انسان اور سماج : آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
(محمد ریحان) ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ
انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان رہے۔ انسان کے اندر انسانی خصائص اور خصلتیں سماج کے اندر رہ کر ہی پیدا ہوتی ہیں۔ تقریبا تمام ماہرین سماجیات کا ماننا ہے کہ انسان اور سماج کے بیچ ایک گہرا رشتہ ہے۔
انسان سماج کے بغیر نا مکمل ہے۔ اس کی شخصیت کی تعمیر لوگوں کے درمیان رہ کر ہی ہوتی ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سماج اور معاشرہ میں رہ کر پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح سماج کے وجود کے لئے انسان کا ہونا ضروری ہے۔ سماج کا تصور جانور، چرندوپرند، درخت ،پیڑ پودے اور ندی نالے کی موجودگی سے نہیں بنتا۔ انسانی جماعت ہی ایک سماج کی تشکیل کرتی ہے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ انسان پہلے ہے یا سماج.لیکن جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی اسے ہم ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان سماج کا پروڈکٹ ہے اور سماج کا تصور انسانی جماعت سے قائم ہوتا ہے۔ پروفیسر پارک نے بڑی اچھی بات لکھی ہے:
Man is not born human but to be made human
یعنی آدمی انسان پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے بنایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدمی یوں ہی انسان نہیں بن جاتا ہے۔ ایک آدمی کو انسان ہمارے سماج اور معاشرے میں پہلے سے موجود انسان اور ان کے عادات اطوار بناتے ہیں۔ ایک آدمی کے پیدا ہونے سے لے کر انسان بننے تک کا سفر آسان نہیں ہو۔ ا.غالب نے اس خیال کو اپنے ایک شعر میں ایسے پیش کیا ہے.
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انسان کو انسانی خصوصیات کا حامل ہونے کے لئے سماج میں سماجی اصولوں کے ماتحت رہنا ضروری ہے۔ سماج اور معاشرہ میں رہ کر ہی ایک انسان شعور حاصل کرتا ہے۔ ذہنی پختگی انسانوں کے درمیان رہ کر ہی ممکن ہے۔ انسان بننا ایک مکمل عمل ہے۔ یہ عمل ایک یا دو دن میں ختم نہیں ہوتا۔
انسان بننے کا سلسلہ آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ کئی بار کی تحقیق اور تجربے کے بعد یہ بات کہی گئی کہ ایک انسان کے اندر انسانی خصوصیات اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی ہیں جب تک وہ سماج میں انسانوں کے درمیان نہ رہے۔
تنہائی اور علیحدگی میں رہ کر کوئی بھی شخص ایک نارمل انسان نہیں ہو سکتا۔ کاسپر ہاؤسر (Kasper Houser) ایک جرمن بچہ تھا۔ اسے بچپن میں ہی نوریمبرگ جنگل میں رکھ دیا گیا۔ جب وہ سترہ سال کا ہوگیا تو اسے 1928 میں انسانوں کے درمیان لا یا گیا۔ اس وقت وہ نہ ٹھیک سے بول پا رہا تھا اور نہ صحیح سے چل پا رہا تھا۔ اس کے اندر زندہ اور مردہ چیزوں کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت بھی نہیں تھی۔ اس کے مرنے کے بعد جب اس کے دماغ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو یہ نتیجہ نکل کر سامنے آیا کہ اس کی دماغی بالیدگی میں کمی رہ گئی تھی اور یہ کمی اسے مناسب تعلیم دینے پر بھی دور نہیں ہو سکتی تھی۔
اس طرح کے کئی تجربے کیے گئے ہیں اور سب میں یہی چیز سامنے آئی کہ انسان سماج سے دور رہ کر مکمل انسان نہیں ہو سکتا۔ سماج انسان کی ذہنی اور شخصی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے، یعنی ہم سماج یا یہ کہیں کہ انسانوں کی جماعت سے الگ نہیں رہ سکتے۔ ہم انسانوں کی بستی یا سماج سے الگ جنگل میں تنہا زندگی نہیں گذار سکتے۔ سماج میں رہنا ہماری مجبوری ہے۔ انسانوں کے بیچ زندگی بسر کرنا ہماری فطرت کا تقاضا ہے۔
