بولی وڈ میں بڑھتے منفی رجحانات
از، حسین جاوید افروز
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں شو بِز سے بڑا کوئی بزنس نہیں ہوتا۔ فلمی صنعت کی چکا چوند، فلمی ستاروں کی جگ مگاہٹ اور ریڈ کارپٹ فلم پرَیمئیرز۔ سچ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بولی وڈ پر ایک پرستان کا سا گمان ہوتا ہے جو لاکھوں نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے زبردست کشش رکھتا ہے۔
ایک زمانے میں بولی وڈ کی فلم نگری کی تمام چمکتی حرکیات محض سنیما ہالز اور فلمی رسائل تک محدود رہتی تھیں۔ مگر اب زمانہ بدل چکا ہے اور فلمی رسائل کی جگہ فلمی دنیا کی کوریج کے لیے بے شمار نئے تیر رفتار ذرائع سامنے آ چکے ہیں جن میں سوشل میڈیا، اوورسیز میں فلموں کی ریلیز اور بڑے پیمانے پر فلم پروموشن کی سرگرمیاں خصوصی طور پر نمایاں اور فیصلہ کن حیثیت کی حامل قرار پا چکی ہیں۔
لیکن ہر شعبۂِ زندگی اور ہر کاروبار کے کچھ ایسے تاریک پہلو بھی ہوتے ہیں جو کہ بَہ ظاہر معمول کی چمک دمک میں مخفی رہتے ہیں مگر کوئی ایک حادثہ یا منفی رجحان کا حامل رویہ ساری فلم انڈسٹری کو بے نقاب کر کے رکھ دیتا ہے۔
رواں سال جہاں ایک طرف کرونا کی بَہ دولت بولی وڈ میں تالے لگ چکے ہیں وہاں 14 جون 2020 کو ابھرتے ہوئے ادا کار سُوشانت سنگھ راجپوت کی اچانک موت نے گویا ایک عالم کو چکرا کر رکھ دیا۔
سوشانت بلا شبہ ایک انتہائی با صلاحیت اور سنجیدہ ایکٹر کے طوپر اپنا لوہا منوا چکے تھے اور ان کو بولی وڈ کے لیے ایک تاب ناک مستقبل بھی گردانا جا رہا تھا۔
سوشانت سنگھ راجپوت نے خود کشی کی، یا ان کا خون کیا گیا، یہ معاملہ ابھی تک ایک سر بستہ راز ہی ہے۔
تاہم مَثبت پیش رفت یہ رہی کہ ممبئی پولیس، بہار پولیس کے ہم راہ مشترکہ انوسٹی گیشن کا آغاز کر چکی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس موت کے حوالے سے بھید کھل جائیں گے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آخرِ کار یہ کیس سی بی آئی کے سپرد کر دیا جائے کیوں کہ اس کیس میں تفتیش کا دائرہ خاصا پھیل سکتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایسی باتیں بھی سامنے آئیں کہ سوشانت کی موت کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر حالیہ کچھ عرصے میں سوشانت جس شدید ڈپریشن کا شکار رہے اس کی وجوہات بھی آشکار کرنا نہایت اہم ہو چکا ہے۔
چودہ جون کو تو صرف سوشانت کی سانسیں بند کی گئیں لیکن اس سے پہلے وہ کس کرب سے دوچار رہے اس پر غور فکر اور مکالمہ کرنا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
اس حادثے کے بعد بولی وڈ میں جو شخصیت تیزی سے ابھری اور ان کے تلخ مگر حقائق پر مبنی انکشافات نے جو سماں باندھا وہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
فلم کوئین اور تنو ویڈز منو سے شہرت پانے والی بولڈ اور منھ پھٹ کے طور پر معروف ادا کارہ کنگنا راوت نے سوشانت کی بے وقت موت پر فلم نگری کے کئی بڑوں پر تابڑ توڑ حملے کیے اور بولی وڈ میں بڑھتے ہوئے اقربا پروری کے رَیکِٹ کو کھل کر بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب کنگنا نے اقربا پروری پر کھل کر لب کشائی کی ہو، اس سے قبل بھی وہ کَرن جوہر کے مشہور شو کافی وِِد کَرن میں بھی میزبان کرن جوہر پر تنقید کر گزری کہ ان کی وجہ سے انڈسٹری میں نئے ٹیلنٹ کا راستہ رک جاتا ہے کیوں وہ ہمیشہ بڑے سٹارز کے بچوں کو دھرما پروڈکشنز کے تحت بریک تھرو دیتے ہیں۔
اس سے چھوٹے شہروں سے آنے والے ہونہار اور محنتی ادا کاروں کا حق مارا جاتا ہے جو ممبئی کی مایا نگری میں اونچے سپنے سجائے داخل ہوتے ہیں۔
