ٹی وی ٹاک شوز کی کچھ اندر کی باتیں
عرفانہ یاسر
ایک وقت تھا، اور اس وقت کو گزرے عشرے نہیں ہوئے، جب کوئی نیوز پروگرام جب ٹی وی پر دیکھا جاتا تھا تو آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا تھا۔ آپ کو پاکستان میں ہونے والی تبدیلوں کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔ یوں سمجھئے کہ کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ پتہ چلتا تھا کہ ملک میں کون سے حلقے کیا سوچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پروگرامز کی وجہ سے لوگوں کو پتہ چلا کہ آئین پاکستان کی کون سی شق کیا کہتی ہے۔ ملک میں ایک بحث و مباحثے والی فضا نے ایک نیا جنم لیا۔ وکلاء تحریک اس کی ایک سب سے بڑی مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ ان پروگرامز سے مختلف سیاسی جماعتوں کی کسی معاملے پر رائے کا پتہ چلتا تھا۔ سیاستدان ایک دوسرے کی بات سنتے تھے اور دلائل سے جواب دیتے تھے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں کے منشور کیا کہتے ہیں، وہ اقتدار میں آ کر کیا تبدیلی لائیں گے، ان سب پر سیر حاصل گفتگوئیں ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے، یہ ہمارے ہاں ہوتی رہی ہیں۔
متعلقہ تحریر: پاکستانی میڈیا کا صحافتی معیار
پر وقت زیادہ نہیں گزرا لیکن تبدیلی بہت بڑی آگئی ہے۔ ریٹنگ کے ضرورت سے زیادہ لالچ اور کچھ نئے نئے اینکرز کی بھرمار نے نیوز چینلز اور ان پر چلنے والے شوز کی افادیت ختم کر دی۔ آپ کو کتنی دفعہ حیرانی ہوتی ہے کہ اینکرز کی نئی کھیپ میں سے کئی ایک ایسے ہیں جو اخبار کا مطالعہ تک نہیں کرکے آتے۔ ان میں سے بیشتر کو ملکی آئین کو دیکھنے کا شاید ہی کبھی اتفاق ہوا ہوگا۔ آپ اگر ان سے یہ توقع کر بیٹھیں کہ کانسٹیوشن، عام قانون، کلاز، سیکشن اور بائی لاز میں فرق کر ڈالیں تو یہ آپ کا قصور تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ جانیں اپنی بلا سے۔ بیشتر کا چونکہ نیوز اسٹوڈیو سے پروگرام کے سیٹ تک کا ہی واک اِن اِکسپیریئنس ہے اس لئے ان کا عام خبری سیاق و سباق اور پریس کانفرنسوں وغیرہ کے زمینی حقائق سے فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا قطب شمالی کا قطب جنوبی سے۔ اس سلسلے میں مثالیں تو ذہن میں فوری طور پر آ رہی ہیں لیکن کچھ بھرموں کا خیال ہے۔
مختلف نیوز چینلز کے کرائم شوز نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور کچھ نیوز چینلز نیوز تو نیوز چینلز کم، اور کرائم چینلز زیادہ لگتے ہیں۔ بھارتی چینلوں سے لئے گئے اس آئیڈیا کو اس بے دردی اور پیش کاری کی بد ذوقی سے پامال کیا گیا ہے کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ کچھ چینلز تو اپنی ساری ون نمبریاں انہِیں سستے کرائم شوز کے بل بوتے پر حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اب تو جب بھی ٹی وی لگاؤ کچھ شوز کے علاوہ آپ کو سب ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔
کسی پروگرام میں کوئی ریسرچ نہیں ہے۔ بس دن بھر کی خبریں اٹھائیں، (انہیں پڑھنا اور بریفنگ تیار کرنا بھی پروڈکشن ٹیم ہی کا کام بنتا جارہا ہے۔) تین سے چار لو گ لئے۔ اور شو ہو گیا۔ ڈی ایس این جی نے تو کام اور بھی آسان کر دیا ہے۔ آپ دوسرے شہروں کے مہمانوں کو بھی آرام سے اپنے شو میں شامل کر سکتے ہیں۔
