انسان، آزادی اور غلامی
اطہر مسعود وانی
کہنے کو دنیا میں غلامی کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے لیکن عملی طور پر غلامی کے قدیم تصورات کے علاوہ غلامی کو قائم رکھنے، وسعت دینے کے جدید طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، جہاں انسانوں کو نئے ماحول کے مطابق نئی شرائط اور کئی رعایتوں کے ساتھ انوکھے انداز میں بھی غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔ طاقتور ملک طاقت کی بنیاد پر اپنی حاکمیت چلاتے ہیں، کمزور ملکوں کے طاقت ور لوگ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر جابرانہ،ظالمانہ احکامات نافذ رکھتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ جب انسانی طاقت نے انسانوں کے حقوق کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہو۔ جدید دور میں انسانوں کی انفرادی، خاندان، ملک، خطے اور عالمی آزادی کو مذہب، فرقے، نسل، علاقے اور مادی مفادات کے نام پر مغلوب کرتے ہوئے انسانی حرمت اور انسان کے حق آزادی کے تصورات کو بری طرح نقصان پہنچایا گیاہے۔
دنیا میں طاقت کا قانون ہے، جو انسانی تاریخ میں انسانی حرمت کے لے بہت ہی کم حرکت میں آتا نظر آتا ہے۔اقتصادی،نسلی،طبقاتی اور علاقائی مفادات کے لے طاقت کا ہر حربہ آزمانہ ہی اس دنیا کی حقیقت ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو تا ہے کہ کئی مذاہب،انسانی ترقی کے کئی منصوبوں،تصورات اور آ ج کے جدید دور میں علم و شعورکی پر فخر شاندار ترقی کے باوجود حضرت انسان ، مختلف خطوں میں رہنے والے لوگ، بدستور وحشی،جنونی اور ظالم کیوں ہیں؟ انسانی معیارات دنیا کے مختلف براعظموں کے لے مختلف کیوں ہیں؟انسان انسان پر برتر کیوں ہے؟ طاقت و اختیار والا معزز اور مقدس کیوں ہے؟ عام انسان مصائب،ظلم ،زیادتی ، کمتر زندگی کا سزایاب کیوں ہے؟
شہری اور انسانی آزادی کے تصورات صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن شہریوں کی مساوی آزادی کی عملی شکل دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی دیکھنے میں آ سکی۔اس سے پہلے مذہب،بادشاہتوں،امراء ،طاقتور طبقات کے حوالے سے انسانی حرمت کی پامالی کو قطعی برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔تعلیم اور شعور کے عام ہونے کے ساتھ ہی اقتصادی اور سماجی طور پر مضبوط معاشروں میں مساوی شہری آزادی اور حکومت سازی میں شہریوں کی بالادستی اور شہری مفاد کو اہمیت دی جانے لگی۔خصوصا دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ملکوں میں شہریوں کی آزادی،حکومت سازی میں شہریوں کی رائے کو اولیت حاصل ہوئی۔اس کے ساتھ ہی انسانی حرمت کا عالمی تصور بھی سامنے آنے لگا۔تاہم یہ صورتحال چند عشرے ہی جاری رہ سکی۔طبقاتی،نسلی اور ملکی مفادات شہری آزادیوں اور انسانی حرمت کے تصورات کو غیر ضروری ثابت کرنے لگے اور اب دنیا کو اس کی بد ترین صورتحال درپیش ہے۔
