نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے اُدھورے دوروں سے آزادی کپ کی فتح تک
حسین جاوید افروز
یہ مئی 2002 تھا جب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کراچی ہوٹل میں مقیم تھی کہ اچانک خوفناک دھماکے سے سارا ہوٹل ہل کر رہ گیا۔ اور اس خوفناک سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کے کپتان فلیمنگ کا کہنا تھا کہ میں اس واقعہ سے لرز کر رہ گیا ہوں۔ میں اب جلد از جلد یہاں سے چلا جانا چاہتا ہوں۔ اور نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔
یہ پاکستان کرکٹ کے لیے پہلا دھچکا تھا۔ اس کے بعد آنے والے سالوں میں کئی ٹیموں نے دورہ پاکستان سے گریز کیے رکھا لیکن ہمارے میدان ابھی سونے نہیں ہوئے تھے۔ پھر مارچ 2009 کا وہ افسوسناک سانحہ برپا ہوا جب سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ کیا گیا ۔لیکن خوش قسمتی سے ڈرائیور کی حاضر دماغی اور جرات کے سبب سری لنکن ٹیم کی جانیں بچ گئیں۔
مگر اس سارے دلدوز واقعے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے پاکستان کرکٹ کے لیے بند ہوگئے ۔یوں پاکستان کو اپنی کرکٹ جاری رکھنے کے لیے ہوم سیریز کو متحدہ عرب امارات منتقل کرنا پڑا ۔ہمارے میدان ویران ہوگئے اور ہماری شائقین اپنے کھلاڑیوں اور انٹرنیشنل سٹارز کا کھیل دیکھنے سے یکسر محروم ہوگئے۔ پاکستانی ٹیم کے لیے یہ ایک کڑا وقت تھا لیکن پھر بھی گرین شرٹس نے 2009 میں ٹی ٹونٹی عالمی کپ جیتا اور بعد ازاں مصباح الحق کی قیادت میں کئی ٹیسٹ سیریز اپنے نام کیں ۔
ایسے میں نجم سیٹھی نے پاکستان کرکٹ کی باگ دوڑ سنبھال لی اور پاکستان سپر لیگ کا جھنڈا لہرا دیا ۔اس لیگ کا پہلا سیزن تمام خدشات کے باوجود ایک کامیاب ایونٹ ثابت ہوا ۔اس کے بعد یکے بہ دیگرے سپر لیگ ایک نمایاں برینڈ بن کر ابھرا اور اس کے نتیجے میں کراچی، کوئٹہ ،اسلام آباد ،پشاور اور لاہور کی ٹیموں سے کئی ہونہار کھلاڑی ابھرے ۔اس نئے خون نے قومی ٹیم میں نئی جان ڈال دی جس کا واضح ثبوت چیمپیز ٹرافی 2018 کی ٹائٹل فتح ہے۔لیکن ابھی ایک کٹھن چیلنج باقی تھا اور وہ تھا کرکٹ کو دوبارہ پاکستان میں واپس کیسے لایا جائے؟
اس سے قبل مئی 2016 میں زمبابوے کی ٹیم بھی تین میچز کے لیے پاکستان آئی لیکن اس کو کرکٹ کی واپسی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی ۔اور یہ کوشش تب کامیاب ہوئی جب صف اول کے عالمی کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ الیون کی ٹیم ستمبر 2017 میں تین ٹی ٹونٹی کھیلنے پاکستان پہنچی۔
یہ ٹیم ہرگز پھٹیچر کھلاڑیوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ اس میں چوٹی کے کھلاڑی شامل رہے۔ جن میں فاف ڈوپلیسی ، ڈیرن سیمی ،ٹم پین ،کٹنگ ،ہاشم آملہ ، پریرا اور عمران طاہر شامل تھے ۔یہ سیریز پاکستان ٹیم نے سرفراز کی قیادت میں دو ایک سے جیت لی ۔ پہلے میچ میں بابر اعظم کے شاندار 86 رنز کی بدولت گرین شرٹس فتح یاب رہے ۔ جبکہ دوسرے میچ میں آملہ کے 72 رنز اور پریرا کی جارحانہ اننگز کے سبب ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد ورلڈ الیون جیت گئی۔
