(ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، ممبر قومی اسمبلی (مسلم لیگ ن) ،سرپرستِ اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل)
وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ دنوں کراچی تا حیدرآباد ایم نائن موٹروے جیسے انفراسٹرکچر کے تکمیل شدہ حصے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ راستہ مشکل ہوں تو منزل تک رسائی بھی مشکل ہوجاتی ہے، تاہم اگر منزل تک پہنچنا ہے تو راستوں کو آسان بنانا ہوگا تو مجھے مسلم لیگ (ن) کا گزشتہ دورِ حکومت یاد آگیا جب میاں صاحب نے ملکی ترقی کیلئے وژن 2010 دیا توانہیں اسلام آباد لاہور ایم ٹو موٹروے کی تعمیر کی وجہ سے بے تحاشا تنقید کا سامنا کرنا پڑگیا، تمام مخالفین دہائی دیتے نظرآتے تھے کہ ملک کو ہسپتال ، اسکول، روزگار کی ضرورت ہے، دشمن کے خلاف دفاع مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، لیکن آج موٹروے نے ہرخاص و عام مسافر کی ضرورت بن کرثابت کردیا کہ جی ٹی روڈ کے متبادل لاہور تا اسلام آباد موٹروے کی بدلت نہ صرف فاصلوں کو سمیٹ کر ترقی کا سفر آسان ہوا بلکہ ایمرجنسی صورتحال کے موقع پر ہوائی جہازوں کی لینڈنگ سے دفاعی حصار مزید مستحکم ہوا۔
صوبائیت کو پروان چڑھانا وفاق کیلئے زہرِ قاتل کی سی حیثیت رکھتا ہے، ترقی کے دشمن اپنا مہلک ترین صوبائیت کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لاہور کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے نظرانداز کرگئے تھے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے موٹروے کی تعمیر کا مقصد وفاقی دارالحکومت کا دیگر صوبائی دارالحکومتوں کے ساتھ تیز ترین زمینی رابطہ قائم کرنا ہے اور اس حوالے سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کو منسلک کرنے کیلئے ایم ٹو موٹروے کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا، آج ملتان، سکھر، فیصل آباد، کراچی، حیدرآباد، پشاور، کوئٹہ، گوادر ، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ملک کے طول و عرض سے گزرتا موٹروے سڑکوں کا جال مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کی جانب سے وفاق کی مضبوطی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا منہ بولتا ثبوت بن چکاہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کے لئے سب سے اہم ترین فیکٹر انفراسٹرکچرہے، ہسپتال، اسکول، دفاتر ان سب کا راستہ سڑک سے ہی ہوکر گزرتا ہے، ایک بڑی کھلی کشادہ سڑک بنانے کا اولین مقصدجہاں عوام کو بلا امتیاز محفوظ اور تیز رفتار سفر کے لئے سہولت فراہم کرنا ، ٹریفک حادثوں پر قابو پانااور ایندھن کی بچت ہے وہیں بہترین روزگاری مواقع فراہم کرنا، دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت اور منتقلی میں بھی نمایاں کمی لانا ہے، بہترسفری سہولیات کی بدولت دوردراز علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتاہے اور دیہاتوں میں اجناس کی کھیت سے منڈیوں تک آسان رسائی آسان ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے تجارتی روابط میں تیزی لانے کیلئے موٹرویز کی تعمیر شروع کی جو جلد ہی کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ قرار دینے کی سند بن گئی۔ خطے میں چین ہمار ا واحد ہمسایہ قابل اعتماد دوست ملک ہے جو پاکستان کے دفاع ، معاشی استحکام، انفراسٹرکچر بنانے میں دامے، درمے ، سخنے عملی معاونت کر رہا ہے۔ چین کی برق رفتار ترقی کے سفر کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں اپنے آپ کو انفراسٹرکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ثابت کیا ہے، حکومت چین کی ترجیحات میں انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ اسِ بناء پر سرفہرست ہے کہ ترقی کا سفر صاف ہموار اور کشادہ سڑکوں کے بغیر ممکن نہیں، حکومتِ چین نے یہ ترقی کا فارمولہ صرف اپنے تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ دیگر ایشیائی ممالک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بنک کی بنیادیں رکھیں، جسکا گزشتہ ماہ بیجنگ میں افتتاح کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے ون بیلٹ ون روڈ کے وژن کو خطے کی ترقی کا وژن قرار دیتے ہوئے انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے دیگر ایشیائی ممالک کو بینک کی طرف سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری سے استفادہ حاصل کرنے کی تلقین کی، اس موقع پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ہمارے وزیرخزانہ اسحق ڈار سمیت دیگر ممالک کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
عالمی معاشی ماہرین کے مطابق انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور اکنامک پرفارمنس میں ڈائریکٹ تعلق ہے، انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ نہ صرف عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے بلکہ لیبر اور پیداواری صلاحیت میں بھی بہتری سامنے آتی ہے، اس کی آسان ترین مثال ہمارے ملک میں میٹرو بس منصوبوں کی شکل میں ہیں، میٹرو بس کی سہولت سے قبل شہریوں کو اپنی تنخواہ اور وقت کا خاطر خواہ حصہ آمد و رفت کیلئے خرچنا پڑتا تھا، آج بیس روپے کے عوض مختصر ترین وقت میں عزت و احترام سے وہ نہ صرف اپنے دفتر پہنچنے میں پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں بلکہ پارٹ ٹائم یا دیگر کاروباری مواقعوں بھی انکی دسترس میں ہیں، جہاں جہاں میٹرو بس کا اسٹاپ ہے وہاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چمک گیا ہے، پراپرٹی کی قیمتیں چڑھ گئیں ہیں، طلباء و طالبات کیلئے نئے تعلیمی ادارے اور رہائشی ہاسٹل قائم ہورہے ہیں، کاروباری حضرات اپنے دفاتر میٹرو بس کے نزدیک ترین منتقل کر رہے ہیں ، ٹیکسی اور رکشے والوں کے غیراعلانیہ اڈے میٹرو بس اسٹاپس کے سامنے دیکھے جاسکتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب انہیں سواریوں کی تلاش میں دربدر بھٹکنا نہیں پڑتا، مریضوں کی سرکاری ہسپتالوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔
انفراسٹرکچر میں ریلوے لائن اور ائیرپورٹ کی بھی زبردست افادیت ہوتی ہے، اب تو وزیراعظم صاحب نے اسلام آباد نیو ایئرپورٹ تک کیلئے میٹرو بس سروس شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے، جہاں تک ریلوے کا تعلق ہے کراچی سے پشاور تک کیلئے تیزرفتار جدیدسگنل فری ٹرین کے منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے ۔نیت صاف ہو تو قدرت خود مواقع فراہم کرتی ہے،آج ہمارے ملک میں موجودہ صدی کے سب سے بڑے منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کی کامیابی کا کریڈٹ لینے والے توبے شمار ہیں، کوئی اپوزیشن والا کہتا ہے کہ یہ ہمارے سیاسی لیڈر کا وژن ہے تو کوئی صوبائیت کو ہوا دیکر مغربی روٹ کو نظرانداز کرنے کے بلاجواز الزامات لگاکر روڑے اٹکانا چاہتاہے لیکن اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور چین کے صدر شی جن پنگ نے بائیس اپریل دو ہزار پندرہ کو اسلام آباد میں چھیالیس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے ایم او یوز پر دستخط کرکے ون بیلٹ ون روڈ کے خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے میں مدد دی جس کے نتیجے میں کاشغر سے گوادر تک چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کی تعمیر کا سلسلہ ممکن ہوا،گوادر بندرگاہ کے تجارتی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے تعاون سے مختصر عرصے میں دیگر علاقوں میں بھی موٹرویز، قومی شاہراہوں اور سڑکوں کا جال کامیابی سے بچھایا جارہا ہے ، پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں قدرت نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ایک نیا باب کھولنے میں مد د فراہم کی ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اکنامک کوریڈورصرف ایک سٹرک کا نام نہیں بلکہ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کے لئے ترقی و خوشحالی کی ایک راہداری ہے جو خطے کے لگ بھگ تین ارب افراد کو بلاتفریق ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔مغربی روٹ کی تعمیر کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگانے والوں کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب چینی شہر کاشغر سے تجارتی قافلہ پاکستان میں داخل ہوکر مغربی روٹ سے ہی گزرتا ہوا گوادر بندرگاہ سے اپنی اگلی منزل کی جانب براستہ سمندر روانہ ہوا، اس تاریخ ساز موقع پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بشمول وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت دیگر موجود تھے۔
موجودہ حکومت ہی نے گوادر کو اپنے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے کامیابی سے منسلک کردیا ہے جسکی بدولت دو دن پر مشتمل طویل سفر اب لگ بھگ آٹھ گھنٹے تک کا رہ گیا ہے،اسی طرح اس سے قبل مکران کا پورے ملک کے ساتھ سڑک کا کوئی باقاعدہ زمینی رابطہ نہیں تھا، اب جہاں جہاں سے اقتصادی ترقی کی سڑک گزر رہی ہے وہاں کاروبارِ زندگی کی ریل پیل دیکھی جاسکتی ہے، سڑک کے آس پاس قائم ہونے والے چائے سگریٹ پان کے کھوکھے مستقبل کی سپر مارکیٹس اور شاپنگ مالزکی نوید سناتے ہیں ۔ سی پیک کے کامیاب انفراسٹرکچر منصوبوں نے عالمی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیاہے، یہی وجہ ہے کہ روس، برطانیہ، سعودی عرب ، ایران، امریکہ سمیت عالمی برادری سی پیک میں شمولیت کی خواہاں ہے،جہاں دوست ملک چین کو تجارتی مقاصد کیلئے مختصر ترین روٹ مہیا ہورہا ہے وہیں افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کو گرم پانیوں تک کمرشل رسائی فراہم کرکے خطیر تعداد میں زرِ مبادلہ کمایا جاسکتا ہے،انہیں عوامل کی بناء پر عالمی تجزیہ کاروں کی طرف سے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ترین ملک قرار دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ پاکستان مستقبل قریب میں اپنی جغرافیائی پوزیشن کی بدولت عالمی منظرنامے میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے بنیادی شرط بہترین انفراسٹرکچر کی موجودگی ہے جس کیلئے موجودہ حکومت پرعزم ہے۔
یہاں میں خادم پنجاب شہباز شریف دیہی روڈ پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے آگاہ کرتا چلوں کہ موجودہ حکومت کے انفراسٹرکچر منصوبے صرف پاک چین اقتصادی راہداری تک ہی محدود نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے اس منصوبے کے صرف پہلے مرحلے میں صوبے بھر کے ہر گاؤں کیلئے اعلیٰ معیار کی سڑک کی تعمیر یقینی بنانے کیلئے 2 ہزار کلو میٹر سے زائد لگ بھگ ڈھائی سو سڑکوں کو کارپٹ کیا گیاہے، جس سے نہ صرف سینکڑوں گاؤں دیہات آپس میں منسلک ہوئے ، بلکہ وہاں کے باسیوں کو شہروں میں قائم تجارتی منڈیوں تک فوری رسائی حاصل ہورہی ہے، دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں کے عوام کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کیلئے بہترین انفراسٹرکچر کی تعمیر یقینی بنائیں اورملکی ترقی کا سفر آسان اور تیز ترین بنانے کیلئے وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کریں، عوام کو بھی سمجھنا چاہیے کہ قومی شاہراہوں کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے ترقی کے دشمن عناصرجو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سڑکوں کی ضرورت نہیں وہ خود ذاتی جہازوں اور چارٹرڈ طیاروں میں سفرکرنے کا شوق رکھتے ہیں۔