(محمد عثمان)
آج سے کم و بیش چھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میں اپنے ایک استاد صاحب کے ساتھ حالات حاضرہ کے کسی موضوع پر گرما گرم اور جذباتی انداز میں بحث کر رہا تھا۔ استاد نے میری ذہنی حالت کا جائزہ لے کر بحث کو ختم کرنا ہی مناسب سمجھا اور میرے موافق معتدل رائے دے کر بحث کو سمیٹ دیا۔ اس کے کچھ دیر بعد ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران استاد صاحب نے جو مشورہ دیا اس نے میرے سوچنے سمجھنے کے انداز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ استاد صاحب نے کہا: “حالات حاضرہ پر بھی ضرور وقت صرف کرنا چاہئے لیکن اصل توجہ حالات مستقلہ پر دینی چاہئے۔” میں نے حیرانگی سے پوچھا: “حضرت! حالات حاضرہ کا ذکر تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں، یہ حالات مستقلہ کس بلا کا نام ہے؟” استاد صاحب مسکرا کر گویا ہوئے: “بھئی دیکھئے! ایک مرض ہوتا ہے اور ایک اس کی علامات ہوتی ہیں۔ علامات کو ہی اگر مرض سمجھ لیا جائے تو مریض کبھی بھی شفایاب نہیں ہو سکتا۔ مثلا” جب کوئی شخص کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا اظہار بہت سی علامات کی صورت میں ہو سکتا ہے جیسا کہ وزن کم ہوجانا، جسم میں درد رہنا، کسی حصے پر سوجن آجانا وغیرہ۔ ایک اچھا معالج ہمیشہ علامات کی مدد سے اصل مرض تک پہنچتا ہے اورپھر مرض کی نوعیت اور مریض کی جسمانی حالت کے مطابق دوا اور پرہیز تجویز کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک اناڑی معالج اصل مرض کی تشخیص کی بجائے علامات پر ہی توجہ مرکوز رکھتا ہے اور اصل مرض کو نظر انداز کرکے ان علامات کو دور کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کرتاہے۔ مثلا” جسمانی کمزوری ہے تو طاقت بخش ٹیکوں کے ذریعے مریض کو صحت کی نوید سناتا ہے۔ جسم کے کسی حصے میں درد ہے تو درد کش دوا کے استعمال سے وقتی آرام دینے کی سعی کرتا ہے۔ لیکن تمام بھاگ دوڑ کے باوجود “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” والی صورتحال درپیش ہوتی ہے۔ بالآخر ایک دن مرض لاعلاج درجے تک پہنچ کر مریض کا کام تمام کردیتا ہے اور ہم سب لوگ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ اس مثال میں ہم اصل مرض کو حالت مستقلہ اور علامات کوحالات حاضرہ سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کچھ مستقل امراض ہیں اور باقی سب ان کی علامات اور نتائج ہیں۔ جب تک مستقل امراض باقی ہیں علامات شکل بدل بدل کر سامنے آتی رہیں گی۔ یعنی حالات حاضرہ سے مراد وہ حالات ہیں جو کہ اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ان حالات کی جگہ کچھ نئے حالات لے لیں گے جبکہ حالات مستقلہ سے مراد وہ حالات ہیں جو کہ مستقل طور پر ہمارے اردگرد موجود ہیں۔”
یہ کہہ کر انہوں نے گفتگو کا اختتام کردیا اور میں اپنے ہاسٹل واپس آگیا۔
دور حاضر میں جب کہ چائے کے کھوکھے سے لے کر ٹیلی ویژن کی زرق برق سکرینوں تک ہر طرف حالات حاضرہ پر تندوتیز مباحث جاری ہیں۔ آئیے حالات حاضرہ اور حالات مستقلہ کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
پاکستان میں کم و بیش ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا واقعہ یا ایشو اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا کی زینت بنتا ہے۔ اپنے آغاز میں اس ایشو کو پاکستان کا اہم ترین مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو ایک ایک کر کے ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ رفتہ رفتہ اس ایشو میں لوگوں کی دلچسپی مدھم پڑنے لگتی ہے اور یہ ایشو فقط تب تک ہی زندہ رہ پاتا ہے جب تک کہ ایک نیا اور اس سے زیادہ دلچسپ ایشو میڈیا کو میسر نہیں آجاتا۔ جیسا ہی کوئی نیا واقعہ وقوع پزیر ہوتا ہے، پچھلے “سب سے اہم ایشو” کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اس نئے واقعے کو “پرائم ایشو” کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ حالات حاضرہ کے کتنے موضوعات آج تک اپنے منطقی انجام تک پہنچے ہیں اور ان کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی حالات کس حد تک بہتر ہوئے ہیں، یہ ایک تحقیق طلب اور دلچسپ موضوع ہے۔
