زخمی صحافت
از، وارث رضا
جس سماج میں قلم آہ و بکا کرنے لگے،جس معاشرے کے افراد قلم کی حرمت سے نا واقف یا نا آشنا کر دیے جائیں، جس انسانوں کی منڈلی میں قلم کی آبرو کو سر برہنہ کر کے ریاستی سرکردگی میں باندی بننے پر مجبور کر دیا جائے، جہاں قلم اور اظہار کو بندی خانوں میں قید کرنے کا چلن عام کر دیا جائے، جو ریاست سماج کے قلم دھنیوں اور اظہار کی آزادی کے حصول میں قتل گاہوں کے دروازے وا کرتی پھرے،جہاں ریاست کے طاقتور جبڑے عام اظہار کو چبانے کا کام کرنے لگ جائیں،جس ریاست میں قلم اور آزاد رائے کو دبانے کے لئے نا معلوم طاقت جبر کے برہنہ پن اتر آئے، جہاں کا عدالتی انصاف اور قانون کی عملداری ریاستی حکمرانوں کی ابروئے جنبش دیکھنے کی عادی بنا دی جائے،جب سماج انسانوں کے عوامی گروہ کو دیکھنے،سننے اور سوچنے سے محروم کر کے جبر و بربریت کے بیانیئے کو ماننے کا کٹھ پتلی کردار بنا دیا جائے تو وہاں حق و صداقت کے رسیا قربان تو ہوں گے،صداقتوں کے امینوں کی سوچ پر پہرے جب ناکام ہوں گے تو اظہار کی طاقت کو روکنے کا ریاستی انداز اپنے پیدا کردہ ضمیر فروشوں کو تیغ و تفن دے کر بے مہار تو کرے گا،پھر یہ ریاستی انسان کُش ہرکارے سماج میں حق اور سچ کا قتل عام نہیں تو اور کیا کریں گے؟
آپ یقین رکھیے کہ یہ کسی قرون وسطی کے جاہلانہ یا انسانی بے توقیر سماج کا نقشہ ہر گز نہیں۔۔۔بلکہ۔۔۔یہ دور جاھلیت میں مست و مگن پڑے پاکستانی سماج کا وہ حقیقی چہرہ ہے جو کروڑوں عوام کے لیے بے وطن بنا دیا گیا ہے،اب یہ سوچنے سمجھنے اور سیاسی دانش کے ان چند قلم کار صحافیوں کا ہی نوحہ رہ گیا ہے جن پر کبھی ریاستی رٹ کو “پیمرا”نام پر دھمکایا جاتا ہے تو کبھی چند کو نا معلوم کا خوف دلا کر ان کے اظہار پر جبر تھونپا جاتا ہے،کبھی کسی صحافی کو سچ بولنے پر دریا برد کیا جاتا ہے تو کبھی سچ کی عکاسی کرنے والے صحافی کو قبائلی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھا کر راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔
اور جب کبھی قلم اور صحافت کے دھنی سچ کہنے سے نہیں چوکتے تو ریاستی جبر خوف کے پیغام واسطے حامد میر کو زخمی، مطیع اللہ جان کو اغوا اور اسی سچ کے قبیل کے ابصار عالم کو نا معلوم سے زخمی کروا کر سماج کے سچ اور صحافی کی ہمت کو کمزور کرنے کا مکروہ عمل کر کے دراصل اپنے گھناؤنے کردار پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتا ہے،اور ریاستی ادارے الزام کی صفائی میں یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ ابصار عالم کے حملے سے ہمارا تعلق نہیں،اگر ہمیں حملہ کرانا ہوتا تو ہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے راستہ صاف کر لیتے۔
