بائبل کے ترجمے کی کہانی

بائبل کے ترجمے کی کہانی

از، ڈاکٹر کوثرمحمود

ہمارے اُردو دان طبقے کو لفظ بائبل ذرا نامانوس لگے گا ۔ ہم نے قرآن سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں تورات، زبور اور انجیل کا نام سُن رکھا ہے لیکن ان پر فرداً فرداً بات کرنے سے پہلے یہ سُن لیجئے کہ حدیث میں وارد ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے جن میں 315صاحبِ کتاب تھے۔ آدم ؑ کے دس صحیفوں کا ذکر ملتا ہے لیکن اب وہ ناپید ہیں ۔ قدیم ترین صحائف میں حضرت ادریس ؑ (ا خنوخ یا انوخ) کا صحیفہ بحرِ مردار کے پاس دریافت ہوا ہے جس کا حال ہی میں انگریزی ترجمہ شائع ہوا ہے۔
علاوہ ازیں آتش پرستوں کے ہاں قدیم مذہبی کتاب؛ زردشت کی ’’اوستا‘‘ پائی جاتی ہے جو ژند زبان میں لکھی گئی پھر جب ژند زبان متروک ہو گئی تو اس کا خلاصہ اور شرح ’’ پاژند‘‘ نامی زبان میں لکھا گیا اور اب اس کا بھی صرف دسواں حصہ محفوظ ہے۔
ہندوستان میں بھی کچھ مذہبی کتابیں مثلاً وید ، پران ، اپنثد اور دوسری کتابیں پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں ہندو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ لاکھوں سال پرانی ہیں لیکن علمائے مستشرقین نے ان کی قدامت کو 1500سے1200 قبل مسیح کے لگ بھگ مانا ہے۔ ’سر ایڈورڈ کا لبروک ‘نے اسے1400قبل مسیح کی تصنیف مانا ہے۔ *۱
عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ تورات ،زبور اورانجیل مستقل اور علیحدہ علیحدہ کتابیں ہیں لیکن ہمارے ہاں جو بائبل ملتی ہے یہ ایک کتاب نہیں بلکہ تین زبانوں عبرانی، آرامی اور یونانی کی بہت سی کتابوں کا مجموعہ ہے۔ آج تک دُنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے اور اب تک اس کے531 زبانوں میں مکمل تراجم ہو چکے ہیں تین ہزار کے لگ بھگ اِس کے جزوی تراجم موجود ہیں۔ بائبل کے دو حصے ہیں ،
1۔۔۔عہد نامۂ عتیق ( یا عہدنامۂ قدیم)
2۔۔۔ عہد نامہ جدید
عہد نامۂ عتیق میں حضرت موسی ؑ سے منسوب پانچ کتابیں ہیں جن میں ایک نام تورہ (Torah) بمعنی قانون ہے جسے ہم تورات کے نام سے جانتے ہیں یہ اُن احکامات کا مجموعہ ہے جو موسیٰ ؑ پر الواح کی شکل میں نازل ہوئے تھے۔
اسی طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق داؤد ؑ پر اُترنے والی کتاب کا نام زبور تھا۔ یہ زبور بھی عہدنامۂ عتیق میں ’سام‘ (Psalm) نامی کتاب میں ’’ خدا کی حمد و ثنا کی نظمیں‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
اس طرح عیسیٰ ؑ پر کوئی کتاب اگر نازل ہوئی تو اب اُس کا کوئی وجود کہیں نہیں کیونکہ عیسیٰ ؑ نے اپنی زندگی میں انجیل کے نام سے کوئی احکاماتِ ربانی نہیں لکھوائے۔ موجودہ انجیل (لفظی معنی خوشخبری) دراصل عیسیٰ ؑ کی 70 کے قریب سوانح عمریاں ہیں جو مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے لکھیں (جس طرح سیرتِ نبویؐ پر سیرتِ ا بن ہشام یا سیرۃ شبلی نعمانی وغیرہ ہیں) ان اناجیل میں چار کو قابلِ اعتماد مانا گیا ،
1۔ متی (Mathew) کی انجیل (تصنیف 41ء ؁ فلسطین میں لکھی گئی)
2۔ مرقس (Marks) کی انجیل 60-65 ؁ء ۔ روم)
3۔ لوقا (Luke) کی انجیل 56-58 ؁ء ۔ قیصریہ)
4۔ یوحنّا (Jhon) کی انجیل 98 ؁ء ۔ ایفیس کے قریب)  ۔2
ان 70اناجیل میں سے مذکورہ بالا چار کو کیوں قابلِ اعتماد مانا گیا اور باقی انجیلیں کیوں مشکوک ٹھہریں یہ امر تاریخ کے دبیز پردوں میں مستور ہے۔ بہر حال موجودہ بائبل کے دوسرے حصے یعنی عہدنامہ جدید (New Testament) میں یہ چاروں اناجیل پائی جاتی ہیں۔ (تفصیلی ذکر آگے آئے گا)۔ ان چاروں اناجیل کے معتبر ٹھہرنے کے بارے میں فرانسیسی ادیب وولتیغ(Voltaire) کے ہاں ایک دلچسپ بیان ملتا ہے ۔ اُس نے لکھا کہ پادریوں کی ایک کونسل جمع ہوئی اور اُنہوں نے 70 انجیلوں کو ایک میز پر رکھا اورمیز کے چاروں پائے پکڑ کر زور زور سے ہلایا گیا جو انجیلیں میز سے گر گئیں انہیں مشکوک قرار دیا گیا اور 4 انجیلیں میز پر قائم رہیں اُنہیں قابلِ اعتماد قرار دیا گیا۔
وولتیغ کی اس بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ چرچ والوں نے اُسے سخت بدمعاش اور جھوٹا کہا ہے اور وولتیغ بذاتِ خود بھی مذہب کیخلاف تھا لہذا اُس کے اس بیان کو مذہب کے خلاف عناد یا طنز کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
موجودہ بائبل کے ترجمے کی تاریخ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ تاریخی حقائق کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔
