(ناصر عباس نیر)
سماج کی تعمیر، تعمیرِ نو یا سماج میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے میں دانش ور کا کیا کردار ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ،دو سوالات پر توجہ ضروری ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کب سے یہ سمجھا جانے لگا کہ سماج کی اصلاح و تعمیر میں دانش ور کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟ کیا انسانی معاشرے کی ابتدائی تشکیل کے دنوں ہی میں یہ خیال کیا جانے لگا تھا کہ سماجی تشکیل کے عمل میں اس خاص گروہ کا حصہ تھا ،جو ذہنی کام کرتا ہے، یا تاریخ کے کسی خاص عہد میں دانش ور کی اہمیت کا ادراک ہوا؟
ابتدائی معاشروں میں طاقت کے دو مراکز تھے،جو معاشرے کی تشکیل اور کارکردگی پر اثرانداز ہوتے تھے:بادشاہ اور کاہن ، پروہت، جادوگر، مذہبی راہنما۔کاہنوں اور جادوگروں کا طبقہ ،بادشاہ کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور تھا۔بادشاہ کے پاس عسکری طاقت ہوا کرتی تھی ،جب کہ کاہن ،جادوگر وغیرہ ’علم کی طاقت ‘ کے حامل سمجھے جاتے تھے ۔یہ ’علم‘ انسانی کوشش کانتیجہ نہیں،دیوتاؤں کی عطا سمجھا جاتا تھا۔اس ’علم‘ کی ’طاقت‘ لوگوں کے عقیدے اور یقین میں مضمر تھی۔بیماری، جنگ، غربت، سفر،موت جیسے مصائب کا سامنا کرنے میں اس ’علم‘ سے مدد لی جاتی تھی۔ بہ ہر کیف قدیم انسانی معاشروں میں جادوگروں اور مذہبی راہنماؤں نے اس یقین کو عام کیا کہ علم ،سماج کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔
لیکن جسے ہم دانش ور کہتے ہیں(جس کی وضاحت آگے آرہی ہے)وہ ایک نیا طبقہ ہے ،جس کا وجود جدید کاری کا مرہون ہے۔اگرچہ قدیم زمانوں کے کاہنوں اور جدید عہد کے دانش وروں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں’ ذہن و شعور و دانش ‘ کی مدد سے معاشرے پر اثرا نداز ہوتے ہیں،مگر ’ذہن و شعور ودانش‘ کی تعریف ، تخلیق اور ترسیل کے طریقوں میں اس قدر فرق ہے کہ ان کے سماج پر اثرات کی نوعیت میں بنیادی قسم کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں قدیم زمانے کے کاہنوں اور جدید زمانے کے دانش وروں کے بیچ ’حکیم،عارف،صوفی، دانا،ملا، علامہ‘ اور’فلاسفر، sage, savant, wizard, genius ‘ وغیرہ تھے۔ان کا تعلق کلاسیکی عہد سے تھا۔ان میں دو طرح کے لوگ تھے : روایتی اور انقلابی۔ملا روایتی صاحبِ علم تھا ؛ وہ ماضی کی روایات کی سختی سے پاس داری کرتا تھا،جب کہ صوفی وحکیم بڑی حدتک انقلابی تھے؛خود طریقت ایک انقلابی راستہ تھا ،جسے صوفیا نے وضع کیا؛مذہبی رواداری، صوفیانہ دانش کا دوسرا انقلابی پہلو تھا؛صوفیا کا کلاسیکی اشرافی زبانوں کی جگہ مقامی عوامی زبانوں میں اظہار کرنا،ایک اور انقلابی دانش وارنہ خیال تھا ۔ دوسری طرف حکماو فلاسفہ ،سماج کا وہ مختصر گروہ ہوا کرتے تھے، جو زندگی ،دنیا اور کائنات سے متعلق بنیادی سوالات کے جواب تلاش کرتے تھے؛یعنی مذہبی وجدان کے ساتھ ساتھ، یا اس کی جگہ انسانی تعقل کو بروے کار لاتے تھے۔اسی گروہ نے پہلی مرتبہ باور کرایا کہ علم دیوتاؤں کی عطا نہیں، انسانی کوشش کا نتیجہ ہے۔