مسلمانوں کا تصور انسانی مساوات ہو یا برٹش کا میگنا کارٹا(گریٹ چارٹر) انگلینڈ کے کنگ جان ،آرچ بشپ آف کینٹربیری اور باغی عوام کے درمیان امن معاہدے کے طور پر جو چرچ کے اختیارات کی حفاظت، عوام کے اختیار ات و حقوق اور بادشاہ پر مختلف پابندیوں کی شقوں پر مبنی تھا ( برٹش آج بھی اس کی تعظیم کرتے ہیں)، امریکہ کے مجموعی تصور، آزادی، انسانی حقوق، سیلف گورنینس، تعلیم اور دانشوارانہ خیالات کی ترویج پر مبنی 4جولائی ،1776 کا امریکی کانگریس کا منظور کردہ اعلان آزادی ہو یا اقوام متحدہ کا تمام خطوں کے رکن ممالک کی طرف سے ملکر تیار کردہ ،10 دسمبر1948ء کو منظور شدہ انسانی حقوق کا30آرٹیکلز پر مبنی عالمی ڈیکلریشن ،یہ سب مل کر بھی دنیا میں انسانی حرمت اور انسانی آزادیوں کی ترویج تو دور ،اس کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام قرار پاتے ہیں۔
دیکھا جائے تو معلوم انسانی تاریخ کے وقت سے انسانوں سے زبردستی کام کرانے، غلام بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ غلامی کی تاریخ اتنی قدیم اور مضبوط ہے کہ انسانی فلاح و بہبود پر مبنی بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے بھی اس کو قبول و تسلیم کیا ہے۔ یہودیت میں غلامی کو جائز قرار دیتے ہوئے اس سے متعلق مذہبی قوانین بھی موجود ہیں۔ اسی وجہ سے یہودی تاریخی طور پر بھی غلاموں کی تجارت میں گہرے طور پر ملوث رہے ہیں۔ یہودیت میں تمام غلاموں کے لیے یکساں قواعد ہیں تاہم بعض استثنا ہیں جہاں عبرانی غلاموں کو غیر عبرانی غلاموں سے الگ کیا جاتا ہے۔
جدید دور میں غلامی کے خلاف دلائل پر یہودیوں کی طرف سے غلامی کی حمایت میں مذہبی احکامات کے حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ عیسائیت کے ابتدائی سالوں میں موجود رومن سلطنت میں،رومن رسم و رواجات میں بھی عرصہ قدیم سے غلامی کا نظام مضبوطی سے قائم تھا۔ عیسائیت میں غلامی کو سماجی ماحول کے مطابق تسلیم و قبول کیا گیا ہے۔ 18ویں اور 19ویں صدی میں، اور امریکہ میں غلامی سے متعلق ہونے والے مباحثوں میں عیسائیت کے حوالے سے غلامی کے حق میں اور مخالفت میں بھی مذہبی حوالے دیے جاتے رہے۔ جدید دور میں عیسائی ادارے غلامی کی اجازت نہیں دیتے۔
معلوم یہی ہوتا ہے کہ اسلام میں بھی عیسائیت کی طرح رواج زمانہ کے تحت غلامی کو قبول کیا گیا۔ اسلامی تعلیمات کی روح کو دیکھتے ہوئے اور یہ بھی کہ ابتداء میں اسلام لانے والوں کی زیادہ تعداد غلام ہی تھی۔ غلامی کی اجازت کے باوجود اسلام کے ابتدائی دنوں سے ہی غلام کو آزاد کرنے کو مذہبی طور پر ایک بہت اچھا اقدام کہا گیا۔ 632ء میں حضرت محمد ﷺ نے حج کے موقع پر اپنے تاریخی خطبے میں غلاموں کے حوالے سے کہا کہ ”اپنے غلاموں کا خیال رکھو،ہاں غلاموں کا خیال رکھو،انہیں وہی کھلائو جو خود کھاتے ہو ،انہیں وہی پہنائو جیسا تم پہنتے ہو”۔ حضرت محمد ﷺ نے اس خطبے میں انسانی حرمت اور انسانی آزادی کے بارے میں بھی تاکید کی۔
حضرت محمد ﷺ نے اس موقع پر کہا ” لوگو، میری بات سنو،میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم کسی مجلس میں اس طرح یکجاء ہو سکیں گے۔ اللہ کا ارشاد کہ انسانو، ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو،تم میں زیادہ عزت اور کرامت والا اللہ کی نظر میں وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے اور نہ ہی عربی کو عجمی پر،نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے۔ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقوی ہے۔سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے ہیں”۔