فطرت کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف کئے گئے ہر عمل کا مقدر ہے کہ وہ نامکمل اور ادھورا رہے۔ انسان سماج سے الگ رہ کر مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اب سماج اور معاشرے میں رہنے کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں۔ ان اصولوں کی پیروی سے ہی آدمی انسان کے زمرے میں شمار ہو سکتا ہے۔ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ضابطے اور اصول کی پابندی سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اب یہ ضابطے کیا ہیں۔
کن اصولوں پر چل کر ہم انسان اور بہتر معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں اسلام نے سب سے اہم اور موثر لائحۂ عمل تیار کیا ہے۔ سماج اور معاشرے میں کیسے رہنا ہے اس کی سب سے بہترین مثال ہمارے رسول ﷺ نے پیش کی ہے۔ قران اور حدیث میں موجود نصوص ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔ اگر ہم صرف رسول ﷺ کی زندگی کی ہی پیروی کر لیں تو ہم اپنے رہنے کے لیے ایک کامیاب اور پر امن معاشرہ تشکیل کر سکتے ہیں۔
ہمارے رسول ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمیں بڑوں سے کیسے بات کرنا ہے؛ چھوٹوں سے کیسے پیش آنا ہے؛ پڑوسیوں کے کیا حقوق ہیں؛ زمین پر کیسے چلنا ہے، یعنی زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ موجود ہے۔
ملاحظہ کیجیے: کیا ہم سب صرف اور صرف سماجی گناہ گار ہی ہیں؟
دیگر مذاہب میں بھی زندگی گزارنے کے طریقے ایسے نہیں کہ انہیں ہم سرے سے خارج کر دیں۔ مذہبی کتابوں کے علاوہ ماہرین سماجیات اور فلسفیوں کے نظریے بھی ہیں جو سماج اور انسان کی نفسیات کو سامنے رکھ پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی بھی اہمیت و افادیت سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں انسان کا سماج اور انسانوں کے بیچ رہنا فطرت کا تقاضا ہے وہیں انسانوں کے درمیان اختلافات کا پایا جانا بھی عین نظام فطرت ہے۔
ہم اختلافات ختم نہیں کر سکتے۔ باپ بیٹے میں اختلاف ہوتا ہے۔ دو سگے بھائی ایک مسئلے پر متفق نہیں ہوتے۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے الگ نظریہ رکھتے ہیں۔ ایک سماج میں سب ایک ہی ذہن کے لوگ نہیں ہوتے۔ مختلف سوچ و فکر اور مختلف ایمان و عقیدہ کے انسان ایک معاشرہ میں سانس لیتے ہیں۔ اس لئے ان کے درمیان اختلافات کا پایا جانا لازمی ہے۔ یہ کوئی گناہ بھی نہیں۔
اختلاف کے ساتھ جینے میں ہی ہمارا امتحان ہوتا ہے۔ ہمیں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اختلاف کے ہوتے ہوئے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اختلاف کے ہوتے ہوئے ہم ٹکراؤ اور تصادم سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ تصادم سے بالکل بچا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے کوئی بہت بڑی حکت عملی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہمیں کرنا صرف یہ ہے کہ ہم اختلاف کی حقیقت کو قبول کر لیں۔ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ اختلافات ختم نہیں ہو سکتے۔ یہ ہمیشہ سے ہمارے بیچ تھے اور رہیں گے۔ اختلاف کی سچائی قبول کرنے کے بعد ہمارے دل اور دماغ میں اختلاف سے adjustment کرنے کا جذبہ از خود پیدا ہو جائے گا اور clash سے گریز کرنے لگیں گے۔
adjustment یا موافقت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ہمیں بس یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ سماج میں ہم اکیلے نہیں رہتے۔ ہمارے ساتھ اور بھی کئی لوگ رہتے ہیں۔ سماج میں ہماری حصے داری ایک فی صد ہوتی ہے اور دوسرے کی نناوے فی صد۔ یہی تناسب ہر جگہ ہوتا ہے۔ جب اس زاویے سے ہم سوچنا شروع کردیں گے کہ سماج میں “میں” کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہاں “ہم” کی اہمیت زیادہ ہے۔ یعنی اجتماعیت (collectivity) سماج میں نواس کرتی ہے۔
مولانا وحیدالدین خان نے بہتر سماجی زندگی گزارنے کے یہ اصول بتائے ہیں:
In life “I” works 1 percent and “You” works 99 percent.
