آکسفرڈ اور کیمبرج یہاں کیوں نہیں بن پاتے: ہندوستان میں جامعاتی تعلیم
معراج رعنا
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
چھتر پتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی، کانپور، بھارت
آزادی کے بعد یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قیام ہندوستانی حکومت کاایک تاریخی اور مستحسن قدم تھا۔ اس ادارے کے دیگر اغراض و مقاصد میں ایک بڑا مقصد ملک بھر کی جامعات کی ضابطہ بندی کرنا تھا تاکہ اعلی تعلیم کا ایک اعلی معیار مقرر ہو سکے،اور درس و تدریس کے ساتھ ساتھ فکر و تحقیق کے شعبے میں نئی نئی دریافتیں ممکن ہو سکیں۔
آزادی کے بعد کی دو تین دھائی تو اس اعتبار سے بہتر معلوم ہوتی ہیں کہ یہاں ہمیں جامعاتی سطح کی درس و تدریس میں بھی استحکام نظر آتا ہے اور مفکرین و محققین کی ایک تشفی بخش تعداد بھی دیکھنے کو ملتی ہے جن کی فکری اور تحقیقی کد و کاوش پر ایک زمانہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی متشکک استفسار قائم نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس ہو یا انسانی وسائل کے دیگر شعبہ جات، ہر جگہ تحقیق کے دو چار اعلیٰ نمونے ضرور مل جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم گزشتہ دو دھائیوں کامحاسبہ کرتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔
درس و تدریس کا شعبہ ہو یا فکر و تحقیق کا، ہر جگہ بے راہ روی نظر آتی ہے۔ یہاں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس نوع کی بے راہ روی اسی وقت شروع ہوتی ہے جب جامعاتی سطح کی فکر و تحقیق میں جمود اور بے حسی طاری ہو جاتی ہے، اور جب یہ جمود اپنے نقطۂ عروج پر پہنچتا ہے تو حصول تعلیم کا شغف حصول مآل و منصب کا شغف بن جاتا ہے۔ نتیجتا علم وجدان سے مِنہا ہوکر خرید و فروخت ہونے والی اشیا میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اساتذہ تاجروں کی صفت سے متصف ہو جاتے ہیں۔ بنے بنائے فارمولے اور رٹے رٹائے جملوں سے ایک آدھ گھنٹے کی جماعتی تقریر تو ممکن ہے لیکن اس سے نہ تو علوم و فنون میں وسعت نمایاں ہو سکتی ہے اور نہ ہی طالب علموں کے شعور و ادراک میں سمندر کی سی گہرائی پیدا کی جا سکتی ہے۔
فی زمانہ ہمارے یہاں تقابل کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ مشرق کو مغرب کے رو بہ رو رکھ کر دہکھنے کی خواہش ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ یہ جذبہ قابل تحسین ہے لیکن یہ اور بھی قابل صد تحسین اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب مشرق کے ہر شعبۂ حیات کو مغرب کے ہر شعبۂ حیات کے مد مقابل رکھ کر دونوں کی خوبیاں اور خامیاں نشان زد کی جائیں۔ اگر یہ تقابل صرف جمیلہ آفاق اور حسینہ عالم یا اس نوع کی دوسری انفرادی کاوش تک محدود رہتا ہے تو کہنے دیجیے کہ ایسے تقابل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ آج ہم چند انفرادی کوششوں کو مغرب سے تقابل کر کے یہ ثابت کرنے ہی میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ اب ہم نوآبادیاتی فکری غلامی سے پوری طرح آزاد ہو چکے ہیں، اور اب ہماری بھی مغربی دنیا کی طرح ایک الگ شناخت ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں تو کیا ہم سے یہاں یہ سوال نہیں پوچھا جا سکتا کہ شعبۂ علوم و فنون میں ہم نے مغرب کی طرح کون سی الگ پہچان قائم کی؟ آکسفرڈ اور کیمبرج کے انداز کی سینتالیس مرکزی جامعات کا قیام تو ممکن ہو سکا لیکن کیا ہم نے آکسفرڈ اور کیمبرج کی طرح اپنی جامعات سے ایسے سائنس دانوں، فلسفیوں اور ناقدین و محققین پیدا کر سکے جن کا تقابل نیوٹن، فرانسیس بیکن، برٹرینڈ رسل، جون لاک، ہوبس، ورڈس ورتھ، کولرج جیسے عظیم المرتبت اشخاص سے کر سکتے ہیں؟
تقابل تو دور تقابل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے یہاں ذہانت و فطانت کا فقدان ہے۔ اگر ہم اپنی علمی تاریخ پر ایک سر سری نظر ڈالیں تو چرک، پاننی، چانکیا، بھرت منی اور کالی داس جیسے علوم و فنون کے ماہرین کی ایک زنجیر نظر آتی ہے، جن کا ہم مغربی دانشوروں سے تقابل بھی کر سکتے ہیں اور ان سے افضل بھی ثابت کر سکتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ جب ہمارے یہاں تعلیم و تعلم کا مربوط نظام نہ تھا تو علم و دانش کی کثرت تھی اور آج جب ملک بھر میں جامعات کا جال سا بچھا ہوا ہے تو پھرفکر و تحقیق کا دائرہ اتنا سِمٹا ہوا کیوں؟ دوسرا سوال یہ کہ مشرقی اذہان جب مغربی جامعات تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو علامہ اقبال، ہومی بھابھا، وکرم سارا بھائی، جگدیش چندر بوس،امرتیا سین، گایتری چکرورتی، وکرم سیٹھ، کرن دیسائی، ارویند اڈیگا اور من موہن سنگھ جیسے عہد ساز بن جاتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ جب ہمارے یہاں تعلیمی نظام مربوط نہ تھا تو علم کی کثرت اس لیے تھی کہ ہمارا ذہن مربوط تھا۔ اساتذہ کے منصب پر وہی فائز ہوتے تھے جو سند یافتہ نہیں علم یافتہ ہوتے تھے۔ فشار علم ان کا پیشہ نہیں بلکہ مقدس وظیفہ تھا۔ طلبا اور اساتذہ تحقیقی مقالہ لکھنے اور لکھوانے کی پانچ سالہ میعاد سے بے نیاز پرانے چراغ علم سے نئے چراغ دانش روشن کرنے میں مستغرق تھے۔ دوسری بات یہ کہ جب مشرقی اذہان مغربی جامعات کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کے اساتذہ ان سے یہی چراغ دانش جلوانے کا کام لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی علامہ اقبال تو کوئی بھابھا بن جاتاہے۔
ہماری جامعات میں سائنس اور کچھ حد تک سماجی علوم کا معاملہ ٹھیک ٹھاک معلوم ہوتا ہے لیکن زبان و ادب کا شعبہ تو گویا آباد ہوتے ہوئے بھی ویران نظر آتا ہے ۔ آباد اس لیے کہ یہاں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے،اور ویران اس اس لیے کہ یہاں کوئی بھی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نوع کی تمام علمی سرگرمی کبھی چند افراد کے دم قدم سے قائم تھی جنہیں آج کے اساتذہ بجائے اسے آگے بڑھانے کے بس اسے یاد کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، خورشیدالاسلام، کلیم الدین احمد،م حمد حسن عسکری، خلیل الرحمن اعظمی، معین احسن جذبی، گاسلوب احمد انصاری، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، وارث علوی ، قاضی عبد الستار، شہریار اور ابو الکلام قاسمی جیسے متنوع الصفات اساتذہ کے بعد ان کے جیسے دوسرے اساتذہ کا ظہور کیوں کر ممکن نہیں ہو پا رہا ہے؟