اس انٹرویو کے بعد گویا پہلی بار بولی وڈ میں یہ موضوع کھل کر بیان کیا گیا کہ بولی وڈ میں اقربا پروری نہایت منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ کنگنا محض کرَن جوہر تک ہی محدود نہیں رہیں بل کہ وہ کھل کر عامر خان، شاہ رخ اور سلمان خان، آدیتہ چوپڑہ پر بھی پھٹ پڑی کہ ان چند خاندانوں کی فلمی دنیا پر بالا دستی نے سوشانت جیسے کئی با صلاحیت ایکٹروں کے راستے بند کیے صرف اس لیے کہ ان کے سامنے کوئی نیا ٹیلنٹ اونچائیوں کو نہ چھو لے۔
یہی وجہ ہے کہ کنگنا نے بَہ طورِ احتجاج بولی وڈ کے بڑے خانوں کے ساتھ کام کرنے سے ہمیشہ گریز ہی کیا ہے۔ بَہ قول کنگنا، سوشانت ہر لحاظ سے ابھرتے ہوئے ایکٹر تھے جو شاید اپنی لگن کی بَہ دولت کئی بڑے ناموں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے تھے لہٰذا ان کو بہت ہی منظَّم طریقے سے پہلے فلم انڈسٹری میں کنارے لگایا گیا اوراس کے بعد ان کو نفسیاتی طور پر دھیرے دھیرے تباہ کیا گیا۔
کبھی کرن جوہر نے ان کو ایک نا کام ادا کار قرار دیا تو کبھی یش راج فلمز نے انھیں یکے بہ دیگرے تین فلموں سے خارج کیا۔ کسی بھی نئے ایکٹر کے لیے دھرما پروڈکشنز اور یش راج فلمز کے ساتھ منسلک ہونا ایک اعزاز سے کم نہیں ہوتا مگر جس سرد مہری سے سوشانت کو ان پراجیکٹس سے الگ کیا گیا اس نے گویا انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ نوبت یہ آ گئی کہ وہ اپنی ڈاکووں پر مبنی فلم سوچرتا کی ریلیز کے وقت شدید دباؤ میں نظر آئے۔
سوشانت کے قریبی ذرائع کے مطابق سوشانت کو لگ رہا تھا کہ اب ان کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع بہت محدود ہو چکے ہیں، جب کہ ذاتی زندگی میں بھی ان کے ساتھ جذباتی مسائل عروج پر رہے اور پھر ان کی سیکرٹری کی خود کشی نے بھی انھیں ہلا کر رکھ دیا۔
اپنے آخری وقت میں ان کی منگیتر ریہا چکرورتی کی ان کو ان کے خاندان سے دور رکھنے کی کوشش اور ان کو نفسیاتی علاج کروانے پر اصرار بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قتل کی ایف آئی آر میں سوشانت کے والد نے کھل کر ریہا چکرورتی سے تفتیش پر زور دیا ہے۔
بَہ قول کنگنا، سوشانت کی فلم چھچھورے بزنس کے اعتبار سے رنویر سنگھ کی گلی بوائے سے بَہ درجہ ہا بہتر رہی مگر ساری پبلسٹی اور ایوارڈز گلی بوائے کی کاسٹ لے اڑی اور سوشانت کی منجھی ہوئی ادا کاری کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ہم چھوٹے شہروں سے آئے اداکاروں کو ہمیشہ ہی ممبئی میں بی گریڈ ہی سمجھا گیا ہے۔ شاید سوشانت اس بے رحمانہ سلوک سے نالاں ہو چکے تھے مگر مجھے اب بھی یہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
مختصراً ہندوستانی فلمی صنعت میں سرمایہ داری سسٹم کو جب سے اقربا پروری سے نتھی کیا گیا ہے تو اس مجموعے کی کوکھ سے سوشانت سنگھ کی موت جیسے المیے ہی جنم لیتے رہیں گے۔
سینئر ادا کار منوج واجپائی کے بَہ قول میں آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوانٹم فزکس اور فلاسفی سے شغف رکھنے والا یہ نو جوان ایکٹر جو پیشے کے حساب سے انجینئر تھے کس طرح ایک دم ہمارے درمیان سے چلے گئے؟ تاہم میرا ماننا ہے کہ بولی وڈ میں اقربا پروری ہمیشہ سے ہے اور یہ ہمارے سماج کے ہر شعبے میں رہے گی۔ اب ہمیں اس سے لڑنا ہے تو غصہ نہ کریں بل کہ اپنی تکنیک کو سدھاریں، یہی بہترین لڑائی ہے اور یہی بہترین رد عمل ہے۔
منوج واجپائی کا کہنا ہے کہ فلمی صنعت میں باہر سے آنے والوں کو ویلکم کرنا بہت اہم ہو چکا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ کنگکنا نے بولی وڈ کی ایک تلخ سچائی کو ہمت سے ابھارا ہے۔
