معصوم کلی زینب اور اُس جیسی مسلی جانے والی بے شمار کلیاں
از، ناہید ورک
اخلاقی برائیاں اور خرابیاں
قصور میں مسلی جانے والی، زینب سمیت، بارہ ننھی بچیوں کی کہانی ایسی دل خراش ہے کہ میری ذہنی کیفیت مکمل طور پر منجمند ہو چکی ہے۔ میرے آنسو ہر تھوڑے وقفے کے بعد اپنے سارے بند توڑ کر بہنے لگتے ہیں۔
میں اُن تمام معصوم کلیوں کے والدین کو روتے بلکتے ہوئے دیکھ رہی ہوں
جو درندوں کی ہوس کا نشانہ بنیں،
جن کی زندگیوں کو سیہ تاریک اندھیرے نے نگل لیا
اپنے سینوں میں ان زخموں کے گھاؤ لپیٹے یہ والدین اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کے انصاف کے لیے ایک سال سے تڑپ رہے ہیں
مگر اُن کے قفل لگے وجود میں زندگی کا کوئی احساس جاگتا نظر نہیں آتا
اُن کا دل صرف مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے گلے ملتا ہے۔
4 جنوری 2018 کو قصور میں سات سالہ ننھی معصوم زینب انصاری کے جنسی تشدّد کے واقعہ نے نا صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی ایک کہرام برپا کر دیا ہے۔ جسے ایک درندے نے اغوا کر کے کئی دنوں تک جنسی ہوس اور تشدّد کا نشانہ بنانے کے بعد بڑی بے رحمی سے قتل کر کے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔
یہ ننھی معصوم کلی ابھی موسموں کی نرمی و سختی جھیلنے کے قابل بھی نہ ہوئی تھی،
ابھی وہ یہ سیکھنے کے عمل میں تھی کہ کون سی نظر کس زاویے سے اس کے بدن کے پار اترے تو اس کی ساری حسیں بیدار ہو جانی چاہیے،
ابھی وہ یہ سمجھنے کے عمل میں تھی کہ حوّا کے بدن سے نمو پانے والا درندہ صفت بشر جب اُس کے پھول جیسے جسم کو غلیظ گناہگار آنکھیں گاڑ کر دیکھے
تو اُس کا ردّ عمل کیا ہونا چاہیے اور اُسے اپنے بچاؤ کی کیا تدابیر کرنی چاہئیں۔
ابھی اسے اس بات کی بھی آگاہی نہیں تھی کہ
اُس کے ننھے پھول جیسے معصوم جسم کا وہ کون سا ایسا حصہ تھا
جو اس گدھ کی نظروں میں چبھ رہا تھا
اور وہ اپنی ہوس مٹانے کے لیے اس کلی کو بھنبھوڑنے کی تیاری کر رہا تھا۔
اس معصوم صورت بچی کی روشن مسکراتی نیلی آنکھوں اور چاند کی طرح چمکتی پیشانی والی تصویر دیکھ کر کون سی ایسی آنکھ ہے جو اشکبار نہیں،
کون سا ایسا زندہ دل ہے
جس نے اس وحشی درندے کی سرِ عام پھانسی کا مطالبہ نہیں کیا۔
اس سوچ نے میرے اعصاب شل کر دیے ہیں کہ
اس درندے نے کس طرح ننھی زینب کو اپنے ساتھ جانے پر آمادہ کیا ہو گا
کہ وہ معصوم کلی اس درندے پر اعتبار کرتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑی۔
اے کاش، اے کاش، میرے مالک تُو نے کوئی فرشتہ صفت انسان بھیج دیا ہوتا جو زینب کو اُس کے ہاتھ سے چھڑا کر اُس کے گھر تک پہنچا دیتا
اے کاش، میرے مالک تُو نے اُس درندہ صفت وحشی پاگل کو اُسی وقت جہنم رسید کر دیا ہوتا
اے کاش، میرے مالک وہ ننھی معصوم کلی اپنی بہاریں دیکھ لیتی
اور اپنی آئی بھگت لیتی تو آج تیری رضا سمجھتے ہُوئے سب کو صبر آ جاتا
میرے مالک تیری مصلحتیں تو تُو ہی جانے مگر کیوں، آخر کیوں؟
گلاب جلائے اور کانٹے اُگائے جا رہے ہیں؟
میرے ربّا، میرے ربّا
گدھ سے بد تر لوگ ہیں ربّا
سینے ان کے روگ ہیں ربّا
کوڑھ پڑی ہیں آنکھیں ان کی
گندی بدبو سانسیں ان کی
دل کے کھوٹے لوگ ہیں ربّا
سینے ان کے روگ ہیں ربّا
تیری عزتاں کسے ناں رکھیاں
میری چیخاں کسے ناں سُنیاں
اکھیّوں انّے لوگ ہیں ربّا
سینے ان کے روگ ہیں ربّا
تیرے جگ دے شاہ تے، لعنت
عزتاں دے رکھوالے؟ لعنت!
