ہندوستانی زندان سے فرار
از، حسین جاوید افروز
دسمبر1971 ہماری قومی تاریخ میں ایک تلخ باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب ہمارا پورا پاکستان اپنوں اور اغیار کی سازشوں اور بنگالیوں کے احساس محرومیوں کو دور نہ کرنے کی پاداش ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا۔ بلاشبہ یہ الم ناک سانحہ اپنے پیچھے کئی اسباق اور زیست کی داستانیں چھوڑ گیا ہے۔ ایسی ہی ایک داستان کا ذکر ہمیں منیر احمد منیر کی کتاب المیہ مشرقی پاکستان کے پانچ کردار میں بھی ملتا ہے۔ جب پاک فوج کے ایک جری افسر میجر نادر پرویز بے جگری سے کھلنا کے محاذ پر وسائل کی کمی کے باوجود لڑتے رہے ۔مگر سولہ دسمبر کو ہائی کمانڈ کی جانب سے سرنڈر کے حکم پر ان کو لڑائی بند کرنا پڑی اور خود کو ہندوستانی فوج کے حوالے کرنا پڑا ۔بقول نادر پرویز مشرقی پاکستان میں ہندوستانی فوج کے ساتھ سب سے سخت لڑائیاں جیسور اور کھلنا میں لڑی گئیں جس میں ہندوستانی فوجوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔
دوسری جانب ہمارے جوان کئی ماہ سے مسلسل حالت جنگ میں تھے ۔ان کو سامنے ہندوستانی فوج کا سامنا تھا جبکہ ان کی پشت پر مکتی باہنی بھی ہر لمحہ زک پہنچانے کے لیے تیار رہتی تھی ۔مسلسل داخلی شورش اور بیرونی جارحیت کے خلاف مدافعت سے فوج کے مورال پر بھی منفی اثر پڑا تھا ۔اس پر ستم یہ کہ دستیاب وسائل نہایت ناکافی ثابت ہورہے تھے اور مغربی پاکستان سے مزید کمک بھی بحری اور ہوائی راستے بند ہونے کے سبب پہنچ نہیں پاتی تھی ۔لیکن ان تمام گوناگوں مسائل کے باوجود ہمارے جوان اور افسر آخری سانس اور آخری گولی تک مادر وطن کا دفاع کرنے کا عزم کر چکے تھے۔
لیکن بادل ناخواستہ ان کو ہائی کمان کی جانب سے احکامات کے سبب ہتھیار ڈالنے پڑے ۔چند روز بعد بطور جنگی قیدی نادر پرویز کو بھی بذریعہ ٹرین بھارت روانہ کردیا گیا ۔دوران سفر ٹرین کی کھڑکیاں سیل کی گئیں تھیں اور بھارتی سنتریوں کی حفاظت میں جب ہمارے جوان کلکتہ پہنچے تو وہاں ان کو ریلوے سٹیشن پر ہندوستانی عوام کی جانب سے قابل نفرت رویے کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔میجر صاحب کو دوسرے افسران اور جوانوں کے ساتھ فتح گڑھ کیمپ میں منتقل کردیا گیا ۔اترپردیش میں واقع یہ کیمپ لکھنؤ کے قریب ہی تھا ۔نادر پرویز کے مطابق کیمپ میں صبح و شام تمام جوانوں کو فال ان کر کے ان کی گنتی کی جاتی تھی ۔اور یہ عمل کسی بھی بھارتی میجر یا کیپٹن کی موجودگی میں مکمل کرایا جاتا تھا جو کہ حقارت بھرے رویے سے ہمارے افسران اور جوانوں کے جذبات مجروح کرتا تھا۔