نوراللغات میں حکمت کی تعریف کے ضمن میں لکھا ہے کہ ’’اصطلا ح میں حکمت عبارت ہے ،احوال موجودات کے علم سے جیسا کہ وہ نفس الامر میں ہے ‘‘۱۔موضوع کے اعتبار سے حکمت کی تین شاخیں بیان کی گئی ہیں:طبعی ،ریاضی اور الہیٰ ۔پھرحکمت کو نظر ی اور عملی میں بانٹا گیا ہے ۔لہٰذا حکیم وہ شخص ہوا کرتا تھا ،جو موجودات سے متعلق نظریات وضع کرتا تھا،اور وجودِ حقیقی کے اثبات ،اور انسانی دنیا و کائنات میں اس کی قدرت و اختیار کی وسعت سے متعلق تجریدی تصورات پیش کیا کرتا تھا۔ اس کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ طبیعی و مابعد الطبیعی فکر کی تشکیل میں بہ یک وقت سرگرم ہوا کرتا تھا۔ جدید دانش ور سے فقط اس مفہوم میں مختلف تھا کہ وہ علم کی سماجی افادیت سے سروکار نہیں رکھتا تھا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دانش ور ہے کون؟وہ کن خصوصیات کی بنا پر سماج کے باقی لوگوں سے مختلف ہے،اور الگ پہچانا جاتا ہے؟نیز وہ جن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ،انھیں وہ کیوں کر حاصل کرتا ہے ؟کیا یہ خصوصیات فطری ہوتی ہیں ،یا اکتسابی ؟اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ دانش ور کا لفظ ہمارے یہاں انگریزی لفظ انٹلیکچوئل کے معنی میں اور مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق انٹلیکچوئل سے مراد وہ شخص ہے جو intellect یعنی ’منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیت ‘کو استعمال میں لاتاہے۲۔منطقی انداز میں سوچنا،تاثر و جذبے پر منظم ومرتب غوروفکر کو ترجیح دینا ہے ،تاکہ کسی شے یاکسی مسئلے کا صحیح، معروضی علم حاصل کیا جاسکے۔اسی لیے سنجیدہ مطالعہ اور مسلسل غوروفکر دانش ورکی پہچان ہے۔ دانش وررفتہ رفتہ ایک’ نئی دنیا‘ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ ذہنی، عقلی ، استدلالی دنیا ہے ؛شعور کی دنیا ہے ؛مسلسل جاننے ، تحقیق کرنے ،اور شعور کی حدوں کو وسیع کرنے کی دنیا ہے ؛پرانی اصطلاح میں منقولات کی بجائے معقولات کی دنیا ہے؛وجدان و الہام واساطیر کے بجائے ،تعقل کی دنیا ہے۔دوسرے لفظوں میں دانش ور کی دنیا انسانی علم کی دنیا ہے ؛انسانی علم سے مراد ،وہ علم جسے انسان نے ،انسانی معاملات و مسائل پر ،خالص انسانی ذہنی وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے ،غوروفکر اور تحقیق کی مدد سے تخلیق کیا ہے۔
جیسا کہ ابتدا میں کہا گیاہے کہ دانش ور وں کے طبقے کا ظہور جدید عہد میں ہوا۔جدید یت کا انسانیت پر غالباً احسان عظیم یہ ہے کہ اس نے باور کرایا کہ خیالات اور علم کی تخلیق ایک خالص انسانی سرگرمی ہے ؛علم کا سرچشمہ انسانی ذہن ہے۔تمام سماجی علوم اس یقین کی کوکھ سے پیدا ہوئے،اور اساطیر ومذاہب کے معاشرتی مطالعات کی راہ کھلی۔مغرب میں جدید عہد کا آغازچودھویں صدی کے لگ بھگ ہوا،تاہم جدیدیت کا یہ داعیہ ’علم کا سرچشمہ ذہنِ انسانی ہے‘ ہمیں بعض مسلم مفکرین کے یہاں ملتا ہے۔مثلاابوبکر رازی نے کہا کہ ’’انسان کو راستہ دکھانے اور اس کے اندر روشن خیالی پیدا کرنے کے لیے عقل ہی کافی ہے‘‘۳۔۔اسی طرح ابوالعلا معری نے کہا’’ کہ عقل کے سوا کوئی امام نہیں جو انسان کی صبح شام راہنمائی کرے۔