1850 ق م میں حضرت ابراہیم ؑ نے میسو پو ٹیمیا (موجودہ عراق ) سے کنعان (موجودہ فلسطین)کی طرف ہجرت کی۔
1250 ق م میں حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کے مظالم سے اپنی قوم کو بچانے کے لیے مصر سے خروج کیا اور صحرائے سینا میں سرگرداں رہے۔ اسی زمانے میں اُن پر تورات اُتری جسے الواح پر لکھاگیا۔
1010 ق م میں حضرت داؤد ؑ نے یروشلم کو فتح کیا اور اُن پر زبور اُتری۔
970 ق م میں حضرت سلیمانؑ غزل الغزلات لکھ رہے ہیں اور ملکہ بلقیس (بائبل میں ان کا نام شیبا آیا ہے) سامعہ ہیں۔
حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنے والے انبیاء کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کا کچھ حصہ فتح کر لیا اور وہاں اپنی حکومت قائم کر لی (متعین تاریخ نامعلوم)
721ق م میں اشوری بادشاہ سارگون دوئم سامریہ کے شہر پر قبضہ کر لیتا ہے اور اسرائیل کی شمالی سلطنت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔
622 ق م یوداہ کے بادشاہ، یوشع نبی ’’ قوانین کی کتاب ‘‘ دریافت کرتے ہیں اور مذہبی اصلاح کرتے ہیں یاد رہے کہ ہم پہلی مرتبہ لفظ کتاب 622 قبل مسیح میں سنتے ہیں اس سے پہلے صحائف یا الواح کا ذکر ہوتا ہے
587 ق م میں بخت نصر (بائبل میں اس کا نام بنو کدنضر Nab.eu.chad Nezzar اور بنو کدر ضرر Nab.eu.ehad Rizzerآیا ہے) میسو پوٹیمیا (موجودہ عراق) کے بادشاہ نے یروشلم پر حملہ کر دیا اور یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور تمام شہر کو زمین بوس کرنے کے بعد تمام یہودیوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ بابل (Babylone) لے گیا۔ اُس نے صرف اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ توریت کے تمام نسخے اکھٹے کر کے جلوا ڈالے یا تباہ کر ڈالے۔ یہودیوں کی بابل میں اسیری 51 سال تک جاری رہی تا آنکہ 539 ق م میں میدیا اور فارس (موجودہ ایران) کے بادشاہ سائرس نے بابل کو فتح کر لیا اور یہودیوں نے اپنے وطن یر وشلم جانے کی اجازت دی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بابل میں اسیری کے دوران یہودیوں نے بخت نصر سے صرف ایک رعایت طلب کی وہ یہ کہ اپنے بچوں کو اپنی زبان اور رسم الخط یعنی عبرانی میں تعلیم دے سکیں۔ بخت نصر کے لیے یہ رعائیت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی سو اُس نے فوراً اجازت دے دی، اس طرح یہودیوں نے اپنی زبان میں بچوں کو تعلیم دے کر اپنی روایت تاریخ اور مذہب کو محفوظ رکھا۔
بابل کی اسیری کے دوران اور بعد ازاں تورات کی زبانی روایت جاری رہی تا آنکہ تقریباً ایک سو سال بعد عزرہ نبی (Prophete Esdra) یا ہمارے عقیدے کے مطابق عزیر ؑ ہو سکتے ہیں نے کہا کہ مجھے تورات زبانی یاد ہے اور انہوں نے تورات کو زبانی املا کروایا۔
400ق م میں پانچ یہودی کتابوں (Pentateuque) کی تدوین مکمل ہوئی اور انہیں قانونی درجہ ملا یہی وہ پانچ کتابیں ہیں جو یہودی حضرات موسیٰ ؑ سے منسوب کرتے ہیں اور آج عہد نامۂ قدیم میں یہ پانچوں کتابیں بالتر تیب 1۔ پیدائش ،2۔خروج ،3۔ قانون،4۔ اعدادو شمار اور ،5۔ تثنیہ کے نام سے موجود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے آخری کتاب تثنیہ (Deuterorome) جس کا لفظی مطلب پرانی چیزوں کو دہرانا ہے ، شروع سے یہودیوں کے ہاں موجودنہیں تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ کے چھ سو سال بعد یعنی ساتویں صدی قبل مسیح میں ایک شخص اُس وقت کے یہودی بادشاہ کے پاس ایک کتاب لایا اور کہا کہ مجھے یہ کتاب ایک غار سے ملی ہے۔ بادشاہ نے اُس کو اپنے زمانے کی ایک نبیہ عورت جس کا نام ہلدا (Hulda) بیان کہا جاتا ہے کے پاس بھیجا (یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے ہاں عورتیں بھی نبی رہی ہیں) ۔ اُس عورت نے کہلا بھیجا کہ یہ موسیٰ ؑ ہی کی کتاب ہے لہذا موسیٰ ؑ کے چھ سو سال بعد اس کتاب کو بھی موسیٰ ؑ کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔
عہد نامۂ قدیم کو سارے کاسارا الہامی مانتے ہوئے ہچکچاہٹ ہوتی ہے وہ یوں کہ اس میں موسیٰ ؑ کے مرنے کے بعد اُن کے کفن دفن کا احوال بھی درج ہے لہذا عقلِ سلیم یہ کہتی ہے کہ تورات اگر موسیٰ ؑ پر اتری تو اُس میں اُن کے کفن دفن کا احوال کیسے آگیا یہ یقیناًبعد کا اضافہ ہوگا۔ بہر حال ان کتب کی تاریخی حیثیت سے کسی کو کوئی انکار نہیں۔
333ق م مقدونیہ کے سکندر اعظم (Alexander the Great) سے یونانی اقتدار کے سورج طلوع ہوا۔

اسے بھی ملاحظہ کیجئے: کیا قرآن کریم کا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟

200ق م میں مقدس صحائف کی یونانی زبان میں تکمیل ہوئی جن میں 39 کتاب عہد نامہ قدیم تھیں اور چودہ اسفارِ محرفہ یا مشکوک کتابیں (Aporypha) شامل تھیں۔ یہ 14 مشکوک کتابیں عہد نامۂ قدیم کے عوامی اور خصوصی ترجموں میں تو ملتی ہیں لیکن یہودی اور پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگ ان کو نہیں مانتے۔(کٹر یہودی عہدنامۂ قدیم کی 24کتابوں کو مانتے ہیں اور اس مجموعے کو’ تناخ‘ کہتے ہیں اور پروٹسٹنٹ عیسائی بائبل میں کُل 66کتابیں ہیں ؛ 39عہد نامہ قدیم کی اور27عہد نامہ جدید کی۔ اس کے برعکس کیتھولک عیسائیوں کی بائبل میں 73کتابیں شامل ہیں؛ 46عہد نامہ قدیم کی اور27عہد نامہ جدید کی)
180ق م میں یسوع بن سیرہ (Jesus s/o Sira)نے اپنی کتاب 2 L’Ecclesiastiqueلکھی جو بائبل کے یروشلم کے ایڈیشن میں آج بھی شامل ہے اِس کتاب کا یونانی نام Le Siracide تھا۔
یسوع ابن سیرہ کا پوتا یہ کتاب 132ق م میں مصر لے کر آیا اور وہاں اس کا یونانی ترجمہ شروع کیا۔
یسوع بن سیرہ پہلا شخص تھا کہ جس نے مقدس کہانی یعنی حضرت آدم ؑ سے لے کر اپنے دادا سیمون (Simone) تک بیان کیا ۔ یہودی L’Eclesiastique کو مقدس کتاب کا حصہ نہیں مانتے اور اسے قانونی درجہ نہیں دیتے تاہم کیتھولک چرچ نے اسے بائبل کے دو یونانی ایڈیشنوں میں اسے تسلیم کیا ہے لیکن آج بائبل کے اردو ترجمے شائع شدہ بائبل سوسائٹی آف پاکستان، انار کلی لاہور میں یہ کتاب شامل نہیں ہے۔ اس کتاب کا بیشتر عبرانی متن صدیوں تک پردۂ اخفاء میں رہا تا آنکہ 1896ء میں اس کی بازیافت ہوئی ۔* ۔3
63ق م میں رومن سردار پومپئی نے پروشلم فتح کیا۔
37ق م میں رومن بادشاہ ہیرو د برسرِ اقتدار آیا بعد ازاں جس کے حکم پر عیسیٰ ؑ کو مصلوب کیا گیا۔
6ق م میں حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔
لطیفہ! ہم تو سنتے آئے ہیں کہ عیسوی سنہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے شروع ہوا لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ عیسوی کیلنڈر میں سن صفر اُس دن سے مانا گیا کہ جب عیسیٰ ؑ چھ سال کے تھے اور انہیں جون باپٹسٹ (Jean de Baptist)(مسلم عقیدے کے مطابق حضرت یحیٰ ؑ ) نے بپتسمہ دیا لہذا حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش عیسائی کیلنڈر کے مطابق سنہ 6قبلِ مسیح کی کہلائی۔
7اپریل سن 30ء میں بروزجمعہ حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کیا گیا اور سن 48ء کو پروشلم کونسل کا اجلاس ہوا۔
سن 50ء میں اناجیل کوآرامی زبان میں لکھا گیا۔ یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی مادری زبان آرامی تھی۔
مرقس (Marc or Mark) پی ایغ (Pierre)کا شاگرد تھا اور انجیل کو تحریری صورت میں لانے سے پیشتر اس کی زبانی تبلیغ کرتا رہا۔ کلیمنٹ کے مطابق مرقس نے انجیل کو روم میں مکمل کیا۔ اس بات کی یوں بھی شہادت ملتی ہے کہ مرقس کی انجیل میں کچھ یونانی الفاظ بھی موجود ہیں۔ *۔4
پاپیاس (Papias)کے مطابق متی (Mathew) نے اپنی انجیل کو عبرانی یا آرامی زبان میں لکھا بعد ازاں اسے یونانی میں ترجمہ کیا گیا۔
سن 67ء میں سینٹ پال کو روم میں قتل کر دیا گیا اُس نے عبرانی میں کچھ خطوط لکھے۔
سن 70ء میں رومی فوجی سردار طیطس (Titus) نے یروشلم کا محاصرہ کرلیا ۔
پہلی صدی عیسوی میں عہد نامۂ جدید کی 27 کتابوں کی تکمیل ہوئی اور انہیں یونانی زبانوں میں لکھا گیا۔
دوسری صدی عیسویں کے اختتام پراناجیل کا لاطینی اور سریانی (Syriaque) زبان میں ترجمہ ہوا۔ اس کے بعد بائبل یا اناجیل کی لاطینی زبان میں وسیع پیمانے پر اشاعت ہوئی۔
315ء میں آتھی نائیسیس (Athenasus) جو سکندریہ کا بشپ تھا اُس نے عہد نامہ جدید کی 27 کتابوں کو درست اور قانون قرار دیا۔
382ء میں پہلی مرتبہ جیروم (Jerome) نے بائبل کی تمام 80 کتابوں کو ایک کتاب میں یکجا کیا۔ مذکورہ کتاب میں 39 کتابیں عہد نامہ قدیم کی۔ 14کتابویں اسفارِ محرفہ یا کتبِ مشکوک اورعہد نامۂ جدید کی 27 کتابیں شامل تھیں۔ یہ تمام کتابیں لاتیں و لگات Latin Vulgat)عوامی لاطینی (میں لکھی گئیں۔
500ء میں مقدس صحائف کو صرف لاطینی زبان میں لکھنے کے احکامات جاری ہوئے۔
موجودہ زمانے میں انجیل کے چوتھی تا چودھویں عیسوی کے لکھے ہوئے قلمی نسخے موجودہیں جو سب کے سب یونانی زبان میں ہیں۔ اس وقت انجیل کے دو قدیم ترین نسخے موجود ہیں۔ ان میں پہلا سینائی کے صومعہ سینٹ کیتھرائن کا نسخہ ہے جو آج برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ انجیل کا دوسرا قدیم ترین نسخہ ’’لی واتی کاں نیو‘‘ (Le Vaticanus) کے نام سے واٹیکن کی لائبریری میں موجود ہے۔ یہ دونوں نسخے چوتھی صدی عیسوی کے وسط کے ہیں۔)