پہلے ٹاک شوز کا ایک فارمیٹ ہوتا تھا اور ہر اینکر کو ایک خاص طرح کے شوز کرنے پر عبور حاصل ہوتا تھا۔ جیسا کہ کچھ اینکرز ون آن ون انٹرویوز بہت اچھے کرتے تھے، تو کچھ کا پینل انٹرویوز میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ اینکرز تیاری اور ریسرچ کر کے شوز میں بیٹھتے تھے۔ آپ ان سینئر اینکرز سے سیکھتے تھے۔ ان شوز میں جن مہمانوں کو بلایا جاتا تھا وہ ایک وقت میں ایک ہی ٹی وی پر بیٹھے نظرآتے تھے۔ اور ان کی بات سمجھ میں آتی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ بہت زیادہ ٹی وی چینلنز کے آنے کے بعد آپ کو ایک وقت میں ایک ہی مہمان دو سے تین ٹی وی چینلز پر بیٹھا نظر آتا ہے اور سننے پر پتہ چلتا کہ وہ باتیں بھی ایک جیسی کر رہا ہے۔ بعض اوقات تو دونوں شوز پر لائیو لکھا بھی آ رہا ہوتا۔ اب جو ایک سادہ آدمی ہے وہ حیران ہوتا ہے کہ یہ ایک وقت میں دو چینلز پر کیسے ہیں ۔ اس کے پیچھے بہت سادہ سی وجہ ہے کہ ایک جگہ ریکارڈنگ چل رہی ہوتی ہے اور ایک جگہ شو لائیو چل رہا ہوتا ہے۔
اگر گنتی کی جائے تو کل ملا کر تیس سے چالیس لو گ جن کا کام نیوز چینلز کا مہمان بننا ہوتا ہے۔ جن کا تعلق مختلف سیاسیی جماعتوں سے ہے۔ اور انہوں نے ہی مختلف ٹی وی چینلز پر جا نا ہے اور اپنی بات کرنی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ جس طرح ٹی وی چینلز اور شوز کی ریٹنگ ہوتی ہے کہ کون سا پہلے نمبر پر ہے اور کو ن سا دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح مہمانوں کی بھی کیٹیگریز بنی ہوئی ہیں۔ جیسے کیٹگری اے ، بی اور سی۔ اے کیٹگری والا مہمان کسی بڑے چینل پر ہی جائے گا اور کسی بڑے اینکر کے پاس۔ اسی طرح بی کیٹگری والا بی چینل پر اور سی کیٹگری والا سی چینل پر۔
اس کے علاوہ کچھ حضرات ایسے ون پرسن پارٹی ہوتے ہیں کہ جن کو پسند ہے کہ وہ اکیلے ہی ایک پروگرام میں بیٹھے ہوں تاکہ ان کے ساتھ کوئی اور نہ ہو اور وہ اپنی بات پوری طرح کہہ سکیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کو اعتراض ہوتا ہے کہ پینل میں کس کے ساتھ بیٹھنا ہے اور کس کے ساتھ نہیں اس لئے وہ آنے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ پینل میں اور کون ہے۔ بعض اوقات تو مہمان کو کسی ایسے بندے کا نام بتا کر بلایا جاتا ہے جو آپ کے پروگرام میں ہوتا بھی نہیں۔ لیکن اچھے مہمان کو بلانے کے لئے اتنا تو کرنا پڑتا ہے۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح ہر آدمی کو دوسرے کی بیوی اچھی لگتی ہے اسی طرح اینکرز کو دوسے اینکر کی ٹیم بڑی پسند ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر اینکر کو لگتا ہے کہ اس کے پاس اتنے اچھے مہمان نہیں جتنے کسی اور اینکر اور ٹی وی کے پاس ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ سختی تو اس بیچارے کی آتی ہے جس کے ذمہ مہمانوں کو بلانے کا کام ہوتا ہے۔ ٹیم میں وہ بندہ سب سے بیچارہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی فون کے ارد گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ صبح سے لے کر شو شروع ہونے تک مہمانوں کی منتیں کر رہا ہوتا ہے کہ آج ہمارے شو میں آ جائیں۔ آپ نے فلاں دن وعدہ کیا تھا۔ دیکھیں میری نوکری کا سوال ہے وغیرہ۔ ترلوں اور منتوں کے جب دیوان رقم ہوجائیں تو کچھ رحم دل تو بات مان بھی لیتے ہیں۔ اس دن سمجھیں اس پروڈیوسر کی واہ واہ ہو جاتی ہے۔
مہمانوں کی بات کی جائے تو حکمران پارٹی کے لوگوں کے نخرے اٹھانے کو بھی اٹھائے نہیں جاتے۔ شو میں آنے کے لئے ان کی تمام شرائط کو پورا کرانا ہوتا ہے۔ جبکہ وہی لوگ جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو یہ پروڈیوسرز کی منتیں کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے شو میں بلا لیں۔
