فیصلہ جو بھی ہو ، ایک نظیر قائم ہوگی : بھارت میں تین طلاقوں کا مقدمہ
تین طلاقیں، پانچ جج اور مذاہب بھی پانچ
سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے ذرا ڈر ہی لگتا ہے کہ کہیں انجانے میں کچھ اونچ نیچ نہ ہو جائے، آجکل گرمی بہت زیادہ ہے اور اسی ہفتے عدالت عظمیٰ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کرنن اور مفرور بزنیس مین وجے مالیا کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے۔
جسٹس کرنن جیل جائیں گے اور اور وجے مالیا کو ابھی سزا سنائی جانی باقی ہے۔
اس لیے ذرا احتیاط۔ لیکن رہا بھی نہیں جاتا کیونکہ مسئلہ فوری تین طلاق کا ہے اور عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس سے انڈیا میں ہر مسلمان کی زندگی براہ راست متاثر ہوگی۔ یا تو مسلمان مرد پہلے کی سی آسانی سے طلاق دیتے رہیں گے یا ہر کام کو آسان بنانے کے اس ڈیجیٹل دور میں طلاق ‘ریڈ ٹیپ’ کا شکار ہوجائے گی!
لیکن یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور بات مساوات کی ہے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہیں یا نہیں اور ہونے چاہئیں یا نہیں، یا یہ تنازع اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کے دائرے میں آتا ہے؟ دونوں ہی کی ضمانت دستور ہند میں دی گئی ہے۔
بات ذرا پیچیدہ بھی ہے اور متنازع بھی، عدالت میں آئین کا ذکر تو ہوگا ہی لیکن ساتھ ہی معزز جج قرآن و حدیث کی تفسیر بھی سنیں گے۔ اور جنتا اس فیصلے کو یاد رکھا جائے گا شاید اتنا ہی فیصلہ سنانے والی آئینی بنچ کو بھی جس میں پانچ سینیئر جج شامل ہیں، اور پانچوں کا مذہب الگ ہے!
طلاق کے مسئلے تو بہت مرتبہ عدالت میں پہنچے ہوں گے، لیکن کیا امکان ہے کہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں کبھی کوئی ایسی بنچ بنائی گئی ہوگی جس میں پانچ مذاہب کو نمائندگی حاصل ہو؟ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی!
چیف جسٹس جے ایس کھہر سکھ ہیں، جسٹس کیورئن جوزف عیسائی ہیں، جسٹس آر ایف ناریمن پارسی، جسٹس یو یو للت ہندو اور جسٹس عبد النذیر مسلمان ہیں۔
بنچ چیف جسٹس تشکیل دیتے ہیں، یہ انھیں کا اختیار ہے۔ اب دو باتیں ہوسکتی ہیں: یا تو یہ محض اتفاق ہے، یا انھوں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں کافی ‘ویرائٹی’ موجود ہے، اس لیے یہ اتفاق بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر دونوں آپشنز میں سے ایک کو ‘لاک’ کرنا ہو تو میں دوسرے کا انتخاب کروں گا۔
اب بات ذرا خطرے کے دائرے میں آجاتی ہے اور مجھے احساس ہے کہ دہلی میں درجہ حرارت 44 ڈگری سیلسئس پار کررہا ہے!
اگر چیف جسٹس نے پانچ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ججوں کا دانستہ طور پر انتخاب کیا ہے تو پھر لگتا کہ اس فیصلے میں ایک واضح پیغام بھی ہے، یا احتیاطاً یوں کہیے کہ پیغام ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک ایسے مسئلے پر فیصلہ سنانے والی بنچ، جسے مسلمانوں کا ایک حلقہ اپنے مذہبی امور میں مداخلت مانتا ہے، کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے ججوں پر مشتمل نہیں تھی۔
ماناجاتا ہے کہ ججوں کے ذاتی نظریات اور ان کی پسند ناپسند ان کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اور وہ یہ حلف بھی اٹھاتے ہیں کہ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے وہ صرف دستور ہند کی پاسداری کریں گے۔
لیکن قانون کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ایسا لگنا بھی چاہیے کہ انصاف کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ گرمیوں کی چھٹیوں میں روزانہ اس کیس کی سماعت کرےگی۔ جسٹس کھہیر جلد ہی ریٹائر ہونے والے ہیں اور یہ ان کے طویل کریئر کا سب سے اہم اور مشہور کیس ثابت ہوسکتا ہے۔
فیصلہ جو بھی ہو، ایک نظیر قائم ہوگی۔