صدیوں تک لاطینی زبان علم و ادب اور عام بول چال کا ذریعہ اظہار رہی تا آنکہ 813ء تک مرورِ زمانہ سے لاطینی زبان کا عام آدمی کے لئے سمجھنا قریب قریب ناممکن ہوگیا *۔5 پھر ’توغ کی مجلس‘ (Council de Tour)نے پادریوں کو اجازت دی کہ وہ ورینکلر زبان Vernecular) )مراد علمی ادبی اور عالمانہ زبان سے ہٹ کر روز مرہ اور عام عوام کی زبان یا دیسی زبان) میں انجیل کی تبلیغ کر سکیں کیونکہ عام لوگ لاطینی زبان میں انجیل کے مندرجات کو سمجھ نہیں پاتے تھے تاہم پانچویں صدی عیسوی تک چرچ کے اعلیٰ طبقے اور سرکار دربار کی زبان لاطینی رہی اور عوام روز بروز اس سے نا آشنا ہوتے گئے، بالکل اس طرح کہ ہندوستان کے علماء اور فضلاء اور سرکاری دربار میں فارسی زبان کا دور دورہ تھا اور گلیوں بازاروں میں عام لوگ اپنے معاملات میں اردو سے کام لیتے تھے اور مقامِ عبرت ہے کہ ہندوستان کہ جس نے ’’امیر خسروؔ ، ابو الفضل فیضی ؔ ، عبد القادر بیدل ؔ اور غالبؔ جیسے فارسی کے نابغۂ روزگار علماء و فضلاء پیدا کئے آج وہاں فارسی کا نام لینے والا کوئی نہیں۔
995ء میں عہد نامہ جدید کا اینگلو سیکسن زبان میں عہدنامۂ جدید کا ترجمہ ہوا جسے آگے چل کر انگریزی ترجمے کی راہیں ہموار ہوگئیں کیونکہ انگریزی زبان کی جڑیں اینگلو سیکسن (Anglosaxon) زبان سے جڑی ہوئی ہیں جیسے اردو کی پیدائش میں فارسی کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔
1380ء کا سن بائبل کے ترجمے کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے وہ یوں کہ پروفیسر جون وائی کِلف (Jhon WyCliff) جو آکسفورڈ یونیورسٹی کا استاد تھا اور بجا طور پر اُسے انگریزی رسم الخط کا باوا آدم کہا جا سکتا ہے، نے بائبل کا پہلا مکمل قلمی نسخہ فراہم کیا۔ بائبل کایہ قلمی مخطوطہ لاطینی زبان میں تھا۔*۔6
جون وائی کلف کے شاگردوں میں لولارڈ (Lollard) اور پروی (Purvey) نے اس نسخے کی درجنوں کاپیاں اور نقلیں بنائیں اور تقسیم کیں اور یہی عوامی لاطینی زبان (Latin Vulgate)کا نسخہ جون وائی کلف کو میسر تھا اور اسی ترجمے سے اُس نے انگریزی زبان میں بائبل کا پہلا ترجمہ 1384ء میں کیا۔
چونکہ چرچ کی طرف سے بائبل کو صرف لاطینی زبان میں لکھے جانے کی پابندی تھی لہذا پوپ وائی کلف کے انگریزی میں ترجمہ کرنے سے اس قدر مشتعل تھا کہ اُس نے انگریزی زبان کے اس محسن کو اُس کے مرنے کے 44سال بعد یوں رسوا کیا کہ اُس نے حکم دیا کہ جون وائی کلف کی ہڈیوں کو قبر سے نکالا جائے اور اُنہیں چورا چورا کر کے دریا میں بہا دیا جائے اور پوپ؂ کے احکامات کی حرف بحرف تعمیل ہوئی لیکن اس ظالمانہ رویے کے باوجود معاملات چرچ کے ہاتھوں سے نکلتے گئے اور انگریزی ترجمے کی بدولت آسمانی صحائف کو اپنی زبان میں پڑھ کر سمجھنے لگے لیکن چرچ کا معاندانہ رویہ بلکہ علم دشمن رویہ برقرار رہا۔
1415ء میں چرچ کے ظلم کا اگلا شکار جون ہُس (Jhon Hus) تھا۔ یہ بھی وائی کلف کا شاگرد تھا چرچ نے فتویٰ دیا تھا کہ جس شخص کے پاس لاطینی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں بائبل کا نسخہ ہوگا وہ واجب القتل ہوگا۔ جون ہُس کو بھی اس جرم میں زندہ جلوا دیا گیا اور مقامِ عبرت ہے کہ ایندھن کے طور پر جو ن وائی کلف کے انگریزی ترجمے کو استعمال کیا گیا یعنی اپنی ہی مقدس کتاب کو ایک ایسے شخص کے جلانے کے لیے نذرِ آتش کیا گیا کہ جس کا جرم صرف یہ تھا کہ اُس کے پاس بائبل کا ترجمہ پایا گیا ۔ بہر حال جب جون ہُس کو جلایا جا رہا تھا تو اُس کی زبان پر آخری الفاظ یہ تھے،
’’ سوسال بعد خُدا ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اصلاحات کا پیامبر ہوگا اور اُس کے پیغام کودبایا نہیں جاسکے گا۔‘‘
ٹھیک ایک صدی بعد یعنی 1517ء میں مارٹن لوتھر (Martin Luther)رومن کیتھولک چرچ کے 95 جرائم منظرِ عام پر لایا اور ان الزامات کو ایک پرچے پر لکھ کر ’وٹن برگ‘ (Wittenberg) کے گرجا کے صدر دروازے پر میخوں سے گاڑھ دیا۔
مارٹن لوتھر پہلا شخص تھا کہ جس نے علی الاعلان بائبل کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور عام آدمی کی رسائی مقدس تحریروں تک ہوگی۔
اسی سال فوکس(Foxe) کی ’’ کتابِ شہداء‘‘ (Foxe’s Book of Martyrs) شائع ہوئی۔ اسی کتاب میں فوکس کا بیان ہے کہ چرچ نے سات لوگوں کو اس جرم میں زندہ جلوا دیا کہ وہ اپنے بچوں کولاطینی کی بجائے انگریزی میں انجیل کی تعلیم دیتے تھے۔
1450ء کا سال مذہب ، علم و ادب اور تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال جرمنی میں جوہان گٹن برگ (Johann Guttenberg) نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ *۔ 7اور اپنے پرنٹنگ پریس پر جرمن زبان میں بائبل چھاپی اور وسیع پیمانے پراس کی اشاعت کی ۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد حق سچ کی آواز دبانا ناممکن ہوگیا اور معاملات پرچرچ کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی اور آج جو علوم اور مذاہب کی ہمہ گیر اشاعت نظر آتی ہے وہ سب چھاپے خانے کی مرہونِ منت ہے۔