عالمی اداے آئی ایف جے،رپورٹر کراس بارڈر،آئی پی آئی، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ کون نہیں جانتا کہ دی نیوز کے صحافی احمد نورانی کو دن کے اجالے میں نا معلوم ہرکاروں نے گولیاں ماریں اور احمد نورانی پر قاتلانہ حملے کے ذریعے ملکی صحافت کو زبان بندی کا پیغام دیا،اور پھر احمد نورانی کو اپنی زندگی بچانے کے لیے نہ چاہتے ہوئے “بے وطن” ہونے کے عذاب سے گذرنا پڑا، نہ صرف یہ بلکہ جب احمد نے اپنے قلم کی سچائی سے “پاپا جونز”کی ہوش ربا آمدنی کو عوام کے سامنے رکھا تو احمد نورانی کو ریاستی بیانیے نے ملک دشمن گردانا اور عوام کی نظروں میں اس کے اظہا اور قلم کو بے توقیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ جس کا دفاع صحافتی تنظیموں سمیت حق و سچ کے پرستاروں نے کیا۔
عجب تماشا ہے کہ اظہار کی آواز کے مخالف عجیب سی ریاست بنانے کی کوششوں میں جبر اور قہر کے اضافے کی ایسی بھونڈی کارروائیاں کر رہے ہیں کہ بیرونی دنیا میں ہمارے قلم کا سچ دریدہ ہو کر ہمیں اپنے قلم کےسچ پر ڈٹ کر کھڑے ہو جانے میں بھی دن بدن بیرون ملک رسوا اور کمزور کر رہا ہے۔
اب سوچیے کہ خواتین کی حرمت کا بگل بجانے والی ڈھونگ ریاست خاتون صحافی عائشہ صدیقہ، گل بخاری، عاصمہ شیرازی، منیزے جہانگیر، اور خواتین حقوق کی جنگ میں خواتین صحافیوں کےاظہار کرنے پر انہیں فتووں اور نا شائستہ القابات سے نواز رہی ہیں یا ملک دشمن اور بے شرم ایسے جملے ان کی ذات کے ساتھ منبر و محراب سے چسپاں کروانے کا کام ریاستی چھتر چھایہ میں کیا جا رہا ہے، تو کیا یہ کسی ریاست کو شوبھا دیتا ہے؟
اب تو اس ریاست میں خواتین کو ہراساں کرنے کے دفتروں کی جگہ ان فتویٰ سازوں نے لے لی ہے جو اپنی مذھبی فیکٹریوں سے تقوے کی جگہ صرف فتوے بنا رہے ہیں جبکہ محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے نظام میں ان گمراہ کن فتاوی کی پیدائش و افزائش روکنے کا نہ کوئی قانون ہے اور نہ گرفت۔
جب انسان کے اظہار کی زبان پر فتووں کی بندوقیں تان دی جائیں،سماج میں سچ کی پیدائش کا عمل اسقاط کر دیا جائے،قلم کو ریاستی مدح سرائی کے لیے استعمال کرنے کا پابند کر دیا جائے تو ریاست کی ترقی اور سلامتی معکوس نہ ہوگی تو کیا ہو گی؟
جس ریاست میں قلم کو ذریعہ معاش بنانے والے صحافیوں کو جب چاہے قتل کیا جانے لگے اور ریاست عوام کو تحقیقات کے گورکھ دھندے میں الجھائے رکھے تو اس دیس کے قلم دھنی صحافیوں کے تحفظ کے ریاستی وعدے صرف خواب اور جھوٹ کے علاوہ کیا ہو سکتے ہیں، جہاں صحافیوں کے تحفظ کا بل قانون کی وزارت داب کر بیٹھ جائے اور بل کو نہ لانے کی کوئی معقول دلیل بھی نہ دے پائے تو پھر قلم کی سچائی کو لہو لہان تو ہونا ہی ہے،سو صحافی اظہار اور قلم کی سچائی تھامے مسلسل نا معلوم قاتلوں کا نشانہ بن کر مارے جا رہے یا ابصار عالم کی طرح زخم چاٹ رہے ہیں اور ریاست کی تمام تر توانائی اظہار کی آزادی کے لئے مارے یا زخمی ہونے والے صحافیوں کی خبریں رکوانے پر صرف ہو رہی ہے۔
سچ اور اظہار کے گلے کو گھونٹنے پر نامعلوم ہرکارے چابکدست کر دیے گئے ہیں جو نیوز روم کی شہہ رگ پر بھاری بوٹ رکھے بے پرواہ دندنا رہے ہیں۔
