امریکہ اور مودی کی ہندوستانی جمہوریت
از، نصیر احمد
ریاست ہائے متحدہ کے بھارت میں سفیر کہتے ہیں کہ بھارت کی تنوع، جمہوریت، شمولیت اور کثرت کی روایات ہندوستان کے ایک قوی اور توانا قوم بننے کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
یہ بات انھوں نے راشٹریہ سوامی سنگ کے مکھیا موہن بھگوت سے ملاقات کے دوران کہی۔
یہ روایات جمہوری سیاست دانوں اور سلیم-جاوید کی فلموں میں ہیرو کی تقریروں کے دوران ہی کبھی کبھار نظر آتی تھیں جن کو معاشرتی حقائق کے دباؤ میں ہیرو سیاست دان اور ہیرو بَہ ذریعہ عمل دھتکار دیتے تھے۔
اب ایسی تقریریں کرنے والے بھی بہت کم ہو گئے ہیں۔ جو ہے ہی نہیں وہ کسی کو قوی اور توانا کیا بنائے گا؟
مودی سرکار اور طالبان سرکار میں نظریات اور اعمال میں کیا فرق ہے؟
اس لحاظ سے تو افغان ہندوستانیوں سے پھر بھی بہتر ہیں کہ وہ طالبان کو آزادانہ اور منصفانہ الیکشنز تو کبھی بھی نہ جیتنے دیں۔ ایسی کوئی روایتیں ہوتی تو ہندوستان میں مذہبی فاشزم کا اس قدر عروج نہ ہوتا۔
روایتیں ہوں بھی تو جب معاشرے راکٹ ہوتے ہیں تو انھیں روایتیں کہاں روک پاتی ہیں۔ یہاں تو تھی ہی نہیں اس لیے خرام یار سبک تر ہو گیا۔
اب جنھوں نے جمہوریت، تنوع، شمولیت اور کثرت کی بناوٹیں ہی گرا دی ہیں، وہ کہاں اس سب کو فروغ دیں گے۔
بس دھوکا دینا بھی مفاد میں ہے اور دھوکا کھانا بھی مفاد ہے اس لیے ریاست ہائے متحدہ کے سفیر ایسا کچھ کہہ رہے ہیں ورنہ بھارت میں انسان ہونا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
بھارت کو جمہوریتوں نے مذہبی فاشزم ترک کرنے پر مسلسل اصرار کرتے پیغامات دینے ہیں نہ کہ ہاؤڈی موڈی جیسے استقبالیے۔
اجتماعی سطح پر مذہبی فاشسٹ جمہوریتوں کے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔ ان کی طاقت کی بنیادی وجہ ہی جمہوریت اور انسانیت سے دشمنی ہوتی ہے۔ مشترکہ مفادات کے لیے کچھ عرصہ اچھے تعلقات کا کھیل چلتا ہے اور پھر ایک دن پتا چلتا ہے کہ مذہبی فاشسٹ جمہوریت اور جمہور سے زیادہ کسی اور سے نفرت نہیں کرتے۔
اگر امریکہ کے سفیر اخبار وغیرہ پڑھتے ہیں تو امریکہ کی رسوائی پر مودی کا ہندوستان، پاکستان سے بھی زیادہ خوش نظر آتا ہے۔ تو مودی کے ہندوستان کی حوصلہ افزائی کرنا ایک اور غلطی ہے۔
اتحادی چاہیے ہوتے ہیں مگر فاشسٹ تو اپنے لوگوں سے ہی شدید نفرت کا شکار ہوتے ہیں، وہ کسی اور کے مفادات کا کب تحفظ کرتے ہیں۔ اس لیے امریکہ کو مودی سرکار کی رسوائی بھری رخصت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
جنوبی ایشیا میں جمہوری بناوٹ کی بَہ حالی کے لیے مودی سرکار کا جانا بہت ضروری ہے۔ ان کی کام یابی نے خطے میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہر سرکار اسی سرکار جیسی بننے کی خواہاں ہیں۔ میر تیرگی گریں گے تو دیگر ابلہان کی کچھ حوصلہ شکنی ہو گی۔ بہت بڑا تضاد ہے۔ مذہبی فاشزم کے ذریعے تنوع، جمہوریت، شمولیت اور کثرت کا فروغ نہیں ہو سکتا۔
شاہ حسین نے کہیں کہا تھا:
کہے حسین فقیر نمانا میں ناہیں سب توں
یہ سب بس شخصیت پر قبضے کا کھیل ہوتا ہے۔ اس کی معاشرتی حقیقت یہی ہوتی ہے کہ میں ہی میں باقی کچھ ناہیں۔ اور جب باقی کچھ نہیں تو فقیر کہاں عاجز رہ پاتا ہے۔
جمہوری دنیا کو چاہیے کہ وہ جنوبی ایشیا کے اصل مسئلے پر توجہ دے؛ اور وہ مسئلہ مذہبی اور ثقافتی فاشزم کی انتہائی مقبولیت ہے۔ طالبان اچھے ہو گئے ہیں، عمران کو عقل آ گئی ہے، شیخ حسینہ برداشت کی دیوی ہیں، سُوچی کو دوبارہ امن انعام دینا چاہیے، مودی سرکار جمہوری سرکار ہے، یہ سب جھوٹے فسانے ہیں۔
اور یہ فسانے مذہبی اور ثقافتی فاشزم کو تقویت ہی پہنچاتے ہیں۔ اتنی تقویت پہنچائی ہے کہ مذہبی اور ثقافتی فاشسٹ حکم ران بن بیٹھے ہیں۔ لیکن فسانے کا اثرورسوخ فیکٹ سے زیادہ ہے۔ تو اس اثرو رسوخ کے نتیجے میں رشیوں کے پردے میں راکھشس ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔
تو موہن بھگوت نقطہ بہ نقطہ تنوع، جمہوریت، شمولیت اور کثرت سے نفرت کرتے ہیں، وہ اس سب کا کہاں تحفظ کریں گے؟