1490ء میں آکسفورڈ کے ایک استاد’ تھا مس لی ناکر‘ نے یونانی زبان سیکھی اور اناجیل کو جب یونانی زبان میں پڑھا اور اُس کا تقابل عوامی لاطینی زبان (latin Vulgate) کے تراجم سے کیا تو اُس نے اپنی ڈائری میں لکھا،
’’ یا تو یہ (یونانی) نسخہ انجیل نہیں ہے یا پھر ہم عیسائی نہیں۔‘‘ جبکہ چرچ اس پر مصر تھا کہ بائبل کو صرف لاطینی زبان میں ہونا چاہئیے ۔ لطیفہ یہ ہے کہ یونانی زبان لاطینی سے بھی قدیم تھی اور اُس میں تحریف کاکم امکان تھا کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان آرامی تھی اور آرامی سے براہِ راست ترجمہ یونانی میں ہوا تھا۔ چرچ کے اس رویے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ لاطینی صرف خواص اور سرکار دربار کی زبان تھی اور چرچ عام لوگوں کی زبان کو کم تر سمجھتا تھا اور چرچ کے خیال میں اگرلوگوں کو کلامِ ربانی اپنی زبان میں پڑھنے اور سمجھنے کا موقع مل گیا تو ہماری اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔(یہی رویہ شاہ ولی اللہؒ اورشاہ عبدالقادرؒ کو قرآن کے فارسی اور اردو ترجمے کے سلسلے میں پیش آیا۔)
1496ء آکسفورڈ کے ہی ایک اور پروفیسر’ جون کولیٹ‘ (Jhon Colet)نے اپنے شاگرد وں کے لیئے یونانی زبان سے عہد نامۂ جدید کا ترجمہ انگریزی میں کیا اس ترجمے کی مقبولیت کا اس سے اندازہ لگائیں کہ عوام میں وہ جوش و خروش تھا کہ کلامِ ربانی کو اپنی زبان میں سننے کے لیے چھ ماہ کے اندر ہر اتوار کو سینٹ پال کے گرجا گھر میں بیس بیس ہزار لوگ جمع ہو جاتے تھے ( جبکہ حالیہ دور کے ایک مبصر کے مطابق آجکل مذکورہ چرچ میں اتوار کی عبادت کے لیے بمشکل دو سو افراد جمع ہوتے ہیں اور اُن میں بھی اکثریت سیاحوں کی ہوتی ہے اور یہ بھی مقامِ عبرت ہے کہ ایک ہی یونیورسٹی کے لوگوں کے ایک ہی شعبے میں اتنا گراں قدر کام کہ جن پر پوری انسانیت فخر کر سکتی ہے اور ہماری دانشگاہوں کے فضلاء کا حال کیا ہے ۔۔۔؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہماری ہاں علمی رویہ کیوں نہ پنپ سکا؟)
1516ء میں’ ایراس مس‘ (Erasmus) جو مختلف زبانوں کا عالم فاضل تھا اُس نے یونانی اور لاطینی زبان کے ایک درجن کے قریب مختلف نسخوں سے تصحیح و تقابل کر کے عہدنامۂ جدید کو شائع کیا۔
1525-26ء میں ایک اور عالم فاضل ’ولیم ٹن ڈال‘ (Willian Tyndale)جسے انگریزی زبان کا معمار کہا جاسکتا ہے ، اُس نے بائبل کا پہلا مستند اور مکمل ترجمہ شائع کیا اور انگریزی زبان کو بائبل کی شکل میں ایک معیار اور سند فراہم کی کیونکہ وہ آٹھ زبانوں کا ماہر تھا اور اُس نے کمال عرق ریزی سے بائبل کا انگریزی ترجمہ کیا۔
لیکن بدقسمتی سے بشپ آف انگلینڈ اس ترجمے کے خلاف تھا۔ بشپ نے ٹنڈال کو زندہ جلوانے کے بجائے اس ترجمے کی کاپیاں ضبط کرنے کا حکم دیا لیکن کچھ کاپیاں بادشاہ کی خواب گاہ میں چھپا دی گئیں۔ اور بشپ اور بادشاہ ہنری ہشتم نے اس ترجمے کی تقسیم پر پابندی عائد کر دی اور چرچ نے اعلان کیا کہ اس ترجمے میں ہزاروں غلطیاں ہیں جبکہ اس میں ترجمے کی کوئی غلطی نہ تھی لیکن اس ترجمے کو کثیر تعداد میں نذر آتش کیا گیا۔
بشپ کا غصہ اور بڑھا تو اُس نے اعلان کیا کہ جس شخص کے پاس’ ٹن ڈال‘ کی بائبل نظر آئے اُسے انجیل سمیت زندہ جلادیا جائے۔
گرجا کا یہ معاندانہ رویہ کیوں تھا؟ وہ اس لیے کہ اگر لوگ اللہ کا کلام اپنی زبان میں پڑھیں گے تو گناہوں کے اعتراف کے سلسلے میں اور مرنے والوں کو برزح /اعراف (Purgatory) سے گناہوں کی بخشش کے سلسلے میں ہونے والی آمدنی متاثر ہونے کا خدشہ تھاکیونکہ انجیل کے متن میں گناہوں کے اعتراف اور برزخ (Purgatury) کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
بالآخر’ ٹن ڈال‘ کو (غالباً جرمنی) فرار ہونا پڑا لیکن اُس کے ترجمے کو روئی کی گانٹھوں اور آٹے کے تھیلوں میں چھپا کر انگلستان لایا جانے لگا لیکن 1536ء میں ’ولیم ٹنڈال‘ کو گرفتار کر لیا گیا اور 500دنوں بعد اُسے بھی آگے میں زندہ جلوا دیا گیا ۔اُس کے آخری الفاظ یہ تھے،
’’ اے خُدا ! انگلستان کے بادشاہ کی آنکھیں کھول دے۔‘‘
صرف تین سال بعد شاہِ انگلستان ہنری ہشتم نے انگریزی ترجمے کی طباعت اوراشاعت کی باضابطہ اجازت دے دی اور نہ صرف اجازت دی بلکہ گریٹ بائبل (Great Bible)کی چھپائی کے لیے رقوم بھی مہیا کیں لیکن اس سے پہلے ’ولیم ٹن ڈال‘ کے سعادت مند شاگردوں مائلس کورڈال (Myles Coverdale) اور راجر میتھیو (Roger Mathew) نے 4اکتوبر