اب سب کی نظریں فیصلہ کن میچ پر مرکوز تھی جس میں احمد شہراز کے جارحانہ 89 رنز کی بدولت سرفراز الیون کامیاب ٹھہری ۔ لیکن پریرا کی جارحانہ اننگز کی تعریف کرنا ہو گی جس نے میچ کا رخ بدلنے کی بھرپور کوشش کی لیکن پاکستانی باؤلروں کی عمدہ باؤلنگ نے میچ پاکستان کے حق میں کردیا۔
اس سیریز میں پاکستانی شائقین نے بھرپور جوش وخروش سے شرکت کی اور جہاں انہوں نے اپنی ٹیم کو مکمل سپورٹ دی وہیں انہوں نے ورلڈ الیون کی ٹیم کو بھی بھرپور خراج تحسین پیش کیا ۔جس نے اس مشکل گھڑی میں پاکستان کرکٹ کا کھل کر ساتھ دیا۔
ورلڈ الیون کی ٹیم کی بات کی جائے تو بلاشبہ کاغذ پر یہ ایک بڑی ٹیم تھی لیکن مختلف ٹیموں سے آئے کھلاڑیوں میں ہم آہنگی کا فقدان دکھائی دیا۔ جبکہ دوسری جانب سرفراز کی ٹیم میں ٹیم ورک اپنے عروج پر نظر آیا۔ بہرحال آزادی کپ سیریز نے پاکستان کرکٹ پر چھائے مایوسی کے بادلوں کو ہٹانے میں اہم کردار نبھایا ہے۔
لیکن اس داستان کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ جہاں شائقین نے جوش کے ساتھ میچز میں شرکت کی وہاں ورلڈ الیون کی آمد پر جس طرح لاہور میں سڑکیں جام رہیں۔اور غیر معمولی سیکورٹی کی بدولت جس طرح پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹس بدلے گئے اس سے لاہور کے شہریوں کو خاصی خواری کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ درست ہے کہ کرکٹرز کی حفاظت میں سیکورٹی فورسز نے کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سڑکیں بلاک کرنے سے سٹوڈنٹس، ایمبولینس میں موجود مریض اور دفاتر جانے والے حضرات بہت متاثر ہوئے۔
لاہور شہر میں زندگی جام ہوکر رہ گئی۔ چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو شہر کے چپے چپے پر تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ متعدد کالجز، جامعات کو بھی چار چار روزکے لیے بند کردیا گیا۔ جس سے طالب علموں کا بھی تعلیمی نقصان ہوا ۔ارباب اختیار کو اس مس لیے پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ اکتوبر میں سری لنکا اور نومبر میں ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے بھی پاکستان کی یاترا کرنی ہے تو کیا لاہور یوں کو ایک بار پھر ایسی ہی خواری کا سامنا کرنا ہو گا جس کا شکار وہ اب ہوئے۔
دوسری بات یہ کہ پی سی بی کو لاہور کے علاوہ میچز کا رخ کراچی اور راولپنڈی کی جانب بھی موڑنا چاہیے تاکہ لاہور پر بوجھ کم ہو اور دوسرے شہروں کے شائقین بھی کرکٹ معرکوں سے لطف اٹھا سکیں۔آخر میں جہاں ہم ورلڈ الیون کی پاکستان آمد پران کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں وہیں ہم ان تمام پولیس ،فوج اور رینجرز کے اہلکاروں کو بھی شاندار الفاظ میں داد تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے دن رات اس گرم موسم میں کامل ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض نہایت جانفشانی سے انجام دیے۔آزادی کپ بلاشبہ گرین شرٹس کے نام رہا لیکن بحیثیت مجموعی یہ کرکٹ کی جیت تھی ۔یہ پاکستانیوں کی فتح تھی۔