عالمی سروے آئی ایف جے اور آئی پی آئی کے مطابق 2020 میں ریاست کی رٹ کے ہوتے ہوئے پاکستان میں سال بھر میں 12صحافیوں کا نا معلوم قتل ہو چکا ہے، جبکہ امسال کے چار ماہ میں ملک بھر کے 8 صحافی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مگر ریاستی یقین دہانیوں کے باوجود کوئی قاتل نہ گرفتار ہوا اور نہ ہی کسی صحافی کے قتل پر پیش رفت سے عوام کو آگاہ کیا گیا۔
اظہار کی آزادی کو پاکستان میں بار بار قتل اور زخم کی سولی پر چڑھایا جاتا ہے مگر نا معلوم قاتلوں کو ریاست اب تک پا بہ زنجیر نہ کر سکی ہے۔
قلم کے سچ اور صحافی کی جان کی قیمت ہی کیا، یہاں تو صحافیوں کے معاشی قتل کی ایک ایسی رسم چلا دی گئی ہے کہ گویا صحافت کرنے میں معاشی قتل یا اغوا لازم و ملزوم بنا دیا جائے،صحافتی اداروں میں تنخواہوں کی کٹوتی تو کجا،صحافی کو اس تنخواہ سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ہر ماہ اسے ملنی ہے،اس عمل سے ریاست کی پشت پناہی میں دندناتے مالکان، ادارے میں کام کرنے والےصحافی میں عدم استحکام اور شخصی کمزوری کا وہ انجکشن لگانے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں جس سے صحافی کو خوف زدہ رکھ کر اس سے صرف ریاستی بیانیے کی بانسری بجوائی جائے،جب اس صورت حال پر ایک قلم کے دھنی کو لا کھڑا کیا جائے گا، تو سماج میں قلم اور صحافت کی بے توقیری ہی لازمی حصہ بنے گی اور سماج قلم کی سچائی سے زیادہ صرف فتووں کے مطیع ہوں گے یا پھر ریاست کے اردلی اور آخری نتیجے میں مقدس صحافت ایسے افراد کے حوالے کر دی جائے گی جو کھاؤ اور کماؤ کے فلسفے پر چل کر صحافت، اظہار رائے اور انسانی آزادی کو دریدہ کریں گے۔
صحافت میں ریاست کی مرضی کا یہ چلن اب عام ہوتا جا رہا ہے، جس سے سنجیدہ صحافت کے افراد نہ صرف رنجیدہ ہیں بلکہ وہ اس مقدس پیشے میں دھندوڑی گھس بیٹھیوں کے سامنے مزاحمتی کردار ادا کرنے پر قتل بھی ہو رہے ہیں تو اغوا بھی، یہ قلم کی سچائی کے دھنی واک کرتے ہوئے نا معلوم کی گولیوں کا نشانہ بن کر کبھی ابصار عالم کے روپ میں لہو لہان ہوتے ہیں تو کبھی سکھر کے لالوانی کی موت کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور کبھی کوئٹہ کے واحد رئیسانی کی زندگی کا چراغ بجھاتے ہیں۔
بہادرانہ مقابلے کے ابصار عالم سے پہچانے جانے والے والوں کی قاتلانہ حملے کی خبر پر ملکی اور عامی صحافتی تنظیمیں صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں تو ریاست کے نا معلوم دوسرے روز صحافی کے زخمی ہونے کی خبر پر بیٹھ جاتے ہیں اور ریاست کے حاکم نا معلوم کی کار کردگی پر نیرو کی بانسری بجا کر دوبارہ کسی نئے قہر و جبر کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔اس وقت وہ بھلا بیٹھتے ہیں کہ صداقتوں کے امینوں کے یہ راہرو شاھ لطیف کی جرات، امن پروری کے وہ پرستار ہیں جو آزادی کے حصول میں اپنی جانوں کی پرواہ بھی نہیں کرتے اور یہ کہتے ہوئے ہوئے مقتل کی طرف بڑھتے ہیں کہ
جو سولی ہی کو اپنی سیج سمجھیں۔
کیوں وہ مرنے سے آخر جی چرائیں
شاہ لطیف