انسان کو دوبارہ اوپر ابھرنا ہے
ڈاکٹر شاہ محمد مری
“سی آر اسلم کا وطن، افغانستان کے ساتھ بچوں کا کھیل کھیلتے بالآخر خود بچوں کے غیض و غضب کا شکار ہو گیا ہے. کھیل کھیل میں 70 ہزار افراد کی جانیں گنوائیں، علاقے برباد ہوئے، آئی ڈی پیز اور rehabilitation جیسے نئے نئے الفاظ اپنے عقب میں دہشت ناک ابواب لیے ہماری ڈکشنریوں میں در آئے. گُڈ اور بیڈ، سیف ہیونز اور ڈو مور جیسے الم غلم آتے گئے. مست و مولائی حکمرانوں کو ہوش اس وقت آیا جب ان کے اپنے بچے شناخت کر کر کے APS میں قتل عام کا شکار ہوئے. خانہ جنگی گلیوں محلوں سے ہوتے ہوئے دفتروں، ایئر بیسوں تک پہنچی.
گوادر کا لفظ بھی سینکڑوں نئی اصطلاحات اور نئے ماتموں کے ساتھ ڈکشنریوں میں شامل ہوا. تیل، گیس، سونا، مرمر، کوئلہ، ساحل، وسائل، سی پیک، کیکڑے، کتے، بلیاں….. آگ اور خون کا کھیل جاری ہے. بربادی ہماری قسمت میں بہت گہری اور موٹی کندہ ہے.
اُدھر ایک اور مظہر سامنے آ گیا. اقتدار، فیوڈل دائیں بازو سے بڑھ کر اب کھلم کھلا دائیں بازو کے پڑھے لکھے مڈل کلاس مِلی ٹینٹ لوگوں کے حوالے ہو چکا ہے. عدالت، جرگہ اور پنچائیت سے باہر باہر ہجوم کی عدالتیں عام ہو چکی ہیں. ایسی عدالتیں اب سولائزیشن سے چھپے ہوئے گوشوں تک محدود نہ رہیں بلکہ اب یہ یونیورسٹیوں تک کھلم کھلا ٹی وی کیمروں کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر منعقد اور برپا ہوتی ہیں.
دوسرا تماشا یہ ہوا کہ فوک کہانی کے عین مطابق پڑوسی افغانستان، وسطی ایشیا کے ممالک اور گوادر کے تربوز پر “چرواہے نے پیشاب کر دیا” نے یوں اب یہ نہ پنجشیریوں، کاشغریوں اور بل نگوئریوں کے کھانے کا رہا اور نہ پنج آبیوں کے لیے سویٹ ڈش رہا.
اُدھر عرب سپرنگ نے پورے مشرق وسطٰی کو اکیسویں صدی والے بھیانک اسلحہ کا جنگجاہ بنا ڈالا اور فرقوی نفرتوں کے دونوں امینوں، سعودی و ایران کو پتہ ہی نہ چلا کہ اُن کے کرایہ دار ممالک قیامتِ صغری میں گِھر گئے بلکہ پورا خطہ اب کیڑے پڑا ایسا مردہ جانور بن گیا ہے جس کی بدبو سے اس کا تباہ کردہ مغرب، خود ناک میں رومال ٹھونس کر بے ناک ہو چکا ہے. سارا مغرب گوگول کا کردار بے” ناک “ہو چکا ہے.
پھر وہاں دیکھیں تو چین اور روس گئے تو تھے انسانی ایجنڈا گندی نالی میں پھینکنے، مگر خود ہی پھسل کر نالی میں گر گئے. اب تو انہیں سڑاند کا نشہ ہو گیا ہے.
چنانچہ آج دنیا وہ نہ رہی جو پہلے تھی اب یہ مارا ماری اِستان بن چکی ہے. انسانی کراہیں سپر پاور کے لیے لوریاں بن چکی ہیں. معاش، معیشت اور معاشرے بحران کے گڑھے کی تہہ میں ہیں، انسانیت ذلت کے پیندے پہ.
مختصر یہ کہ انتہا ہو چکی ہے تنزل کی، گراوٹ کی. اب مزید پستی کی جگہ کوئی نہیں رہ گئی. لہذا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے…. انسان کو دوبارہ اوپر ابھرنا ہے. فزکس کا قانون ہے یہ. مگر اس ابھرنے میں کتنی تباہی مزید ہوگی، کون ناپ سکتا ہے؟ کتنا عرصہ لگے گا کس کے پاس جانچنے کی جنتری ہے. ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ کے جانور بنے انسان نے دوبارہ اشرف بننا ہے. لولاک کی ارفع گلی میں کسی نشئی، کسی بھتہ خور کی گنجائش نہیں.
یہ بھل صفائی تو ہو کر رہے گی. رجعت اور اس کے اڈوں کا کوئی مستقبل نہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی اب سرمایہ دار کی چوکھٹ میں مزید نہیں سما سکتی. اس صفائی کی مزاحمت اور ہل جل کرنے والا دوبار برباد ہو گا.
انتظار ان ساعتوں کا………..!
بشکریہ: سنگت اکیڈمی