انسانیت اور ایدھی ، ایک ہی حرف کے دو معنی ہیں
از، خرم سہیل
عبدالستار ایدھی ایک شخصیت نہیں ، تہذیب تھے، اب جو معدوم ہو چکی۔ انسانیت کا وہ نصاب تھے، جس کو آئندہ نسلیں بھی پڑھتی رہیں گی۔ انہوں نے عہدِ حاضر کی نفسا نفسی میں اپنی زندگی کو معاشرے کے دُکھوں پر نچھاور کر دیا۔ اپنی زندگی کی چادر لا وارث لاشوں کو پہنا دی۔ انسانیت کے زخمی بدن سے بہتے ہوئے لہوکو اپنے خلوص کاپسینہ دے کر روکا۔ لاوارث بچوں میں اپنی وراثت بانٹ دی۔ بے گھر بوڑھوں کی بزرگی ان کو واپس لوٹائی۔ کہیں انسانیت پر زَد پڑی، کہیں سے کسی مظلوم نے پکارا، سب سے پہلے وہ پہنچے۔ انسانیت اور ایدھی ایک ہی لفظ کے دومعنی ہیں۔ ایدھی جو رخصت ہوئے، اب ہم اور ہمارا معاشرہ یتیم ہوگیا۔ انسانیت لاوارث ہوگئی۔ اس وقت یہ عہد ایک سانحہ سے گزر رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں انسانیت کی اس روشنی کوبحال کرنے میں ایدھی صاحب نے اپنی زندگی کی سات دہائیاں وقف کیں۔20برس کی عمر میں زندگی کی پہلی ہجرت جھیلی۔نوعمری میں انسان کے ہاتھوں انسان کو کاٹ پیٹ کرتے دیکھا۔وہ یادیں ان کی روح کوگھائل کرگئیں۔بوڑھی اوربیمارماں سے انسانی ہمدری کاسچاسبق لیا۔اپنے حصے کے فاقے کوبچاکردوسرے کی بھوک مٹانے کے احساس نے ان کو کہیں کانہ رہنے دیا۔راحت،آسودگی اورآرام جیسے لفظوں نے کبھی ان کادرنہ دیکھا۔انہوں نے اپنا دل اوردروازہ انسانیت کے لیے کھول کررکھا،اسی لیے تمام عمراس دروازے پر خلقِ خدا کی بھیڑرہی،یہ تنہاشخص اپنی سخاوت میں بے شمار رہا،مگربھیڑ میں تنہابہت۔۔۔۔۔
انہوں نے انسانیت کی بحالی کے لیے اپنے لہو سے ان چراغوں کی لو برقراررکھی۔ان کے دم سے کئی گھرانوں کے دل آباد ہوئے،کتنی ننھی جانوں کوتحفظ ملا،کتنے بے گوروکفن لاشوں کواحترام نصیب ہوا۔عقیدت کے پھول ساری زندگی ان پر نچھاورہوتے رہے۔اس کے باوجود یہ شخص اندر سے کتنا تنہا تھا۔ہجرت کی،ترک وطن کیا۔والدہ بچھڑی،بیٹی کی شادی ہوئی،اس کی طلاق کاغم سہا،نواسے سے دل لگایا،اس کی صورت میں ا پنابچپن بازیافت کرنے کی سعی کی،مگرزندگی کی آزمائش میں وہ بھی کام آگیا۔
کئی برس پہلے اندرون سندھ میں دوریلوں کے تصادم میں مسافروں کی ایک بڑی تعدادجاں بحق ہوئی،بے شمار مسافرزخمی ہوئے،حسب روایت یہ ان کی مددکوپہنچنے کے لیے سفرمیں تھے،بیچ راستے میں خبرہوئی،ان کی متاع حیات ،ان کانواسہ،ان کاعکس’’بلال‘‘ بھی اس دنیاسے رخصت ہوا۔انسانیت کے اس مسیحانے ترجیح ،جائے حادثہ کودی،نواسے کوپرسادینے بعدمیں پہنچا۔ایک قیامت ریل کے حادثے میں مسافروں پر ٹوٹی،ایک قیامت سے اس مسیحاکادل ڈھہ گیا۔حوادث کے ہاتھو ں تباہ حال متاثرین کو ساری زندگی امداد کاکام جاری رہا،مگرایدھی صاحب کی روح تشنہ اوردل محروم رہا۔اسی لیے وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں۔۔۔
’’جب بھی فراغت کوکوئی لمحہ میسرآتا،میں اپنے میٹھادروالے دفترکے باہرچوراہے کے قریب،سبزمیناروں والی مسجد کے بالمقابل ایک بینچ پر بیٹھ جاتا،جہاں بازارکے شوروغل میں ہرتنہاآواز دب جاتی۔۔۔۔میں چاروں اطراف گلیوں میں سے لوگوں کی پرہجوم آمدورفت دیکھتا،اچانک ٹریفک کے بہاؤں میں سے نکلتاہواکوئی شخص مجھ سے علیک سلیک کرنے کوآجاتا۔۔۔۔۔لیکن ان تمام مناظر سے دورکہیں اپنے نواسے ’’بلال‘‘کی یادوں میں گم رہتا۔بلقیس نے اس کی تصویر میری میز کے شیشے تلے سجادی تھی،میں جب کبھی پریشان ہوایابخارمیں مبتلا۔۔۔۔۔اس نے میرے خوابوں کے دریچوں سے مجھے جھانک کرضروردیکھا،جہاں اس کے معصوم اوربھولے بھالے سوالات اوربڑے بڑے خیالات مجھے اپنے بچپنے کے اس دورکی جانب کھینچ لے جاتے،جب میں سوچتاتھاکہ میں بڑاہوکرکیابنوں گا۔بلال بھی یہی سوچتاتھا۔۔۔۔۔وہ بھی متجسس اورکھلی آنکھوں سے دنیاکودیکھتاتھا۔بلال کے چھوڑے ہوئے ننھے منے بوٹ،مجھے بانٹوامیں اپنے بچپن کی یاددلاتے،لیکن۔۔۔۔۔ زندگی نے اُسے مہلت ہی نہ دی۔۔۔۔۔!‘‘
پوری دنیامیں نجی حیثیت میں چلانے والے رفاعی ادارے کے سربراہ،محسن انسانیت اوردکھی سماج کے مسیحا نے ہم سے رخصت لی۔تقریباً ایک صدی کودیکھنے والے اس مسیحانے کیا کیا نہیں دیکھا،کیاکچھ نہیں پایا،مگرخودکوہرطرح کی توصیف وبرتری سے بے نیازرکھا۔ وہ اپنی تہذیب کے آخری سچے پیروکارتھے، جس کادوسرانام انسانیت ہے۔جون ایلیاکاایک شعرذہن کی غلام گردشوں میں بھٹکتارہاہے،آج اس کی معنویت افشاہوئی ہے کہ
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
شاید وہ ایک ہی شخص تھا جہان میں، جس کو انسانیت کے پیرو کار کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ انسانیت اور ایدھی ایک ہی حرف کے دو معنی ہیں، اسی میں عبدالستار ایدھی کی زندگی کی کہانی خلاصہ ہے، زخمی روح کا بیانیہ بھی اور دست شفقت کے ثمرات بھی۔