نوزائیدہ بچوں کا قتل
از، نصیر احمد
انسان کا دوسرے انسانوں سے ایک ایسا رشتہ ہے یا تعلیم و تربیت، گفتگو و جستجو سے بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں سفاکی کہیں بھی ہو اس کی روداد اخلاقی احساسات کی دنیا کو تہہ و بالا کر دیتی ہے۔ نظریات، مفادات اور مصروفیات یہ رشتہ کمزور کرتے رہتے ہیں مگر اخلاقی احساسات کی روشنی مکمل طور پر بجھتی نہیں۔
ہمارے ہاں سفاکی عام ہے اور میڈیا کے بعد اس کے بارے میں خبریں بھی بہت زیادہ ملتی ہیں جس کی وجہ سے بدی اتنی روزمرہ ہو جاتی ہے کہ لڑکھڑانا ڈگمگانا اتنا آسان نہیں رہتا شاک کی کیفیت میں وہی مبتلا ہوتے ہیں جو بدی کی کوئی انتہائی شکل سہہ رہے ہوں یا وہ جن کے پیشے میں بدی پر بھونچکا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پھر بھی بدی کی کتنی ہی عادت کیوں نہ ہو جائے اچھے لوگوں کے اخلاقی احساسات مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔ ہونے بھی نہیں چاہییں۔
کچرے کے ڈھیروں پر ملنے والے سینکڑوں بچوں کے متعلق خبریں بھی ایسی ہی ہیں جو آپ کو مختلف قسم کی شدید کیفیات سے دوچار کر دیتی ہیں۔ لیکن یہ کیفیات ابر رواں کی طرح برس کر چھٹ جاتی ہیں۔ نوحہ و گریہ کرتے گزر جاتی ہیں اور کوئی حل تجویز نہیں کر پاتیں۔ ایسے نہیں ہونا چاہیے، ان کیفیات کی بنیاد ہم دردی ہے اور اس ہمدردی کو کوئی عملی شکل ضرور اختیار کرنی چاہیےاور عملی اقدامات کی درست سمت تب ہی متعین ہوتی ہے جب جذبات کی شدت کو پسپا کرنے میں کچھ کامیابی ہو جائے۔
چار پانچ سال پہلےبوڑھوں کے حقوق کے متعلق ایک پیپر لکھتے ہوئے جب تجاویز کی باری آئی تو سب سے پہلی بات جو ہمارے ذہن میں آئی وہ ایک نفسیاتی انقلاب سے متعلق تھی۔
اور دوسرے مسائل کی طرح اس مسئلے پر بھی ہمیں انسانی عظمت کی بحالی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انسان کو کسی عظیم ریاستی یا کائناتی مقصد کے لیے کل یا کارندے کی طرح نہیں ٹریٹ کرنا چاہیے۔ انسانوں کے حقوق ہوتے ہیں اور ان حقوق کی موجودی میں انھوں نے اپنے مقاصد خود طے کرنے ہوتے ہیں۔ اس بنیادی تفہیم کے فروغ کی بہت ضرورت ہے۔
باقی یہ قتل آسانی سے کم ہو سکتے ہیں اگر مانع حمل اشیا اور ادویات کی سہل فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اس کے علاوہ اسقاط حمل کے بارے میں قانونی اور معاشرتی رویہ اگر ہمدردانہ ہو سکے تو یہ قتل کم ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ موثر حل شاید اس سٹیج پر ہمارے معاشرے میں رائج نہیں کیے جا سکتے کیونکہ ان حلوں کی راہ میں ہماری ثقافت حائل ہے۔ اس لیے یہ بحث کرنا بے کار ہی ہے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: جمہوریت میں اک امید و آس تو ہے نا
پھر جو ممکن ہے اس پر ہی توجہ دی جا سکتی ہے۔ ان بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ لڑکیاں اب معاشرے میں روزگار میں موجود ہیں۔ والدین کا خیال بھی زیادہ رکھتی ہیں۔ اس لیے ان کی روزگار کے سلسلوں میں موجودی بہت زیادہ بڑھائی جا سکتی ہے۔ اور یہ بڑھی ہوئی موجودی اور اس سے وابستہ معاشی بہتری ان کو بوجھ سمجھنے کی ذہنیت سے نجات دلانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ معاشی بہتری کی اگر لڑکیاں ایک موثر وجہ بن جائیں تو ان کے خلاف جرائم کی تعداد میں کافی کمی لائی جا سکتی ہے۔ اور ایک بہتر معاشی صورت حال کے نتیجے میں یہ لڑکیاں مجموعی طور پر خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
دوسرے حکومت کو یہ قتل کم کرنے کے لیے ایک موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ معاملہ فلاحی تنظیموں پر ہی چھوڑ دینا کوئی دیرپا حل نہیں ہے۔ حکومت کو بھی یہ سہولت فراہم کرنی چاہیے کہ وجہ جو بھی ہو زندگی کی سلامتی کی ضمانت دینی چاہیے۔ جو بچے لوگوں کو نہیں چاہییں، حکومت کو اپنا لینے چاہییں۔ حکومتی تشدد سے اس طرح کے مسائل نہیں حل ہو سکتے۔ ایسے آپشنز موجود ہونے چاہییں جو لوگوں کو بدنامی سے بھی محفوظ رکھیں اور ان کی قتل جیسے انتہائی اقدامات کے حوالے سے حوصلہ شکنی کریں۔ اس سلسلے میں لوکل حکومتیں کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں اور ان حکومتوں کے تحت ایسے ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں جو اخلاقی دباؤ کی بجائے زندگی کی سلامتی پر اصرار کریں۔