1535ء میں بائبل کو’ کوور ڈال بائبل‘ (Coverdel Bible) کے نام سے شائع کیا۔
1537ء میں ’جون راجرز‘ (Jhon Rogers) نے اس بائبل کا دوسرا مکمل ایڈیشن جو عبرانی اور یونانی زبان میں مقابلہ کرنے کے بعد ایک فرضی نام ’تھامس میتھیو‘ (Thomas Mathew)سے شائع کیا اور 1539ء میں ’تھا مس کران مر‘ (Thomas Cranmer)نے ’مائلس کو ورڈال‘ (Myles Coverdale) کو ہنری ہشتم کی گریٹ بائبل کو اجرت پر چھاپنے کے لیے آمادہ کیا یہ عوامی استعمال کیلئے پہلی مصدقہ انجیل تھی جو ہر گرجا گھر میں تقسیم کی گئی۔
شاہِ انگلستان ہنری ہشتم کیا انجیل کا خادم تھا؟
ہنری ہشتم نے کسی مذہبی خدمت کے جذبے سے بائبل ترجمے اور اشاعت کی اجازت نہیں دی بلکہ اس میں اس کا اپنا ذاتی مفاد تھا۔ وہ یوں کہ اُس نے پوپ سے درخواست کی کہ اُسے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی داشتہ سے شادی کر سکے۔ چونکہ عیسائی مذہب میں طلاق کی ممانعت تھی لہذا پوپ نے اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
بہر حال ہنری ہشتم نے اپنی بیوی کو قتل کر کے اپنی داشتہ سے شادی کر لی اور انتقاماً رومن کیتھولک ازم کو انگلستان سے دیس نکالا دے دیا اور ملک کو مذہبی کنٹرول سے آزاد کر دیا اور خود کو سلطنت اور چرچ (بالفاظِ دیگر دین اور دنیا) کا سربراہ قرار دیا۔
اب انگلستان میں معروف معنوں میں نہ تو کیتھولک فرقہ تھا ار نہ پروٹسٹنٹ بلکہ ہنری ہشتم کی سربراہی میں یہ نیا فرقہ انجیلی چرچ (Angelic Church) یا چرچ آف انگلینڈ کہلایا۔
ہنری ہشتم نے (عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لئے اور عوامی ہمدردیاں حاصل کر نے کے لیے ) بطور پوپ چرچ کے سربراہ کے طور پر پہلاحکم یہ جاری کیا کہ عوامی خواہشات کے مطابق انگریزی میں انجیل کی طباعت پر پابندی ہٹا لیں۔
کوئین میری (Queen Mary) کے دورِ اقتدار تک یعنی 1550ء تک یہ آزادی برقرار رہی ۔ ہوا یوں کہ ہنری ہفتم کے بعد کنگ ایڈورڈ چہارم تخت نشین ہوا تو اس کے بعد ملکہ میری کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا موقع ملا۔ وہ انگلینڈ کو پھر سے چرچ کے ماتحت بنانا چاہتی تھی۔
1555ء میں ملکہ میری نے انگریزی بائبل کے پبلشرز’ راجرز‘ Rogers اور’ تھامس کران مر‘کوزندہ جلوا دیا۔ اسی دور میں بہت سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو اپنا عقیدہ بچانے کے لیئے انگلستان سے ہجرت کرنی پڑی۔
جان فوکس کی نسبت چرچ آف جنیو ا (سوئٹنررلینڈ) کا رویہ ہمدردانہ تھا اور چرچ کے مظالم کا شکار ہونے والوں کی مستند داستان اس کی کتاب،’ کتابِ شہداء ‘(Book of Martyrs)ہے۔
1557ء میں جبکہ انگلینڈ میں انگریزی بائبل کی طباعت اور اشاعت کی مشکلات تھیں تو ’جون کا لون‘ (Jhon Calvin) نے جنیوا سے بائبل کی کی اشاعت جاری رکھی اور اسی شہر میں جان’ کونکس‘ (Jhon Knox) نے بائبل کے متن کی صحت کوقائم کرنے کے لیے آیات پر نمبر لگائے اور باب وار اندراج کیا اور پہلی انگریزی Study Bibleوجود میں آئی۔
اگلے سو سال تک یعنی 1560ء سے 1644ء تک اس بائبل کے 144ایڈیشن شائع ہوئے اور یہی بائبل تھی جو کولمبس کی مہمات کے ساتھ امریکہ پہنچی ۔
(بائبل کی امریکہ آمد پرایک دلچسپ تبصرہ ایک ریڈ انڈین کی زبانی کچھ یوں ہوا کہ،
’’ جب پادری ہمارے ملک میں آئے تواُن کے ہاتھ میں بائبل تھی اور ہم زمینوں کے مالک تھے۔ آج بائبل ہمارے ہاتھ میں ہے اور وہ زمینوں کے مالک ہیں۔‘‘)
ملکہ میری(Queen Mary) کے مذہبی دورِ استبداد کے بعد ملکہ ایلزبیتھ نے بائبل کے ترجمے کی نظر ثانی کا حکم دیا اور گریٹ بائبل نظر ثانی کے بعد بشپ کی بائبل (Biship’s Bible) کے نام سے چھاپی گئی۔
بالآخر ایک طویل مزاحمت کے بعد چرچ آف روم نے انگریزی بائبل کو تسلیم کرلیا۔
ملکہ ایلزبیتھ کی موت کے بعد پرنس جیمز چہارم آف سکاٹ لینڈ کنگ جیمز اول کے نام سے تخت نشین ہوا۔ جیمز اول نے ترجمے کے اختلافات کو کسی حرفِ آخر سے ختم کرنے کے لیے 50جید علماء و فضلاء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی اور اسےTranslation to end all Translationیعنی آخری اور کامل ترجمے کا کام سونپا ۔ اس کمیٹی کی شبانہ روز کاوشوں سے بائبل کا جو انگریزی ترجمہ مکمل ہوا اُسے کنگ جیمز کی بائبل (King James Bible)کہا گیا۔
1663ء میں امریکہ میں چھپنے والی پہلی بائبل ریڈ انڈین قبائل کی زبان (Algonquin Indian Language)میں تھی اور اسے جون ایلیٹ (Jhon Eliot)نے شائع کیا۔
1793ء میں ولیم کیری (William Carey)ہندوستان آیا اور بنگالی زبان سکیھنا شروع کی 1799ء میں اُس کے دو اور ساتھی ’یشوعا مارش مان‘ (Jashua Marshman)اور ’ولیم وارڈ‘ (William Ward)اُس سے آملے اور ان کی شبانہ روز کی محنت شاقہ سے بائبل کے بنگالی ، ہندی ، اُڑی، مرا ٹھی اور سنسکرت کے مکمل تراجم منظرِ عام پر آئے۔
1811ء میں بائبل سوسائٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی جس کی وجہ سے آج 49ہندوستانی زبانوں میں بائبل کے تراجم ملتے ہیں۔
1872ء میں پہلی انگریزی بائبل امریکہ میں چھپی اسے رابرٹ اٹیکن (Robert Aitken)نے شائع کیا ۔ یہ واحد بائبل ہے جس کو امریکی حکومت نے مستند اور مصدقہ قرار دیا۔
1808ء میں اسی رابرٹ اٹیکسن کی بیٹی جین اٹیکن (Jane Aitken) پہلی عورت پبلشر تھی جس نے بائبل کو شائع کیا ۔
1880ء میں کنگ جیمز اول کی بائبل کا انگریزی نظر ثانی ایڈیشن (ERV- English Revised Edition)شائع ہوا لیکن اس ایڈیشن میں 14کتابیں (عہدنامۂ قدیم کے 14اسفارِ محرفہ (کتبِ مشکوکAporypha )غائب تھیں ۔ 1880ء تک نہ صر ف کیتھولک بلکہ ہر پروٹسٹنٹ بائبل میں 80کتابیں ہوتی تھیں۔ در اصل جیمز اول کی دھمکی تھی کہ کوئی شخص ان 14کتبِ مشکوک کے بغیر بائبل کو نہیں چھاپ سکتا لیکن 120 سال بعد پروٹسنٹ چرچ نے ان 14کتابوں کو بائبل کالازمی حصہ ماننے سے انکار کر دیا اور انہیں بائبل سے خارج کر دیا۔
1866ء میں ایک خاتون مترجم’ ایلن ہاورڈ کشنگ‘ کے بائبل کے (بنگالی ) ترجمے کی روایت ملتی ہے۔
1901ء میں ERV کا امریکن سٹینڈرڈ اور ورژن آیا ASV شائع ہوا۔
1971 ء میں نیا امریکن سٹینڈڈ ورژن (N.A.S.V)شائع ہوا ۔
1973ء میں نیا بین الاقوامی ورژن جسے N-I-V کا نام دیا گیا طبع ہواجسے بعض نقادوں نے NIVکی لفظی مناسبت سے (Nearly Inspired Version) کہا۔
2002ء میں انگلش سٹینڈرڈ ورژن E.S.Vشائع ہوا۔
2004میں NUBVیعنی New Urdu Bible Vesion زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔
آج پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ بائبل کتابِ مقدس کے نام سے ملتی ہے اور اس میں بھی 66کتابیں ہیں۔* ۔8
پاکستان بائبل کمیشن کے زیرِ اہتمام بائبل کا’کلامِ مقدس‘ کے نام سے شائع شدہ ،نواں ایڈیشن، 2007ء کا مترجم کے زیرِ مطالعہ ہے اور اس میں مختلف اصطلاحات کا اشاریہ اور متعدد نقشہ جات شامل ہیں۔* ۔9

