر سرِ اقتدار آئے تو انھوں نے سیاست بہ ذریعہ پلاٹ پروگرام کو مزید آگے بڑھایا۔ ادیبوں، شاعروں وکلاء، پارٹی کارکنوں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان، غرض کہ ہر وہ بندہ جس کے بارے میں بھٹو شہید کو یقین تھا کہ وہ ان کی سیاسی حمایت کر سکتا ہے اس کو پلاٹ دیے۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1970 کی قومی اسمبلی کے چند ارکان ہی ایسے ہوں گے جنھوں نے اسلام آباد میں پلاٹ نہ لیا ہو۔
نواز شریف کی پنجاب میں سیاست کا مکمل دار و مدار وکلاء، صحافیوں کو پلاٹ الاٹمنٹ، اے ایس آئی، نائب تحصیل دار اور ایکسائز انسپکٹر بھرتی کرنے پر تھا، جسے آج پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت کہا جاتا ہے، اس میں مذکورہ بالا چیز نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
جن دنوں وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور بے نظیر شہید وزیرِ اعظم تھیں، اس دوران انھوں نے لاہور بار ایسویسی ایشن کو 500 اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو 500 پلاٹس سبزہ زار میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے۔
یہ ایک ہزار پلاٹس بہ غیر کسی قرعہ اندازی کے خواجہ شریف جو اس وقت لاہور بار ایسوسی ایشن کے صد ر تھے اور اے کریم ملک جو ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر نے تقسیم کیے تھے۔ ایل ڈی اے کی کوئی ایسی سکیم نہیں تھی جس میں نواز شریف نے پلاٹ تقسیم نہ کیے ہوں۔
وکلاء ہوں یا صحافی یا کوئی اور پروفیشنل گروپ انھیں ریاستی وسائل سے اپنی حمایت میں ہم وار کرنا کرپشن ہے اور اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اگر وکیل اور صحافی کو پلاٹ دیا جا سکتا ہے تو ایک عام شہری کو کیوں نہیں۔
پلاٹوں کی بندر بانٹ اور پریس کلب اور بار ایسوسی ایشن کو حکومتی مالی ڈونیشنز پر پابندی ہونی چاہیے۔
یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ پلاٹ الاٹمنٹ ہونے سے قبل درخواست بہ راہِ الاٹمنٹ بِک چکی ہیں۔ جوں ہی یہ پلاٹ الاٹ ہوں گے اگلے روز انشاءاللہ ان کے سودے ہوں گے کیوں کہ سبزہ زار لاہور میں ایک ہزار پلاٹس میں کم و بیش پچاس فی صد بِک چکے ہیں اور ان پر نان لائیرز گھر بنا کر رہ رہے ہیں۔
یہی حال صحافیوں کو الاٹ ہونے والے پلاٹوں کا ہے۔ میں جس گھر میں رہتا ہوں یہ پلاٹ ایک معروف صحافی کو الاٹ ہوا تھا جو انھیں بیچ کر ایک دوسری سکیم میں نواز شریف سے پلاٹ لے لیا تھا۔