[اپنے اشعار میں کہا کہ]میں حیران ہوں کسریٰ کے حواریوں پراور اس ریت پر کہ انسانوں کے منھ گائے کے پیشاب سے دھوئے جائیں اور یہودیوں کی اس بات پر کہ خدا کو(قربانی کے) لہو کے چھینٹے اور بھنے ہوئے گوشت کی باس پسند ہے، اور عیسائیت کے اس عقیدے پر کہ خدا پر سچ مچ ظلم و جبر ہوا تھا،اور وہ اس سے بچنے کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا،اور ان لوگوں پرجو کنکریاں مارنے اور پتھر کو بوسہ دینے کے لیے دوردراز کا سفر کرکے آتے ہیں۔کوئی حیرت جیسی حیرت ہے لوگوں کی ان باتوں پر!کیا ان میں سے کسی کو بھی حقیقت کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا‘‘۴ ۔
گویا معری کا خیال تھا کہ ’حقیقت کا چہرہ‘ انسانی عقل دیکھ سکنے کی اہل ہے۔اس کے علاوہ معری کی دانش ورانہ فکر اس نازک نکتے کو بھی گرفت میں لیتی ہے کہ عقل کی امامت کی راہ میں مذہبی رسمیات حائل ہیں۔ مذہبی و سیکولر بہ معنی انسانی فکر میں تضاد کا احساس ان مسلمان حکماکو تھا۔ مگر مسلم معاشروں کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ ابو بکر رازی، معری اور ابن رشد کی عقلیت پسندانہ آوازوں پر غزالی،ابنِ حزم اور فخرالدین رازی کی عقلیت مخالف آوازیں غالب آگئیں،اور یہاں سماجی سائنسوں کی روایت پیدا نہ ہوسکی۔
انٹلیکچوئل کی اصطلاح کا موجودہ رواج فرانس میں ’’ دانش وروں کے منشور‘‘سے ہوا۔قصہ یہ تھاکہ ۱۸۹۴ء میں فرانسیسی فوجی الفریڈ ڈریفس(جو مذہباً یہودی تھا) پریہ الزام عائد ہوا کہ اس نے جرمنوں کو فرانس کے عسکری راز فراہم کیے۔فوجی عدالت نے اسے مجرم قرار دے کر سزا دی۔اس واقعے نے فرانس کے اہلِ دانش کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا،جنھوں نے ’’دانش وروں کا منشور‘‘ تیار کیا۔اس میں ایملی زولا پیش پیش تھے ۔ اس منشور پر ہر طبقہ ء فکر کے لوگوں کے دست خط حاصل کرنے کی مہم چلائی گئی ۔ جن ادیبوں نے اس منشور سے اتفاق کیا ،ان میں مارسل پروست اور موپاساں بھی شامل تھے۔ ان اہلِ دانش کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ فرانسیسی حکومت کے سامی مخالف رویوں ،عسکری ناانصافی اور قومی جوش کے خلاف جرأت سے بولنے کا فیصلہ کریں ،یا بزدل بن جائیں،اور ہجوم کا ساتھ دیں ،یعنی یہودی الفریڈ ڈریفس کے دفاع سے انکار کردیں،اورجرمنوں کے خلاف جنگجویانہ ترانے گائیں۔جدید دنیا کی تاریخ میں یہ غالباً پہلی مرتبہ تھا کہ دانش ورایک ’نئے سماجی گروہ‘ کی صورت میں منظم ہوئے،اور انھوں نے ریاستی و سماجی معاملات میں ایک واضح ، دوٹوک مؤقف اختیار کیا؛ایک ایسا مؤقف جو مقبولِ عام ،نام نہاد قومی مؤقف کے برعکس تھا۔ڈریفس کے معاملے نے ،دانش ورکے سلسلے میں کئی سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا۔ مثلاً یہ کہ مصنفین اور جامعات کے اساتذہ یعنی دانش ور جس اعلیٰ بصیرت کا دعویٰ کررہے ہیں،کیا وہ ملکی قانون سے برتر ہے؟ نیز دانش وروں کو ریاستی وملکی اداروں کے معاملات میں مداخلت کا حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ دانش ورقومی فیصلوں پر سوال اٹھانے کا جوازکہاں سے حاصل کرتا ہے؟ کیایہ جواز اسے محض اپنی ادبی وعلمی شہرت سے حاصل ہوجاتا ہے یا اد ب تخلیق کرنے اور کسی شعبہء علم میں مسلسل کام کرنے کے نتیجے میں اسے ’دانش ورانہ بصیرت‘ کا تحفہ ملتا ہے؟ بیسویں صدی میں دانش ور کی شناخت اور اس کے سماجی کردار کی تشکیل انھی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی مرہون نظر آتی ہے۔