حوالہ جات
*1 (سفر نامہ ہند برنیئر صفحہ 632)
*۔2 ۔ New world Translation of the Holy Scriptures – NWBTC- New york USA 1961-P-1460)
* ۔3 (Le bible de Jeruslame Page-1195)
*۔4 (Le bible de Jeruselum Page 1696)
*۔5 http://www.earliestfrenchtexts.com))
*۔6 (http://thetimelineofBibleTranslationHistory.com)
*۔ 7( گٹن برگ کا مطلب ہے خوبصورت یا اچھا پہاڑ۔ جرمن زبان میں Gutten اچھا یا good کو کہتے ہیں اور برگ (berg) پہاڑ یا Mountain کو کہتے ہیں۔ اسی سے آئس برگ Iceberg یعنی برف کا پہاڑ نکلا ہے)
* ۔8بائبل کے ترجمہ کی اجمالی روایت کے لئے وزٹ کریں ۔ www.GREATSITE.com

بائبل کی ترجمے کی روایت میں بائبل کے مندرجہ ذیل نسخہ جات پیشِ نظر رہے
1۔ Le bible de Jeruslame
2۔ New world Translation of the Holy
Scriptures – NWBTC- New yourk USA
3۔ کتابِ مقدس مطبوعہ بائبل سوسائٹی آف پاکستان انار کلی لاہور
4۔ کلامِ مقدس مطبوعہ کیتھولک بائبل کمیشن پاکستان،اشاعت نہم، 2007ء
*۔9 کلامِ مقدس مطبوعہ کیتھولک بائبل کمیشن پاکستان،اشاعت نہم، 2007ء