جواب سیدھا ہے کہ گزشتہ پچیس تیس برسوں میں جامعات اور کالجوں میں بدقسمتی سے ایسے اساتذہ کی تقرری ہوئی جو مولویانہ یعنی کلریکل مزاج کے حامی ہیں۔ ان کے پاس ایک فکر تو ہے لیکن وسعت سے عاری،نظر تو ہے لیکن اتنی تنگ کہ کثرت نظارہ سے بھی وا نہ ہو۔ ان کے نزدیک درس و تدریس کا پیشہ عام پیشوں کی طرح مآل و منصب حاصل کرنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ عالمی نیز ملکی سیاست میں معدوم الحرکت مگر جامعاتی اور مکتبی سطح کی سطحی سیاست میں اتنے فعال کہ شاہین بھی انہیں رشک کی نگاہوں سے دیکھے۔
اسسٹنٹ پروفیسرسے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسوسی ایٹ پروفیسر سے پروفیسر بننے کی دوڑ میں وہ اس قدر برق رفتار کہ دوڑ کا ہر خطاب انہیں کے نام نظر آتا ہے لیکن اگر غلطی سے انہیں کسی علمی موضوع پر لکھنے یا کلام کی دعوت دے دی جائے تو ان کی صورتیں قابل دید ہوتی ہیں۔ گویا کسی طبیب نے کنین کی گولی کھلا دی ہو۔ تحقیقی مقالہ تو دور کسی کتاب پر یک اقتباسی تبصرہ نہ لکھنے کی اہلیت رکھنے والے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا جوڑ کر ڈاکٹر صاحب کہلانے والے ان اساتذہ سے یہ امید کی ہی نہیں جا سکتی کہ وہ اپنے طلبا اور طالبات کی کچھ اس طرح علمی ضیا بندی کریں کہ وہ متعلقہ موضوعات کے آفتاب و ماہتاب بن جائیں۔
ان اساتذہ کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ان اساتذہ کی ہے جو محض خوشنودی کی بنا پر استاد بن گئے۔ ان میں تحرک کے بر عکس جمود پایا جاتا ہے۔ یہ قابل نظر انداز ہیں کہ انہیں ہر وقت اپنی کم علمی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ معیادی ترقی کا بڑے سکون سے انتظار کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان کی ہے جو خود کو قدامہ ابن جعفر سے کم نہیں سمجھتے۔ ادب کا کوئی بھی موضوع ہو وہ اس پر اس اعتماد سے اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ متعلقہ موضوع کا عالم بھی اپنی عالمانہ فراست کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ وہ ہمہ وقت سیمنار اور جلسوں کی تاک میں رہتے ہیں کہ اسی بہانے اُنھیں مضمون کی صورت میں دو چار کتابوں کا چربہ کرنے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ہے جنہیں وہ کتابی صورت میں لے آتے ہیں۔ اس نوع کی کتابوں کو وہ بہ د ہنِ خود تحقیقی یا تنقیدی کارنامہ کہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان میں تحقیق کے اصول پائے جاتے ہیں اور نہ ہی تنقیدی ضوابط، نہ حوالہ نہ حواشی، نہ تحقیق کی زبان اور نہ ہی تنقیدی اسلوب، پھر بھی ان کا اصرار مسلسل کہ ان کی کتابوں کو قدامہ کی نقدالشعر اور شمس الرحمن فاروقی کی شعر شور انگیز جیسی معرکتہ الآرا کتابوں کا مرتبہ دیا جائے۔