اسی طرح کچھ ایسے مہمان بھی ہوتے ہیں جن کو ہم سوشل موبیلیٹی کی طرز پر پولیٹیکل موبیلیٹی مہمان کہہ سکتے ہیں۔ انہیں کسی سیاسی مشیر نے بتا دیا ہوتا ہے کہ ” سر جی، زیادہ سے زیادہ ٹی وی پر نظر آؤ، وزارت مشاورت ملنے کا چانس بڑھ جائے گا۔ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ بلکہ یہاں تو کہنا ہوگا مشیر دے اور ۰۰۰ ان نوزائیدہ مہمانوں کو شوق پڑ جاتا ہے کہ ان کو بھی بلایا جائے۔ لیکن کوئی ٹی وی رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کے لئے وہ پروڈوسرز اور اینکرز کو میسجز کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنے شو میں ان کو بلایا جائے۔ اور اگر کبھی ان کی قسمت کھل جائے اور کوئی بڑا اینکر جس کا کوئی مہمان آخری وقت میں بھاگ جائے اور جگہ پوری کرنے کے لئے اس نئے مہمان کو بلا لیں تو سمجھیں اس کی تو چاندی ہو گئی۔ وہ آ کر اتنا بولے گا کہ کسی اور کو موقع ہی نہیں ملے گا۔
پہلے یہ پروگرام ایک سنجیدہ کام ہوتا تھا، لیکن تھوڑے سے عرصے میں ہی کیا سے کیا ہوگیا ہے۔ اب یہ عام آدمی کے سیکھنے کے عمل، اپنی رائے بنانے اور دوسروں کی آراء سننے کے ایک با معنی سلسلے کے درجے سے دور جا چکے ہیں۔ یہ کہنا شائد غلط نہیں ہو گا کہ اب ٹاک شوز میں تبصرہ اور خبریت کے عناصر کم جبکہ پولیٹکل موبیلیٹی اور انٹرٹیمنٹ زیادہ ہو گئی ہے۔ اوپر سے ہر ٹی وی پر ایک جسے چہروں کی وجہ سے نیوز چینلز کو بدل کر انٹرٹینمنٹ چینلز دیکھنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ یہ ساری صورتحال ہمارے معاشرے کے جانب سے ارتقا کی سیڑھیاں طے کرکے بہتر سمتوں کی طرف جانے کے پوٹینشل پر ایک ناپسندیدہ نشان ہے۔
I think talk shows, if held on daily basis, loses their worth and interest becoz having a new issue with deep research on it and then related guests means nothing but compromise over the quality.
معاف کیجیے گا میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ” ان پروگرامز کی وجہ سے لوگوں کو پتہ چلا کہ آئین پاکستان کی کون سی شق کیا کہتی ہے۔” زمانہ طالب علمی سے آئین سازی پڑھ رہے ہیں اور ہمیشہ سوچتے تھے کہ بھارت میں آئین سازی کا سوال کتنا آسان ہوگا۔ ۱۹۴۸ میں ایک آئین بنا جو ابھی تک قائم ہےجبکہ پاکستان میں ہمیں قرارداد مقاصد، ۱۹۵۸ کا آئین، ۱۹۶۲ کا آئین اور ۱۹۷۳ کا آئین یاد کرنا پڑتا ہے۔ ان پروگرامز کی وجہ سے لوگوں کو پتہ چلا کہ آئین پاکستان کی شق ۶ ملک سے غداری کی شق ہے۔ ۸وی ترمیم کے تحت اسمبلی توڑی جاسکتی تھی جو بعد میں ۶۲-بی کے توڑی جاسکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر صدر کو اشتسنعی حاصل ہے۔ ین تمام باتوں سے سعادت حسن منٹو کی استاد منگو کی کہانی ےاچ آجاتی ہے جس نے ۱۹۳۵ کا ایکٹ نافذ ہونے پم گورے کی پٹائی کردی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ۱۹۹۷ میں پی ٹی وی پر ایسا پروگرام پہلی دفعہ آیا تھا جب نصیراللہ بابر اور ایم کیو ایم کے ارکان میں مکالماں ہوا تھا اور لوگوں کو بہت کچھ جاننے کو ملا تھا لیکن اب ٹاک شوز میں تبصرہ اور خبریت کم جبکہ انٹرٹیمنٹ زیادہ ہو گئی ہے اور لوگ بطور تفریح ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔ رہی مہمانوں اور ٹی وی چینل کی کیٹیگری کی بات تو ایسا نہ کیجیے ورنہ ایک اور فساد کھڑا ہو جائے گا۔
Mutalea hay he nahe sray se aksr anchors ka..isi lyah anchors ke guftugu aur tarz e guftugu dono e ghair mayari.
بہت اچھا لکھا ہے اور بلکل حقیقت پر مبنی تحریر ہے۔ آجکل کے ٹی وی شوز دیکھ کر یا تو پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان مین مذید کچھ باقی نہیں اور دوسرا احساس یہ ہوتا ہے کہ اب ملک میں جرائم سیکھنے کے لئےٹی وی دیکھ لیا جائے۔