سب ابلیسی لوگ ہیں ربّا
سینے ان کے روگ ہیں ربّا
ایسے درندوں کی نفسیات کے بارے میں سوچتے ہوئے، جنہوں نے زینب سمیت، بارہ بچیوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا، یہ بات میرے ذہن میں گردش کرنے لگی کہ ان گدھ صفت انسانوں کو کون سی ایسی اشہا آمیز خوراک کھانے کو ملتی ہے کہ وہ اپنی اشتہا مٹانے کے لیے جانور سے بھی بد تر ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابلیسی پن پر اُتر آتے ہیں اور اُن کی آںکھوں پر ایسے دبیز پردے پڑ جاتے ہیں کہ انہیں اچھے بُرے اور چھوٹے بڑے کی پہچان تک نہیں رہتی۔
یہ اخلاقی برائیاں اور خرابیاں معاشرے میں کب اور کیسے جنم لیتی ہیں۔
ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کھانے کی چیزیں جسمانی اور اخلاقی بگاڑ کا قوی ترین سبب ہیں۔ انسان جو غذا کھاتا ہے اُس کے ویسے ہی اثرات اس پر ہوتے ہیں۔ طبی ضرب المثل ہے کہ انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ کھاتا ہے۔
You are what you eat
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (سورة البقرة، آية 168)
اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے (سورة البقرة، آية 173)
سؤر اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ گندگی و غلاظت میں ساری زندگی گذارتا ہے اور اسے غلاظت سے کراہت نہیں ہوتی۔ اسکا گوشت کھانے والے کے اندر بھی یہی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ سؤر جنسی شہوت کا رسیا ہوتا ہے۔ اس کا گوشت کھانے سے جنسی اشتہا تیزی سے بڑھتی ہے اور انسان حرام حلال کی تمیز کیے بغیر اس جذبے کی تسکین چاہتا ہے۔
سؤر انتہا درجے کا بے غیرت جانور ہے۔ جنسی تسکین کے لیے نر و مادہ کوئی تمیز نہیں رکھتے۔ اسے کھانے والے مغربی معاشرے میں یہ خصوصیت بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
آج پاکستانی قوم، جس کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، جس زبوں حالی اور پستی کا شکار ہو چکی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اُن کے جسم حرام کھانے پینے کے عادی ہو چُکے ہیں۔
بہت زیادہ دور ماضی میں نہیں، بس یہی دو، تین برس پیچھے کی جانب چلتے ہیں۔
2015 کی بات ہے جب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ایک سینئیر افسر نے اپنا نام صیغئہ راز میں رکھنے کی شرط پر یہ بات بتائی تھی کہ انہیں قابل اعتماد ذرائع سے یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ایک منظم گروہ حرام گوشت (سؤر) مارکیٹ میں سپلائی کر رہا ہے۔ اور یہ خبر بھی خاصی سرگرم رہی کہ پچھلے کچھ عرصے سے پنجاب کے مختلف شہروں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعض ایسے لوگ بھی پکڑے ہیں، جو مارکیٹ میں مردہ جانوروں، گدھوں، کتوں اور گھوڑوں کا گوشت سپلائی کر رہے تھے۔
ایک اور دلچسپ اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی خبر میری نظر سے گزری۔ ایک کھوکھے پر کام کرنے والے ملازم نے بتایا کہ سؤر کا گوشت تو لوگ کھاتے ہی رہتے ہیں مگر جس کھوکھے پر میں کام کرتا تھا اُس کا مالک کافی عرصے تک لوگوں کو بڑی چھپکلی کا گوشت کھلا رہا تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اُس مالک نے بتایا کہ میں نے مولوی صاحب سے پوچھا تھا اور انہوں نے کہا کہ یہ چھپکلی کا گوشت حلال ہے۔
کیا مزید یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ کھاتا ہے۔
You are what you eat
چھت ٹپکنے پر اُس کے نیچے برتن رکھ دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب تک اُس کا روٹ کاز معلوم کر کے اُسے فکس نہ کر دیا جائے یہ چھت ٹپکتی رہے گی۔ اس کے پراپر حل کے لیے اس کی وجہ جاننا ضروری ہے۔ بچوں کی حفاظت کے لیے نصابی تبدیلیاں کرنے کی جو باتیں جڑ پکڑ رہی ہیں وہ از حد ضروری ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ پیارا وطن پاکستان ایک مقتل گاہ بن چُکا ہے
جہاں نہ تو کسی غریب کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی غریب کو انصاف ملتا ہے
وہاں کے حسّاس اداروں کے اعلیٰ افسران اپنے شہریوں کو تحفّظ فراہم کرنے کی بجائے اُن کی جانوں کے درپے ہیں۔ وہاں انسانی جان کی قیمت کسی کتے یا بلی کے بچے کے برابر شمار کی جاتی ہے۔
حکمران مُلک نہیں چلا رہے بلکہ وہ تو پوری قوم کے ساتھ ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جہاں
ہم یہ نہیں ہونے دیں گے، ہم وہ نہیں ہونے دیں گے
ہم اِس کے خلاف سخت ایکشن لیں گے، ہم اُس کے خلاف یہ کر دیں گے،
ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے
ملزم جلد پکڑیں جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ جو “گے” کا لفظ ہے یہ آج تک پورا ہوتا نظر نہیں آیا۔ اگر پہلی متاثرہ بچی کے بعد اداروں نے اپنا فرض نبھایا ہوتا تو آج بارہ معصوم کلیوں کو مسلنے کی کسی درندے کی ہمت نہ ہوتی اور اُن کے بے کس و مجبور والدین زار و قطار رو نہ رہے ہوتے۔
اس کا قصور وار کس کو ٹھہرایا جائے؟
کس کے دامن پر معصوم کلیوں کا خون تلاش کیا جائے؟
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں، اُٹھ قبراں وچوں بول
تےاَج کتابِ عشق دا کوئ اگلا ورقا پھول
اِک روئی سی دِھی پنجاب دی، تُوں لَکھ لَکھ مارے وَیہن
اَج لکّھاں دِھیّاں روندیاں تینوں وارث شاہ نُوں کیہن
سُن دردمنداں دے دَردیّا، اُٹھ تَک اپنا پنجاب
اَج بیلےلاشاں وِچّھیاں تے لَہو دی بھری چناب