ایسے اساتذہ یہ بھول جاتے ہیں کہ فارمولا بندی سے صرف تقریر کی جا سکتی ہے، کسی بصیرت افروز تحریر کا وجود ممکن نہیں۔ یہ اساتذہ اس نفسیاتی فارمولے پر کام کرتے ہیں کہ ایک جھوٹ اتنی بار دہرایا جائے کہ وہ سچ ہو جائے۔ سچ بھی یہی ہے کہ اسی فارمولے کی مدد سے وہ اسسٹنٹ سے پروفیسر کے منصب تک پہنچے اور اب ان کی نگاہیں پروفیسر ایمرٹس کی طرف ہیں۔ غالب نے بجا کہا ہے رُو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھم ۔ ظاہر ہے کہ جس تعلیمی ادارے میں اس نوع کے اساتذہ کی کثرت ہو وہاں سے علم، تخلیق،بصیرت، تحقیقی اور تنقیدی شعور راتوں رات کمبل اوڑھ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہماری جامعات سے انگریزی، اردو اور ہندی کے بڑے ادب پارے اور ادبی تنقید و تحقیقی پیدا نہیں ہوتی۔
گزشتہ پچاس برسوں میں اعلی درجے کی تحقیق، تنقید اور تخلیق انہیں کا قابل صد رشک کارنامہ ہے جو براہ راست انگریزی یا اردو بیت العلمی کے اساتذہ میں شامل نہیں۔ آر۔کے۔نارائن، نانی پالکی والا، خُشونت سنگھ، انیتا دیسائی، اروندھتی رائے، شوبھا ڈے، قدرت اللہ شہاب، میراجی،راشد، فیض، رشید جہاں، سجاد ظہیر، اختر الایمان، خواجہ احمد عباس، سریندر پرکاش، انتظار حسین، قرۃالعین حیدر، شمس الرحمن فاروقی، سید محمد اشرف وغیرہ بیت العلمی کے ارکان نہ ہوتے ہوئے بھی بیت العلمی کی روح ہیں۔ جب کہ عین اس کے بر عکس مغربی بیت العلمی میں آئی۔اے۔رچرڈس،سوسیور،ولیم ایمپسن،میشل فوکو،پال دی مان،لاکاں،نوام چومسکی،ایڈورڈ سعید،رولاں بارتھ،جونتھن کلر،گایتری چکرورتی اور کرن دیسائی جیسے متعدد ادیب، محقق، نقاد اور فلسفی و مفکربحیثیت استاد کے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس درس گاہ میں آرنلڈ، رچرڈس، ایف۔آر۔لیوس، پال دی مان جیسے ذی علم اساتذہ موجود ہوں وہاں علامہ اقبال، ولیم ایمپسن، کلیم الدین احمداور گایتری چکرورتی جیسے شاگرد رشید کا ظہور کیوں کر ممکن نہ ہو۔
موقع اس بات کا نہیں کہ بات بات پر مغرب سے اپنا مقابلہ کیا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علمیات کے شعبے میں مغربی بیت العلمی کی بہترین قدروں کو اپنے تعلیمی نظام میں پیوست کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ آکسفرڈ، کیمبرج، ہارورڈ اور کولج ڈی فرانس سے ہندوستانی جامعات کا مقابلہ اچھی بات ہے، لیکن اس سے کہیں عمدہ بات ان تعلیمی پیمانوں، تحقیقی معیارات اور اساتذہ کی تقرری کے ضابطے کو اپنانا ہے جنہیں مغربی بیت العلمی کا طرۂ امتیاز تسلیم کیا جاتا ہے۔
کیا کبھی ہم نے اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا کہ 1096 اور 1209 سے لے کر تاحال آکسفرڈ اور کیمبرج کے تعلیمی، تعلمی اور تحقیقی معیار میں کیوں فرق نہیں آیا؟ کیا وجہ ہے کہ اب تک وہاں کے47 فارغین و معلمین نوبل انعام سے سرفراز ہو چکے ہیں؟ ظاہر ہے کہ جس تعلیمی نظام کی بنیاد علمی عقیدے پر ہوگی وہاں اساتذہ کی تقرری تمام تر مصلحتوں سے پاک ہوگی اور ان کا ہر علمی کارنامہ ترقیِ منصب کے برعکس ترقیِ علم کے لیے ہوگا۔
آج مشرقی جامعات کا بڑے سے بڑا حامی گزشتہ پچیس تیس برسوں میں لکھی جانے والی کسی ایسی معرکتہ الآرا تحقیقی اور تنقیدی کتاب کی نشاندہی نہیں کر سکتا جو کسی استاد کی فکری کوشش کا نتیجہ ہو۔ آج ہندوستان میں 47 سے زائد مرکزی اور 215 صوبائی جامعات کے علاوہ 16000 کالجز ہیں لیکن افسوس کہ ان تعلیمی اداروں سے دو چار سال کے بعد بھی دو چار قابل رشک تحقیق کا ظہور ممکن نہیں ہوتا۔