آج کی دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں (کلائمیٹ چینج) زراعت سے لے کر طرزِ زندگی تک ہر معاملے پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ لیکن اب 7 سالہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ قدیم وادی سندھ کے لوگ موسموں کے بدلتے ہوئے مزاج سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ خود کو اس لحاظ سے ڈھالنے کی کئی عملی تدابیر بھی اختیار کی تھیں۔
کرنٹ اینتھروپولوجی نامی تحقیقی جریدے نے فروری میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے جس میں جنوبی ایشیا کی عظیم موہن جو دڑو اور ہڑپہ تہذیب پر موسمیاتی اثرات اور اس پر عوامی ردِعمل کو نوٹ کیا گیا ہے۔ 3 ہزار قبل مسیح سے لے کر 1300 قبل مسیح تک پروان چڑھنے والی یہ تہذیب پاکستان سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی جب کہ اس کے مسقط سے بھی روابط تھے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج اور بنارس یونیورسٹی بھارت کےماہرین نے 2007 سے 2014 تک بھارت میں وادی سندھ کے مشہور آثار کوٹلہ ڈاہر اور اس کے نزدیک واقع ایک گہری جھیل اور اس کے اطراف آبادی میں پانی، زراعت اور زمین پر تحقیق کی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق تمام آبادیوں میں پانی کو مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے، موہن جو دڑو کی تہذیب قدیم بھی ہے اورپیچیدہ بھی، جہاں 2500 سے 1900 قبل مسیح تک مون سون بارشوں میں کمی واقع ہوئی اور جھیل کی سطح کم ہوئی۔
اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وادی سندھ کے لوگوں نے زراعت میں تبدیلی کی، چاول، دالیں اور باجرہ کی کاشت جاری رکھی۔ ان میں سے چاول کے لیے بہت پانی درکار ہوتا ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے باوجود قدیم لوگوں نے کسی نہ کسی طرح پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے رکھا۔
اس کے علاوہ دیگر شواہد سے بھی معلوم ہوا ہے کہ وادی سندھ کے لوگ تیزی سے بدلتے ہوئے موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
یہ مواد ایکسپریس اخبار کے ویب سائٹ پر شائع ہوا۔