معروف فلم ساز انوراگ کشیپ نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا اور کہا کہ میرے خیال میں آج چھوٹے شہروں کے ادا کار کو گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں زیادہ جگہ ملی ہے۔ یہاں کنگنا کو سمجھنا چاہیے تھا کہ بڑے ادا کاروں کے بچوں کو ایک محفوظ سٹارٹ ضرور ملتا ہے مگر کبھی وہ رنبیر سنگھ، عالیہ بھٹ اور سونم کپور کی طرح دَم دار نکلتے ہیں تو کبھی بے پناہ سپورٹ سسٹم کے با وُجود بھی ابھیشک بچن کی طرح جد و جہد ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہاں میں کہتا چلوں کہ سوشانت نے میری فلم ہنسی تو پھنسی، یش راج کی فلم شدھ دیسی رومانس کے لیے چھوڑی۔ لیکن اس میں کچھ معیوب بات نہیں یہ ایک نارمل پریکٹس رہی ہے۔ ہماری انڈسٹری میں ایسا ہی چلتا ہے۔ لیکن کنگنا یہ بھی واضح کریں وہ ان سارے الزامات اور متنازع امور کو کہاں تک لے جانا چاہتی ہیں؟ دھرما اور یش راج فلمز کے باہر نئے اداکاروں ایک طویل لائن ہر وقت موجود رہتی ہے اس لیے یاد رکھو کہ ہر بار چانس نہیں ملتا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ اب بڑے فلمی خاندانوں کا زور ٹوٹ رہا ہے۔
ان کے خیال میں کرن جوہر کسی کا بھی کیرئیر بنا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ باہر کا ایکٹر اپنا کوئی سپورٹ سسٹم یا گاڈ فادر نہیں رکھتا جب کہ سٹار کڈز کے پاس گائیڈینس ہوتی ہے اور ان کی ٹریننگ اور لانچنگ بھی زیادہ منظم ہوتی ہے۔
شارٹ گن شترو گھن سنہا کے مطابق ہمارے دور میں بھی انڈسٹری میں گروپنگ ہوا کرتی تھی جن میں راجیش کھنہ اور شمی کپور کے گروپس اس حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔ البتہ امتیابھ بچن بھی پرکاش مہرہ، من موہن ڈیسیائی اور یش چوپڑہ کی من پسند اور اوّلین ترجیح ہوا کرتے تھے۔ لیکن گروپنگ کے اس ماحول میں، مَیں اور دھرمیندر کبھی بھی شامل نہیں رہے۔
اس کے بعد اب کرن جوہر کی طرف آتے ہیں جن کو سوشانت کی موت کے بعد بد ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بر ملا کہتے ہیں کہ مجھے بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کوئی عادی مجرم ہیں جن کو محض اس لیے لتاڑا جائے کہ وہ بڑے ہدایت کاروں کے گھر پیدا ہوئے۔ جب کہ منھ پھٹ اداکارہ سورا بھاسکر کے بَہ قول بولی وڈ میں سب کچھ تعلقات کی بنیاد پر چلتا ہے۔ گویا یہ چند لوگوں کی ایک جاگیر بن چکا ہے، لہٰذا ایسے میں باہر سے آنے والے ادا کار کے لیے آگے بڑھنا ہر گز آسان نہیں رہتا۔
اس سارے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے فلم لائن میں کسی دوستی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بل کہ یہاں صرف کاروباری مفادات اور چڑھتے سورج کی ہی پرستش کی جاتی ہے، جب کہ محض ٹیلنٹ کے بَل بُوتے پر ہی شہرت کی دیوی کسی نئے ادا کار پر مہربان نہیں ہوا کرتی بل کہ اسے کاسٹنگ کاؤچ، اقربا پروری کے بے رحم مراحل طے کر کے ہی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کام یابی نصیب ہوتی ہے۔
تاہم ضروری نہیں کہ اقربا پروری ہی سارے فساد کی جڑ ہے کیوں کہ یہاں ہم نے دیکھا ہے کہ الہ آباد کے امتیابھ بچن سے لے کر دلی کے شاہ رخ خان، کنگنا راوت، راج کمار راؤ، نواز الدین صدیقی، جے دیپ ایلاوت، کے کے مینن، جیکی شروف سے لے کر سوشانت سنگھ راجپوت تک نے خود کو بَغیر کسی گاڈ فادر کے منوایا بھی ہے۔
آخر میں سوشانت سنگھ راجپوت کی کہی گئی بات ہی اس سارے موضوع کو سمیٹنے میں مدد فراہم کرتی ہے:
”میری دانست میں نیا ٹیلنٹ اور اقربا پروری بولی وڈ کے ماحول میں مل کر چل سکتے ہیں۔ ایک نئے ادا کار کے طور پر مجھے چند اچھے پراجیکٹس ملے اور اس ماحول سے مجھے کوئی شکایت نہیں رہی۔ لیکن میرا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر نئے ٹیلنٹ کو اقربا پروری کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے دیا گیا تو فلمی نگری ایک روز بکھر کر رہ جائے گی۔“