یعنی زندگی میں “میں” کا حصہ ایک فی صد ہے، اور “تم” کا حصہ نناوے فی صد۔
اجتماعی زندگی میں اختلاف کے درمیان موافقت قائم کرنے کے لیے شاید اس سے بہتر کوئی اصول نہیں ہو سکا۔ دوسروں سے موافقت بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم دوسروں کو اسپیس دیں۔ اپنے اصول دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے وضع کریں۔ کامیاب سماجی زندگی کا اس سے بہتر اور آسان کوئی فارمولہ نہیں۔
اب اگر ہم اس فارمولے کے مطابق بھی اپنی زندگی نہیں گزار سکتے تو ہم انسان کہلانے کا حق نہیں رکھتے.اگر ہم سماجی نہیں ہو سکتے تو انسان بھی نہیں ہو سکتے۔ شاید اسی پہلو کو سامنے رکھتےہوئے ارسطو نے یہ بات کہی تھی:
Man is by nature a social animal; an individual who is unsocial naturally and not accidentally is either beneath our notice or more than human.
انسان فطری طور پر ایک سماجی جانور ہے۔ اگر کوئی شخص غیر سماجی اوصاف کا حامل فطری طور پر ہے نہ کہ اتفاقی طور پر تو وہ یا تو ایک سطحی آدمی ہے یا پھر انسان ہے ہی نہیں۔ ہم اسے ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو انسان سماجی نہیں ہو سکتا وہ جنگلی ہوتا ہے یا کوئی اور مخلوق۔ ہمیں اپنے موجودہ سماجی ڈھانچے کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے۔
ہم پر سماج میں اپنا اسپیس بنانے کا ایسا جنون سوار ہوا کہ ہم نے سماج کے بنیادی ڈھانچے کو نیست و نابود کر دیا۔ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ سماج کا تصور انسان کے بغیر ممکن نہیں۔ آج افراد کی بھیڑ میں ہی سماج کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ افراد کی ریل پیل ہے مگر سماج نہیں بن پا رہا ہے۔
لوگوں کا ہجوم بھی ہے اور انسان تنہائی کے شدید احساس میں بھی جکڑا ہوا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے خود کو تنہا اور اکھرا اور اکتایا ہوا پاتا ہے۔ لوگ ملتے بھی ہیں تو ایک فاصلہ بنائے رکھتے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہردل میں خوف اور ہر دل میں ڈر ہے۔ اس بات کوئی ٹھکانہ نہیں کہ کون کب جانور بن جائے۔ مجھے اس موقع کی مناسبت سے دو اشعار یاد آ رہے ہیں:
عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
۔۔۔۔۔
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
سماج اور انسان ایک ایسا موضوع ہے جس پر برسوں سے لکھاجا رہا ہے۔ ایک مضمون کی بساط ہی کیا ہے۔ اس پہ جتنا لکھا جائے کم ہے۔ لیکن جتنا بھی لکھا جائے اس کا خلاصہ یہی ہو گا کہ تصادم کے کلچر میں ہم بہتر سماج کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ اگر ہم بہتر سماج نہیں بنا سکتے تو پھر ہم جنگل میں جانوروں کے درمیان خوف میں رہیں یا تصادمی کلچر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
MashaAllah bro aapki tehreer me etni dil kashi wa rawani hoti hai k mukamal mazmoon padhe baghair chain nhi milta, nihayat umda tehreer hai aapki mazeed takhleeq ka intezaar rahega, shukriya