8 Comments

  1. ڈاکٹر کوثر محمود شاعر، اور مترجم خصوصی طور پر فرانسیسی زبان کے ماہر ھیں ۔۔۔ فارسی عربی انگریزی زبان پر دسترس رکھتے ھیں ۔ ان کا اہم کام فرانسیسی زبان سے براہ راست موپساں کے افسانوں کا اردو ترجمہ ” مومی گیند” کے نام سے شائع ھو چکا ہے اور بہت مقبول ھوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پیشے کے اعتبار سے ڈینٹل سرجن ھیں لیکن آج کا گارساں دتاسی کی مرتب ” اردو ادب کی تاریخ ” جو 2000 صفحات پر مشتمل ہے کا پہلی بار اردو میں ترجمہ کر رھے ھیں ۔ ان کے شعری مجموعہ ” کچھ دیر ہمارے ساتھ رھو” بہت پذیرائ حاصل کی چکا ہے۔ ہندی اساطیر سے خاص شٖغف حاصل ہے۔ لیکن فارسی سے بے پناہ محبت ہے اسی لیے ان کا اقتباس پیش ہے

    “پانچویں صدی عیسوی تک چرچ کے اعلیٰ طبقے اور سرکار دربار کی زبان لاطینی رہی اور عوام روز بروز اس سے نا آشنا ہوتے گئے، بالکل اس طرح کہ ہندوستان کے علماء اور فضلاء اور سرکاری دربار میں فارسی زبان کا دور دورہ تھا اور گلیوں بازاروں میں عام لوگ اپنے معاملات میں اردو سے کام لیتے تھے اور مقامِ عبرت ہے کہ ہندوستان کہ جس نے ’’امیر خسروؔ ، ابو الفضل فیضی ؔ ، عبد القادر بیدل ؔ اور غالبؔ جیسے فارسی کے نابغۂ روزگار علماء و فضلاء پیدا کئے آج وہاں فارسی کا نام لینے والا کوئی نہیں۔”
    ہر زبان کا اپنا عہد اور عمر ہوتی ہے جیسا کہ خود اس مضمون میں درج ہے ۔ فارسی کی عمر اب اپنے اختتام کو پہنچی اب تو عالم یہ ہے کہ اردو کو بھی وہ اہمیت حاصل نہیں جو بین الاقوامی زبان انگریزی کو حاصل ہے۔ ۔

    مضون پڑھ کر لطف آیا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔۔۔ ممنون ھیں کہ اس نوعیت کو علمی کام آپ سر انجام دے رہے ھیں ۔۔ یہ آپ کی علوم سے محبت کا ثبوت ہے

  2. اردو میں سب سے پہلے کس نے بائبل کو انجیل میں ڈھالا ۔ اس مضمون میں اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ترجمہ تو شاید ڈپٹی نذیر احمد نے بھی کیا تھا ۔
    کوثر محمود صاحب اس پر کچھ وضاحت فرمائیں تو عنایت ہو گی ۔

  3. Dear Qaiser Nazir
    AA
    The Bible was first published in the Urdu language in 1843, though the New Testament was published by Benjamin Shultze of the Danish Mission in 1745. Robert Cotton Mather printed new editions at Mirzapur in 1870.
    Earlier the same author translated parts of bible into Tamil and Telugu languages
    Dr . Kausar Mahmood

  4. The complete Bible in one volume was issued for the first time in 1892, consisting of Joseph Owen’s version of the OT and with modification of Parson’s ( this was J. Parsons who also worked on Hindi 1879) New Testament

  5. Dear Azam
    Thanks for the correction of a typographical error
    Dr Kausar Mahmood

  6. . As per your research, Old & New testaments were translated from Hebrew / Aramaic to Greek Language. What about Arabic? Shall appreciate your detailed response. Thanks & regards, Kamran Great Article Dr. Saheb, very informative. One little query though.

  7. نہایت معلومای مضمون۔ مذہبی متون کے ترجمے میں پیش آمدہ مشکلات کا سبب اجارہ داری اور وہ تمام مفادات و منفعت تھی جو عوام الناس تک خدا کا کلام بلا واسطہ پہنچنے کی صورت میں مذہبی ٹھیکے داروں سے چھٹ سکتی تھی۔

1 Trackback / Pingback

  1. مترجم دو زبانوں کے درمیان پل کی مانند — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.