مزید ملاحظہ کیجیے: پنچایت اور عورت کی کہانی
بیرون ملک میں تو بچوں کے اپنانے کے نظام موجود ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے نظام قائم کیے جا سکتے ہیں جن میں بچوں کے اپنانے کے سلسلے میں حکومت اور معاشرہ مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں حکومت کو زندگی کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں ایک رہنما کردار اپنے لیے وضع کرنا ہو گا۔ جب حکومت کسی معاملے میں معاشرے کی رہنمائی کرنے لگتی ہے تو معاشرہ حکومت کی پیروی کرتا ہے۔ اب بھی معاشرہ حکومت کی پیروی ہی کر رہا ہے۔ حکومت انسانی زندگی کی اہمیت کے بارے میں ایک مثبت رویے کی حامل نہیں ہے اور معاشرہ بھی اس مثبت رویے سے تہی ہے۔
اس معاملے میں ایک ہمدردانہ رویے کی کافی ضرورت ہے۔ اگر ہمدردانہ حل موجود ہوں تو پھر سختی بھی کی جا سکتی ہے لیکن کسی ہمدردانہ حل کے بغیر سختی مسئلے کی روک تھام نہیں کر پائے گی۔ کیونکہ یہ تمام مسائل سفاکی کا نتیجہ ہیں اور سفاکی بڑھانے سے حل بھی نہیں ہو سکیں گے۔
معاملہ ان بچوں کی زندگی کے تحفظ کا ہے اور ان بچوں کے لیے ایک بہتر زندگی کے امکانات کا ہے۔ اس سلسلے میں اگر ہم اخلاقی چیخ و پکارکو ترجیح دیں گے تو وہ اخلاقی چیخ و پکار ایک خوف بن جائے گی جس کے نتیجے میں لوگ زندگی بچانے کے آپشن کو نظر انداز کرتے رہیں گے۔ اس چیخ و پکار سے نیکی سے متعلق برتر احساسات تو شاید حاصل ہو سکیں لیکن ان بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے بارے میں یہ چیخ و پکار موثر نہیں ہو گی۔ اور ان بچوں کی زندگی کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنے رویے اور رد عمل تبدیل کرنے پڑیں گے۔
تیز محتسب اور شدید سزائیں ہمیشہ سے ہی موجود رہی ہیں۔ گناہ کے حوالے سے سارا معاشرہ بھی طعنے دیتا رہتا ہے۔ جینا بھی دوبھر کر دیتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ مسئلہ بڑھتا رہتا ہے۔ جو بات کام نہیں کر رہی اسے تو بدلنا پڑتا ہے۔
یا تو انسان کا مقام اتنا بلند کر دیں کہ قتل کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ جائے۔ لیکن ہمارے رویے اس طرح کے ہیں کہ اگر کوئی اپنے کو تھوڑا پسند بھی کرنے لگے تو سارا معاشرہ اس پسندیدگی کو ختم کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یا لوگوں کو اتنی معاشی سہولتیں دے دیں کہ وہ کم از کم غربت کی وجہ سے اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے مرتکب نہ ہوں۔ یا پھر جائز ناجائز کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں ترمیم کر لیں۔ یا پھر ایسی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں کے قتل تک نوبت نہ پہنچے۔ یا پھر مانع حمل اشیا اور ادویات اور اسقاط حمل جیسی سہولیات تک رسائی آسان کر دیں۔ خواتین کے انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنائیں۔ تعلیم و تربیت اس قدر عام کر دیں کہ لوگ اپنی سماجی، اخلاقی اور معاشی ترقی سے نا امید نہ ہوں۔
یہ سارے قاتل سفاک بھی ہیں اور سزاؤں کے مستحق بھی لیکن سب سے زیادہ سفاک تو نظام ہے جو لوگوں کو اس سفاکی کی راہ دکھاتا ہے۔ نظام میں سفاکی کم ہو گی تو لوگوں کی زندگیوں میں بھی سفاکی کم ہو گی۔ ایک سفاک نظام مہربان لوگوں کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ ایک سفاک نظام میں مہربان لوگ نظام کی وجہ سے نہیں موجود ہوتے بلکہ نظام کے باوجود موجود ہوتے ہیں۔
نظام بدلنا پڑے گا۔ نظام کو جمہوریت، انسانی حقوق، انسانی آزادی اور انسانی وقار اور علم و تعلیم کے بہت قریب لانا پڑے گا۔ کچرے کے ڈھیروں پر نوزائیدہ مرتے ہوئے تنہا بچے انسانیت کی عدم موجودی کا ایسا تکلیف دہ ثبوت ہیں کہ ان حقائق کے ساتھ جینا بھی ایک بہت بڑی سفاکی ہے۔