کیمپ کاسربراہ کرنل موجمدار تھا جو کہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر ڈسپلن پر بے تکے لیکچر دیا کرتا تھا ۔اس کی بلاوجہ رعب جھاڑنے کی عادت اور بھارتی قید سے بیزاری نے نادر پرویز اور دیگر ساتھیوں کو مجبور کردیا کہ وہ راہ فرار کے متعلق سوچیں ۔اس مقصد کے لیے غسل خانے کے راستے سرنگ کھودنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ چناچہ منصوبہ بندی کر کے انہوں نے کیمپ کے میڈیکل روم سے چھریاں وغیر ہ چوری کیں اور سرنگ کھودنے کا کٹھن کام شروع کردیا ۔درمیان میں ایک بار جولائی 72 میں شملہ معاہدے کی وجہ سے فرار کا منصوبہ معطل بھی کیا گیا مگر پھر سفارتی کوششوں سے نا امید ہوکر دوبارہ فرار کی کوششیں شروع ہوگئیں۔
جنگی قیدیوں کے لیے بنائے گئے کیمپ میں میڈیکل کی سہولیات برائے نام تھیں ۔جبکہ قیدیوں کے لیے ضرورت کی جو بھی اشیاء پاکستان سے اہل خانہ کی جانب سے بجھوائی جاتی ان کو بھی بھارتی سنتری للچائی نگاہوں سے دیکھتے اور ہمارے فوجیوں سے منت سماجت کر کے اپنے پاس رکھ لیتے۔ جبکہ کئی بار جامعہ ملیہ سے مسلم پروفیسروں کو بھی لیکچر کے لیے بلایا جاتا، جو اکھنڈ بھارت کے فلسفے کو اجاگر کرتے اور دو قومی نظریہ کی حقانیت کو فراموش کرنے کا درس دیتے۔
لیکن ہمیشہ ہی ان کو ہمارے افسران کی جانب سے دندان شکن جواب دے کر خاموش کردیا جاتا ۔دوسری جانب نادر پرویز نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ 17 ستمبر کو فرار ہونے کی ٹھان لی کیونکہ اب سرنگ پایہ تکمیل تک پہنچ چکی تھی ۔یوں رینگتے رینگتے نادر پرویز اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کی حدود سے باہر نکل گئے اور لکھنو جانے والی ریل میں سوار ہوگئے ۔ایک جانب آزادی کا خمار اپنے جوبن پر تھا تودوسری جانب بھارتی انٹیلی جنس کی جانب سے گرفتار ہونے کا بھی خوف بھی دلوں میں جاگزین تھا ۔تینوں نے اپنے حلیے، ہیر سٹائل اور چال ڈھال بدل لی اور خود کو مشرقی پاکستان کے مہاجر کے طور پر پیش کرنے کی سٹوری بھی بنا لی۔ ا ن میں سے ایک ساتھی نور راجستھان چلا گیا جہاں اس کے راشتہ دار مقیم تھے تاکہ وہاں جا کر راجستھان سے فرار ہونے کے امکانات پر غور کرسکے اور کچھ رقم کا بھی بندوبست کرلے۔
جبکہ دوسری جانب کیمپ میں گنتی کے دوران جب پانچ افسر کم پائے گئے تو یہ سننا تھا کہ مونچھوں کو تاؤ دینے والا کرنل موجمدار خوف سے بیہوش ہوگیا ۔ بعد ازاں ڈیوٹی پر معمور کئی افسران اور سنتریوں کا کورٹ مارشل کردیا گیا ۔فرار ہونے والے دوسرے افسران توسیدھے نیپال کی جانب نکل گئے ۔جبکہ نادر اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ دلی چلے گئے اور دربار نظام الدین اولیاء میں تین روز رہے ۔ان کے فرار ہونے کی خبر سارے ہندوستان میں پھیل چکی تھی ۔ اتنے میں نور نے راجستھان سے آکر یہ خبر دی کہ پنجاب سے راجستھان تک سخت سیکورٹی موجود ہے لہذا اس وقت یہاں سے بارڈر کراس کرنا حماقت ہوگی ۔چنانچہ اس موقع پر انہوں نے فوری فیصلہ لیا کہ بجائے مشرقی پنجاب یا نیپال جانے کے تامل ناڈو یا بمبئی کی جانب رخت سفر باندھا جائے کیونکہ ان راستوں کی جانب انڈین انٹیلی جنس کا دھیان بھی نہیں جاتا کہ پاکستان فوجی یہاں بھی جاسکتے ہیں؟
بمبئی پہنچ کر تینوں سارا دن شہر کی سڑکیں ناپتے،اور سنیما میں فلمیں دیکھتے ٹائم پاس کرتے رہے۔ مگر مقصد یہی تھا کہ کسی طرح سمگلروں کو پیسے دے کر سمندری راستے سے کراچی فرار ہوا جائے ۔لیکن اس مقصد کے لیے ا نہیں کوئی قابل اعتماد ذریعہ نہیں مل سکا۔نادر پرویز کے بقول انہوں نے چند نامی گرامی مسلم فلم ستاروں سے بھی مل کر عطیات طلب کیے مگر کسی نے بھی ان کی مدد کرنے سے گریز کیا ۔آخر کار بمشکل پیسے جوڑ کر تینوں واپس لکھنو پہنچے جہاں ان کو چند مسلم گھرانوں کی بابت علم ہوا کہ نیپال بارڈر کے تحت ہی ہندوستان سے فرار ہونا سود مند رہے گا۔
چنانچہ تینوں نے متوسط مسلم گھرانوں سے چندے لے کر بارڈر عبور کرہی لیا۔ یہ ان کے لیے خاصی جذباتی تسکین کا لمحہ تھا جب وہ نیپال پہنچے لیکن نیپال میں بھی بھارتی ایجنسیوں کے گہرا اثرورسوخ موجود تھا۔اس موقع پر انہوں نے اہم فیصلہ کیا کہ پیسوں کی کمی کے سبب نادر پرویز اکیلے ہی کھٹمنڈو جاکر پاکستانی سفارتخانے میں رپورٹ کریں گے اور وہاں سے باقی دونوں ساتھیوں کے لیے بھی کھٹمنڈو آنے کا انتظام کریں گے ۔سخت سردی اور پیسوں کی کمی کے سبب بھوکے رہتے ہوئے نادر پرویز نے یہ مشکل سفر طے کیا ۔کٹھمنڈو میں پاکستانی سفارتخانے نے ان کی روداد سنی اور ان کو پہلی دستیاب فلائٹ سے پاکستان بھجوا دیا۔
باقی دونوں رفیق بھی سفارتخانے کی مدد سے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔گویا دوہفتوں پر مشتمل یہ کٹھن سفر آخرکار تمام تر خوف اوربے یقینی کے بعد اپنے انجام کو پہنچا ۔یہاں دلچسپ امر یہ تھا کہ جو دو افسران ان کے ساتھ فتح گڑھ کیمپ سے فرار ہوئے تھے وہ سیدھے نیپال پہنچ کر چین کی سرحد عبور کر گئے اور پھر وہاں ریڈکراس کی مدد سے پاکستان پہنچ گئے ۔بلاشبہ دشمن ملک میں شدید بے بسی ور ہر دم خوف کے ماحول میں
انڈین سیکورٹی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وطن واپس آنا یقیناٰ ایک جرات مند اقدام تھا۔ میجر نادر پرویز بعد ازاں سیاست میں بھی اپنا سکہ جمانے میں کامیاب ہوئے۔ بقول نادر پرویز میرے لیے سب سے جذباتی لمحہ وہ تھا جب میں پاک سرزمین پر دو اکتوبر کو بحفاظت پہنچ گیا۔ تب میں نے فرط جذبات سے سوہنی دھرتی کو چوما اور عہد کیا کہ ہندوستان سے اس جنگ کا بدلہ ضرور لوں گا۔