اس ضمن میں بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ حالات حاضرہ کے دائرے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات درحقیقت حالات مستقلہ کی علامات کا ظہور ہوتے ہیں۔ جن کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان علامات کے ذریعے معاشرے کو درپیش مستقل مسائل کی طرف ارباب دانش اور حل و عقد کو توجہ دلا کرکے انہیں حل کرنے کی حکمت عملی بنانے کی طرف راغب کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے ہم بحیثیت قوم اپنے مستقل مسائل کو نظرانداز کر کے حالات حاضرہ میں الجھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اجتماعی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
مثلا” آئے روز ہم اخبارات میں گھریلو ناچاقی پر مار پیٹ اور قتل، کسمپرسی سےتنگ آکر خود کشی، جائیداد کے جھگڑے اور قانون شکنی سے متعلق خبریں پڑھتے ہیں۔ یہ خبریں پڑھ کر ہم وقتی طور پر متاثرین سے ہمدردی بھی کرتے ہیں اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو برا بھلا بھی ٹھہراتے ہیں۔ لیکن شاید ہی ہم نے کبھی ان اسباب اور ماحول کی طرف توجہ کی ہو جو ان تمام واقعات کو جنم دے رہے ہیں۔ سماجی علوم کے ادنٰی طالب علموں سے بھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس طرح کے جرائم کی بنیادی وجہ غربت، جہالت، احساس محرومی اور سماجی انصاف کی عدم فراہمی ہے اور جب تک ان بنیادی وجوہات کا تدارک نہیں کیا جاتا، مندرجہ بالا واقعات کا انسداد ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان واقعات میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ میڈیا میں ان مسائل کو انفرادی حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے اور کسی ایک فرد کا مسئلہ حل بھی کردیا جاتا ہے لیکن مجموعی طور پر صورتحال جوں کی توں برقرار رہتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ معاشرے کو چلانے والے سیاسی، معاشی اور سماجی ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہیں اور مسلسل انحطاط کا شکار ہیں۔
اسی طرح حالات حاضرہ کا ایک اور موضوع جو کہ اکثر زیر بحث رہتاہے وہ ہماری قومی غیرت اور خودمختاری کا ہے۔ ہماری خودمختاری کبھی ڈرون حملوں سے مجروح ہوتی ہے تو کبھی ریمنڈ ڈیوس اسے تار تار کرتا ہے۔ کبھی سلالہ حملہ ہوتا ہے تو کبھی میمو سکینڈل سامنے آتا ہے۔ ان تمام واقعات کے درپردہ اصل اسباب پر گفتگو شاز و نادر ہی ہوتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پچھلے ستر سال میں ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو کن خطوط پر استوار کیا اور سات سات سمندر پار کس آقا سے پیار کی پینگیں بڑھائیں جو کبھی ہم سے خفا ہوتا ہے اور جسے کبھی ہم بے وفا قرار دینے لگتے ہیں؟معاشی میدان میں ہم نے پہلے دن سے خود انحصاری کی بجائے امداد اور قرضوں کی معیشت قائم کرنے کا جو بندوبست کیا آج اس کے نتیجے میں ہماری تمام معاشی پالیسیاں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی نگرانی میں بنتی ہیں۔ اگر قرضے کی قسط میں چند ماہ کی تاخیر ہوجائے تو پوری معیشت لڑکھڑانے لگتی ہے اور ہمارا وزیر خزانہ بھاگا بھاگا دبئی پہنچتا ہے جہاں قرضے کے لئے نئی استحصالی شرائط پر مذاکرات ہوتے ہیں اور قرض ملنے پر ملک آکر ایسے جشن منایا جاتا ہے جیسے قرض لے کر نہیں بلکہ دے کر آئے ہیں۔
