کہنے کو آج عورتوں کا عالمی دن ہے۔ ایک سال میں 365 دن اور کچھ اعشاریہ ہوتے ہیں۔ لیکن کیا مرد حضرات اپنی دست رس میں موجود 364 دنوں کو رکھ کر کم از کم ایک دن عورتوں کے نام کر سکتے ہیں؟
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہیں!
ہمارے پاکستان جیسے معاشرے میں (مشرق کی تقدیس کے ثناء خوانوں کی دل جوئی کے لیے کہہ لیتے ہیں کہ بَہ قدرے کچھ جمع تفریق کے دنیا کے باقی گوشوں میں بھی) عورت کے مردوں کو بہت فوائد ہیں۔ یہ ہمارے شدید غصے کا درماں بھی ہے؛ بدلے اتارنے کا ذریعہ بھی، غیرت و عزت کی حاملہ بھی: جنسی تسکین کا ذریعہ بھی، خدمت گار اور نوکر بھی، ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اونچی آواز کو سننے والی سامع بھی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بل کہ یہی عورت مرد حضرات کی انا کے گھوڑے کا چارہ بھی ہے۔ یوں تو عورت کا رقص بھی کچھ مردانہ “غلیظ جمالیات” میں مجرا کے نام سے معروف ہے، لیکن اعتدال پسند اور سفید پوشوں کی محفل آرائی میں عورت کی جنس و ذات عدم ذات “خباثت آمیز لطائف” فراہم کرنے کا “سماجی سند و مقبول شد” فعل مکروہ ہے۔
پھر کہیں گے کہ آج محض سال کا تین سو پینسٹھواں دن ہی ہے۔ کہنے کو یوں تو باقی کے تین سو چونسٹھ دنوں جیسا ہی ہے۔ آج بھی بیش تر مسئلے ویسے ہی سنجیدہ ہیں ایسے کہ جن سے اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ کے منصف اعلیٰ کو رات بھر نیند نہیں آئی، آج بھی بھارت نا پاک سازشوں میں مصروف اور افغانستان کرایے کا قاتل و مرکز سازش بنا ہوا ہے، آج بھی مارک زکربرگ کی فیس بک بہت بد تہذیب رویہ رکھ رہی ہے، آج بھی چین پاکستان اقتصادی راہ داری ہی گیمیں چینج کرنے کا ترانہ حکومت و ریاست اور ہمالیہ ہے؛ پر چھوٹی سی عرض سنیے گا، قابل صد احترام مرد حضرات، کہ جن کو ذرائع ابلاغ سے اس دن کا پتا چل گیا ہے وہ کچھ لمحے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکال کر ان معروضات پر غور کرنے کی کوشش کریں۔
آج کچھ توقف کر کے سوچیے کہ کیا یہ انصاف ہے کہ ہم گالیوں کی لسانی تیاری کے لیے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا سہارا لیں؟ کیا ہماری عزت و غیرت کے احساسِ نا روا کو عورت کے علاوہ کہیں اور منتقل کرنا غلط ہو گا؟ کیا ہماری لطیفے بازی کی صنعت عورت کی جنسیت سے باہر کی کوئی تکنیک سمجھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے سے ناقص الفہم و تخلیق ہے؟ کیا ہم مرد اپنے آپ کو عورت کے چال چلن اور رویوں کے معیارات تراشنے سے دست بردار کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں؟ کیا ہم مربیانہ نفسیات سے باہر تازہ ہوا میں سانس لینے کا حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم بَہ طور “صنف سخت جاں” اپنے اندر اتنی ذہنی و نفسیاتی پختہ کاری فراہم کر سکتے ہیں کہ اپنے کردار کی خود وضع کردہ اور متخیلہ عظمت کو دلیل بنا کر عورت کو حاشیے پر سے آواز دے کر مرکز میں جگہ دے سکیں؟
عورتوں کا عالمی دن ملکی و قومی ترقی میں بھی اہم عنوان کا درجہ رکھتا ہے۔ عورت کو با اختیار بنانے میں بڑھتی آبادی جیسے چیلنج سے نمٹنے کے قفل کی چابی ہے۔ عورت کا روز گار کے حصول، معاشی خود مختاری اور اقتصادی میدان میں بھر پُور کردار نام نہاد جی ڈی پی کی نمو میں اہم اشاریوں کے ساختیاتی جمود توڑنے کا سبب ثابت ہو سکتا ہے۔
حکومت و ریاست کو یہ باور کرنے کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے کہ ہر چند کہ عورتوں کی بابت جو کچھ فی زمانہ کیا گیا ہے، وہ سب کچھ اچھے اقدام کے طور پر لیے جانے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ مزید کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
نکتۂِ آخر کے طور پر معاشرے کے افراد کی سمجھ بوجھ کے با اختیار و پُر جلال مہتمموں سے عرض ہے کہ عورتوں کے عالمی دن کے نام لیواؤں کو محض موم بتی مافیا اور مغربی کارندوں کے طور پر نظر انداز کر کے انسانی مساوات و انصاف کے حصول کے راستے میں حائل رہنے کی روش کو اَز سرِ نو سوچیے۔
فحاشی، عریانی اور چادر و چار دیواری کے خوش نُما تصورات کے تحفظ کے نام پر عورت کے لیے کردار کے آسمانی و تاریخی نمونے لازم نا کرتے جائیے کہ عورت کو کسی قدر امن و امان صرف خاموش رہنے ہی میں محسوس ہو۔ اغواء کار اہلِ فکر بھی ہوتے ہیں، بس اتنا یاد رکھیے؛ خیال کیجیے گا کہ ابھی عورت بیداری کا پیغام محض معاشرے کے بالائی طبقات سے نیچے کی طرف چلنا شروع ہوا ہے، کمر بستہ ہو لیجیے کہ کہیں اچانک پتا نا چلے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نا کہ سورج زمین کے گرد؛ اور آپ کو پھر اپنی ساری تشریحی دانش کو استعارہ کہنے میں ہی دفاع نا ڈھونڈنا پڑے۔