دانش وریعنی انٹلیکچوئل کو بعض لوگ انٹیلیجنسیا یعنی ’اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘کامترادف سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں میں فرق ہے ۔ ’’ یہ[ انٹیلیجنسیا] اصطلاح پہلی مرتبہ روس میں انیسویں صدی میں استعمال ہوئی،جس سے مراد وہ ثقافتی طبقات تھے،جنھوں نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی تھی،اور وہ پیشہ ورانہ ملازمت کے اہل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو دست کارانہ پیشوں کے مقابلے میں ذہنی پیشوں سے منسلک تھے‘‘۵۔اس کے مقابلے میں دانش ور(انٹیلکچوئل) وہ گروہ ہے جو سماج اور ثقافت کے عمومی سوالات سے دل چسپی رکھتا ہے۔نیز جو خیالات کی تخلیق ،ترسیل اور تنقید میں براہِ راست حصہ لیتا ہے‘‘۶۔گویا دونوں میں دو قسم کے فرق ہیں۔ دانش ور علم کی تخلیق میں حصہ لیتا ہے، جب کہ ’اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘لوگ کسی علم یافن پر عبور حاصل کرتا ہے ۔دوسرا فرق یہ ہے کہ دانش ور کی وابستگی عوام سے ہوتی ہے ،مگرتعلیم یافتہ گروہ کا تعلق سماج کے کسی خاص مگر محدودطبقے سے ہوتا ہے۔دونوں کی وابستگیوں کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ دانش ورکی وابستگی بے غرضانہ ہوتی ہے،جب کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کی وابستگی کی نوعیت پیشہ ورانہ ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر ، انجینئر، مینیجر،اعلیٰ انتظامی افسر’’ انٹیلیجنسیا ‘‘ہیں،اور ادیب، سائنس دان، فلسفی، مذہبی مفکر، استاد،سیاسی و عمرانی مفکرین دانش ور ہیں۔
دانش ور کا تصور اس وقت تک پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا ،جب تک اس سوال کا جواب نہ دیا جائے (جس کا سامنا فرانسیسی دانش وروں کو اوّل اوّل کرنا پڑا تھا)کہ ’ ادیب، سائنس دان، فلسفی ،استاد ،مذہبی و سیاسی مفکر‘ کس بنیاد پر دانش ور کہلاتے ہیں؟کیا دانش وری ان کی بنیادی خصوصیت ہے یا اضافی خوبی ہے؟یعنی کیاوہ’ ادب، سائنس، فلسفے اور فکر ‘کی صورت میں جو کچھ تخلیق کرتے ہیں، اسی کا دوسرانام دانش ہے ،یا پھر ان شعبوں میں کام کرنے کے نتیجے میں وہ دنیا، انسان اور کائنات سے متعلق ایک ایسی ’نظر‘ حاصل کرتے ہیں جو مسائل کے دانش ورانہ تجزیے میں مدد دے سکتی ہے؟ان سوالوں کے جواب آسان نہیں ہیں۔ بڑی دقت تو یہ ہے کہ ادب ، سائنس ،فلسفے اور فکر کو ہم ایک ہی زمرے میں نہیں رکھ سکتے۔ ان شعبوں میں کام کرنے والے لوگ مختلف اندازمیں کام کرتے ہیں؛ان کابنیادی مواد مختلف ہوتا ہے، اس مواد کو ترتیب دینے اور نتائج اخذ کرنے ،نہ کرنے کے طریق ہاے کار مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً ادب اصل میں ایک تخیلی تشکیل ہے ،جب کہ فلسفہ و سائنس منطق و مشاہدے سے متعلق ہیں۔ مذہبی مفکر مابعد الطبیعیاتی دنیا کو بنیادی حوالہ بناتا ہے ،اور سیاسی و عمرانی مفکر جس دنیا سے مواد حاصل کرتا ہے ،یا جس دنیا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے، وہ مادی ،سماجی دنیا ہے۔ہرچند یہ سب لوگ کسی نہ کسی سطح پر سماجی دنیا پر بحث کرتے ہیں ،یا اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، مگر براہ راست رجوع کرنے ،اور بالواسطہ حوالہ بنانے میں،اور بنیادی دلیل مابعد الطبیعی دنیا سے یا حسی دنیا سے لانے میں بہت فرق ہے۔
یہی دیکھیے کہ جب ادب مادی سماجی دنیا کی تخیلی تشکیل کرتا ہے تو اس سے اس دنیا کے مسائل و معاملات کی ترجمانی ،اس کی عمرانی ترجمانی سے کافی مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذاہم کَہ سکتے ہیں ’ادب، سائنس ، فلسفہ ،فکر‘دنیا کی تفہیم و ترجمانی کے الگ الگ طریقے ہیں۔سائنس دان اور مذہبی و عمرانی مفکر اپنی بنیادی حیثیت میں دانش کی تخلیق نہیں کرتے۔تاہم وہ ہمیں دنیاو سماج کی آگاہی دیتے ہیں،۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی آگاہی کو ’دانش ورانہ آگاہی ‘ نہیں کَہ سکتے۔ اگر آگاہی ہمارے شعور کو وسیع کرتی ہے تو دانش ورانہ آگاہی شعور میں وسعت کے علاوہ گہرائی بھی پیدا کرتی ہے؛وہ ہمارے شعور واحساس کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف ادب و فلسفہ میں دانش ورانہ آگاہی کے بیش از بیش عناصر ہوتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ’ادب، سائنس،فلسفہ اور فکر‘ میں مسلسل اورتخلیقی انداز میں کام کرنے والے ایک ایسی نظر یا طریق کار وضع کرنے میں عموماً کامیاب ہوتے ہیں جو مسائل پردانش ورانہ رائے ظاہر کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اس کا اظہار اکثر اس وقت ہوتا ہے ،جب ان لوگوں کو کسی انتہائی اہم اجتماعی مسئلے پر ایک واضح مؤقف کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔یہیں ہمیں انفرادی دانش ورانہ مؤقف ،اجتماعی دانش ورانہ مؤقف،منقسم اجتماعی دانش ورانہ اور اجتماعی عوامی مؤقف میں فرق کرنا چاہیے۔سرسید نے انڈین نیشنل کانگریس کی مخالفت کی، یہ ان کا انفرادی مؤقف تھا۔اسی زمانے کے دو اہم دانش وروں اکبر اور شبلی نے انڈین نیشنل کانگریس ہی کی حمایت کی۔ یہ ایک ہی مسئلے کے ضمن میں مختلف دانش وروں کے مختلف انفرادی مؤقف تھے۔ دوسری جنگِ عظیم میں ترقی پسندوں نے برطانیہ کی حمایت کی؛یہ اجتماعی دانش ورانہ مؤقف کی مثال تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کشمیر پر بھارت کے حملے کی مذمتی قرار دادپر محمد حسن عسکری نے ادیبوں کے دست خط حاصل کرنے شروع کیے۔اس پر سوائے فیض کے کسی ترقی پسند نے دست خط نہیں کیے۔ یہ منقسم اجتماعی دانش ورانہ مؤقف تھا۔ چند دن پہلے پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کے وحشیانہ قتل کے بعد طالبان کے خلاف اجتماعی عوامی مؤقف سامنے آیا۔