کم و بیش یہی صورت حال ہمارے ملک میں رائج سیاسی نظام کو درپیش ہے۔ ہمارے کئی وزیراعظم مغربی ممالک سے عارضی بنیادوں پر درآمد کئے گئے اور چند سال اپنی تفویض کردہ “ذمہ داریاں” ادا کر کے اپنے اصل وطن لوٹ گئے۔اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے تمام اہم سیاسی فیصلے بیرون ملک کئے جاتے ہیں حتی کہ نئے آنے والے حکمران بھی پہلے اپنے مغربی آقاؤں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کراقتدار میں آتے ہیں۔ جیسے ہی ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے یہ بھاگے بھاگے دبئی یا لندن جاتے ہیں جہاں مختلف دھڑوں میں صلح صفائی کروا کر اگلے دور کے حوالے سے نئی حکمت عملی تشکیل دی جاتی ہے۔ ہمارے بیشتر حکمران طبقات کے خاندان امریکہ، برطانیہ اور دبئی میں مقیم ہیں۔ وہیں پر ان کے تمام اثاثہ جات اورکاروبار ہیں۔ اقتدار کے دن ختم ہوتی ہی یہ اپنے اصل گھروں کو سدھار جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی موجودگی میں قومی غیرت اور خودمختاری ایک جذباتی نعرے سے زیادہ کیا حیثیت رکھتی ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ آپ جس سے لے کر کھاتے ہیں اس کی ماننی بھی پڑتی ہے۔ انگریزی کا مقولہ (Beggars can’t be Choosers) ہم سب نے سن رکھا ہے۔ لیکن اس سیاسی اور معاشی غلامی کے باوجود ہم اپنی نام نہاد غیرت اور خودمختاری کا تحفظ بھی چاہتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہمارے حالات مستقلہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم آزادی کے ستر سال بعد بھی حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں۔ حالات حاظرہ میں سامنے آنے والے واقعات کے پس منظر میں موجود ان بنیادی اسباب کا ادراک نہایت ضروری ہے۔
میڈیا میں گردش کرنے والی ایک اور بحث جمہوریت اور آمریت کی ہے۔ جہاں موجودہ سیاسی بندوبست کو جمہوریت کی حتمی شکل کے طور پر پیش کیا جاتاہے اور ہمیں یقین کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں کوئی مسلئہ نہیں ہے۔ بس کچھ بڑوں کی لاعلمی، غفلت اور سازشوں کی وجہ سے ہمارا سیاسی نظام اجتماعی قومی مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے اور اگر اسے چلنے دیا جائے تو ایک نہ ایک دن یہ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ حالانکہ فزکس کا بنیادی علم رکھنا والے طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی عمل خود بخود سر انجام نہیں پاتا بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی عامل طاقت موجود ہوتی ہے۔ خود بخود یہ کیسے ٹھیک ہوگا یا جن طبقات کے مفادات اس استحصالی نظام سے وابستہ ہیں، وہ کیوں اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا ماریں گے اس کا جواب جاننے کی کبھی زحمت نہیں کی گئی۔ اسی طرح آپ کو کبھی بھی مین سٹریم میڈیا میں جمہوریت کی مسلمہ تعریف (عوام کی حکومت، عوام کے لئے، عوام کے زریعے) پر گفتگو نظر نہیں آئے گی کہ کیا ہمارا موجودہ سیاسی نظام ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری کر رہی ہے؟ اگر آپ چند لمحات کے لئے ان شرائط پر باری باری غور کریں تو نتجتاً آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ موجودہ سیاسی بندوبست تو ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہیں کررہا لیکن پھر بھی ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ اسے جمہوریت ہی سمجھیں۔ آئیے اس بات کا عملی تجربہ کر کے اپنے آپ سے چند سوالات پوچھیں۔
1: کیا پاکستان میں عوام کی حکومت ہے؟
2: کیا اس سیاسی نظام کا مقصد عوامی مفادات کا تحفظ ہے؟
3: اس سیاسی نظام میں عوام کس حد تک شامل ہیں؟
ان سوالوں کے جوابات کو فی الحال مؤخر کر کے آگے بڑھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد الیکشن کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا کر کھل کھیلنے کا لائسنس حاصل کیا جاتاہے۔ دور غلامی میں موجود وائسرائے کی طرز پر نئے حکمران مسلط کرديے جاتے ہيں۔ اور عوام کے مسلسل استحصال کو چند خوشنما نعروں کی اوٹ میں چھپا دیا جاتا ہے۔ حالات حاضرہ پر بحث کرتے ہوئے ہم نے شائد ہی کبھی اس بات کو اہمیت دی ہو کہ یہ کیسا سیاسی بندوبست ہے جس میں 99٪ عوام کی 1٪ فیصد نمائندگی بھی نہیں ہے جبکہ ایک فیصد اشرافیہ 100 اختیارات پر قابض ہے۔ یہ بات سمجھنے کیلئے کونسے سقراط کا ذہن چاہئے کہ ایک وڈیرہ ایک ہاری یا ایک سرمایہ دار ایک مزدور کی کس طرح نمائندگی کرسکتا ہے؟ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر وہ اپنے طبقے کے مفاد کی پالیسی بنائے گا یا کسان، مزدور اور محنت کش طبقات کی؟ جمہوریت آمریت کی لاحال بحث کے شور میں ہمارے سیاسی نظام کو درپیش حقیقی اور مستقل مسلئہ دب کر رہ گیا ہے۔