اسی مقام پر ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ادب ،سائنس ، فلسفہ وفکر کے شعبوں سے متعلق سب لوگوں میں ’دانش ورانہ نظر‘پیدا نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو خیالات تخلیق کرتا ہے ،جب کہ ایک بڑا طبقہ ایسا ہوتا ہے جو دوسروں کے تخلیق کیے ہوئے خیالات کی تفہیم وترسیل کا انتخاب کرتا ہے۔دوسرے طبقے کے یہاں ہمیں ایک دوئی ملتی ہے۔ وہ اپنی پیش ورانہ زندگی میں جس علم ،یا جن نظرہات ،یا جن تخیلات کو پیش کرتے ہیں،سماجی زندگی میں اس کے برعکس مؤقف کے حامل ہوتے ہیں۔ فزکس کا استاد ، مذہب میں شدت پسندانہ خیالات کا حامل ہوسکتا ہے؛ فلسفے کا مؤرخ ،ثقافتی تعصبات کا مظاہرہ کرسکتا ہے،اور ایک شاعر فرقہ وارانہ خیالات کی حمایت کرسکتاہے۔خدااور آخرت کی سزا وجزا میں غیر متزلزل یقین رکھنے والا،بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹتا ہے ۔ لہٰذا ادب ، سائنس، فلسفے اور فکر سے محض تعلق کسی کو دانش ور نہیں بناتا۔دانش وری مسلسل سوال اٹھانے، ہر صورتِ حال کے تمام ممکنہ پہلوؤں پر نظر ڈالنے، ہر مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ،مقبول آرا پر سوالیہ نشان لگانے ،اور سب سے بڑھ کر ہرنئے مسئلے کواس کے اپنے تناظر میں سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ دانش وری کے لیے سب سے بڑا خطرہ آدمی کے بچپن کے تصورات ،اور ماضی وتاریخ کو مطلق صداقتوں کا درجہ دینے میں ہے۔
خلطِ مبحث سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس نکتے کو پیشِ نظر رکھیں کہ چوں کہ ہم ادب اور سائنس وفلسفہ وفکر کو ایک ہی زمرے میں شمار نہیں کرسکتے ، اس لیے ان سب میں دانش وری کا اظہار یکساں انداز میں نہیں ہوتا۔نیز یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ دانش وری کا گہر ا تعلق ترجمانی کے اسلوب سے ہے۔ دانش وری راست، غیر مبہم ترجمانی کا تقاضا کرتی ہے۔سائنسی ،فلسفیانہ ،فکری مضامین میں دانش ورانہ باتیں غیر مبہم پیرائے میں ظاہر ہوتی ہیں،مگر ادب میں نہیں۔ تخلیق کار کا انداز تخیلی اور تاثراتی ہوتا ہے.وہ معلوم دنیا کو بھی نامانوس اسلوب میں پیش کرتاہے۔
صاف لفظوں میں شعر وفکشن کو ہم دانش وری کا حامل کَہ سکتے ہیں،مگر انھیں دانش ورانہ اظہاریہ نہیں کَہ سکتے۔ شعر وفکشن میں بیش از بیش دانش ہوسکتی ہے،مگر یہ تخیلی ،استعاراتی ،علامتی پیرائے میں لپٹی ہوتی ہے؛اسے شعرو فکشن سے دریافت کرنا پڑتا ہے،اس کی تعبیر کرنا پڑتی ہے۔لہٰذا شعرو فکشن پر بعض تنقیدی مضامین دانش ورانہ اظہاریہ ہوتے ہیں۔ اس امر کا احساس بعض اوقات خو دتخلیق کاروں کوبھی ہوتا ہے۔چناں چہ وہ شعرو فکشن لکھنے کے ساتھ ساتھ ،مضامین بھی لکھتے ہیں،خصوصاً جب انھیں کسی سماجی مسئلے یا معاملے پراپنے کسی واضح مؤقف کا اظہار کرنا مقصود ہو۔ معاصر عہد میں ارون دھتی رائے ایک ایسی شخصیت ہیں،جنھوں نے تخلیقی اور دانش ور کے انداز کے اظہاریے میں فرق کی نہایت واضح لکیر کھینچی ہے۔ انھوں نے ناول لکھنا ترک کیاہے ،اور ہندوستان کے مسائل پر راست دانش ورانہ تحریریں لکھنا شروع کی ہیں۔
(جاری ہے)
ناصر عباس نیر صاحب کا یہ مضمون مزید اقساط میں پیش کیا جائے گا دوسرے اور تیسرے حصے کے موضوعات ’’دانش ورو ں کی اقسام‘‘ اور’’سماجی تبدیلی میں دانش ور کا کردار‘‘ ہیں
عمدہ ناصرعباس نیر صاحب۔۔۔۔۔۔ اچھا آغاز ہے مکمل مضمون پڑھنے کے بعد، تفصیلی تبصرہ کیا جائے گا