حالات حالات حاضرہ کا پسندیدہ ترین موضوع ہمارے سیاستدانوں کی نااہلی، خود غرضی اور کرپشن کا بیان ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل سامنے آیا ہوتا ہے جس پر میڈیا میں دھواں دار بحثیں شروع ہوجاتی ہے۔ ہر فریق دوسرے پر الزام تراشی کرتا ہے کہ اگر ہم چور ہیں تو تم ہم سے بڑے چور ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس ساری بحث میں کبھی بھی اصل مسلئے کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں کامیابی کی واحد بنیاد سرمایہ اور جاگیر ہے۔ علمی قابلیت اور عملی صلاحیتوں کی جانچ کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ سیاست ایک کاروبار بن چکا ہے جس میں افراد اور پارٹیاں کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری کرکے کھربوں کا منافع کماتے ہیں۔ کون بیوقوف اللہ واسطے الیکشن میں کروڑوں روپے لا متناہی منافع کی امید کے بغیر لگائے گا؟ اس مستقل صورتحال میں حالات حاظرہ میں آنے والے عارضی مباحث انتہائی سطحی اور لایعنی نظر آنے لگتے ہیں۔
حالات حاظرہ پر بہت زیادہ توجہ دینے کا ایک اور نقصان جلد بازی اور محدود زاویہ نگاہ کی نفسیات کا پیدا ہوجانا ہے۔ جیسے ہی کوئی واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے ہم فورا” میڈیا یا اپنے ذہنی رجحان کے زیر اثر ایک رائے بنا کر اس کا اظہار شروع کردیتے ہیں اور پھر بقیہ وقت اس رائے کو جواز بخشنے کیلئے دلیلیں ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔اس ضمن میں محتاط رویہ یہ ہے کہ کسی بھی ایشو پر فوری طور پر رائے قائم کرنے سے گریز کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ اس واقعے سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات ، تاریخی مواد، وہاں کی جغرافیائی حیثیت اور مختلف طبقات کے سیاسی اور معاشی مفادات کا ادراک حاصل کی جائے۔ باہم متضاد اور مخالف آرا کو سن کر ٹھنڈے دماغ سے ان کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے اور پھر کسی رائے کا اظہار کیا جائے ۔لیکن اس میں بھی غلطی کے امکان کو ملحوظ خاطر رکھا جائےاوراگر اپنے نقطہ نظر سے مخالف کوئی حقیقت سامنے آئے تو اسے کھلے دل سے قبول کرلیا جائے۔
حالات حاضرہ پر بے لگام اور بے مقصد بحث کے نتیجے میں ہمارے سماجی مسائل حل ہوں یا نہ ہوں لیکن کم سے کم ہمیں اپنی دانشوری جھاڑنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے، دل کا غبار بھی نکل جاتا ہے اور اپنے تئیں ملک اور قوم کی خدمت بھی ہو جاتی ہے۔ اور ہم بڑے اطمینان سے اپنا دامن جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ چلو یار ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں!
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے باشعور نوجوان اپنا قیمتی وقت حالات حاضرہ کی لایعنی بحثوں میں ضائع کرنے کی بجائے سماج کے مستقل اور حقیقی مسائل سمجھنے پر صرف کریں۔ اگر ایک بار سماج کو لاحق حقیقی مرض کی درست تشخیص ہوجائے تو علاج اور پرہیز تجویز کرنا نسبتاً آسان ہوجائے گا جس کے زریعے ایک صحت مند سماج کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ اس کی بجائے اگر حالات حاضرہ کے تناظر میں محض علامات اور نتائج ہی پر توجہ مرکوز رکھی گئی تو سماج کے اناڑی طبیبوں کے زیر اثر “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” والا سفر ہی جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔
بہت ہی کمال تجزیہ کیا ہے عثمان صاحب۔۔۔ لکھنے کی یہ کوششیں جاری رکھیں بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔
یہ اچھا کیا آپ نے کہ دانشوری کا چسکا لکھا۔ میرے نزدیک دانشوری کا ٹھرک زیادہ موضوع تھا حالات حاضرہ کے تناظر میں۔ جیتے رہیے
buhat khoob