تفسیریں
از، نصیر احمد
دوست تو اب کافی مشہور ہو گئے ہیں۔ سچ کی نا موجودگی کے گِلے کرتے اور سچ کی بحالی کی تمنا کرتے کتنے بھلے لگتے ہیں۔ بات بھی ٹھیک ہے، سچ سے بہتر تو واقعی ہی کچھ نہیں ہوتا۔ اور سچ کے غیاب کے بعد جو نفرتیں بڑھی ہیں ان کا مداوا سچ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ سچ کی آج کل یہ جو دُرگت بنی ہے اس میں دوستوں کا بھی بہت حصہ ہے۔ بات تو شرمندگی کی ہے مگر جب اپنے مفادات کے لیے دوست سچ کو ضرر پہنچا رہے تھے، میں بھی وہیں تھا۔ بس ایک سے چھوٹے سے واقعے کے ذریعے میں اپنی بات کی وضاحت کروں گا۔ امید ہے میں آپ پر اپنا نُقطۂِ نظر واضح کرنے پر کامیاب ہو جاؤں گا اور اگر نہیں ہوا تب کیا ہے؟ نا مرادی میرے لیے تو کوئی نئی بات نہیں۔
یہ آج سے بارہ برس پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں میں جولی غفاری کا عاشق تھا۔ جولی کے باپ انگریز تھے اور اس کی ماں الجیریا کی تھیں۔ ان دنوں وہ یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھایا کرتی تھی اور میں اس کی کلاسز لیا کرتا تھا۔ اب میں اتنا پڑھا لکھا تو تھا نہیں لیکن مجھے علمی گفتگو کرنے کا بہت شوق تھا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے محسوس کیا میری علمی گفتگو جولی کے لیے تفریح کی ایک شان دار وجہ بن گئی ہے۔ اور جولی میرے قریب آنے لگی۔ وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ سیاست معیشت، ادب، مصوری، حیاتیات، فلسفہ اور جانے کیسی کیسی علمی مہارتیں اس نے پیدا کر لی تھیں۔
جب وہ ریمبراں کے آرٹ میں روشنی کی تندیوں کے جمال پر کمال پر اپنی تفہیم افزا گفتگو کرتی تو میں یہ جانے بغیر ہی ریمبراں کون ہے اور آرٹ میں روشنی کی تندیوں کے کیا معانی ہوتے ہیں، اپنی آنکھیں مسلنے لگتا تھا، جیسے تیز روشنی سے چندھیا گئی ہوں۔ یہ بات جولی کو اچھی لگتی اور وہ کہتی تم میں اشرف وحشی کی سی حس جمال ہے۔ اگر چِہ تمھیں اصطلاحوں کی شد بد نہیں ہے مگر حسن تمھاری روح کی گہرائیوں میں پیوست ہے۔
ہائے جب وہ حسن میری روح کی گہرائیوں میں پیوست کرتی تو میری بکرے سی شہوت بے قابو ہونے لگتی اور اسے قابو کرنے کے لیے وسکی کے دو تین گلاس چڑھا جاتا۔ بس یوں جانیے جولی اپنی طرف سے اشرف وحشی کو سدھا رہی تھی۔ جانوروں کو سدھانا بہت ہی دل چسپ کام ہوتا ہے اور میرے علمی ذوق کی تشنگی میں کمی ہو رہی تھی۔ اس لیے تفریح کے بعد دوستی کے بعد عاشقی کے مرحلے طے ہو گئے۔
ویسے میرا جی نہیں چاہ رہا کہ میں موضوع کو جولی سے ہٹنے دوں کہ دل کا رشتہ ہے اور جیسے مشروطہ والے شاعر غزلیں لکھتے تھے کہ تمھاری دید کے سوا بینائی کا فائدہ ہی کیا ہے، لیکن پھر بات بڑھے ہی گی نہیں۔ خیر جولی کی وجہ سے مجھے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میری بھی ان سے گپ شپ ہو گئی۔
لیکن میں نے محسوس کیا کہ تمام تر شریفانہ آداب کے با وجود ان کے ہاں میرے لیے ایک حقارت موجود تھی۔ اور اس حقارت کی موجودگی کے احساس کی وجہ سے میں بھی انھیں اتنا پسند نہیں کرتا تھا مگر جولی کی وجہ سے معاملات کبھی دھینگا مشتی تک نہیں پہنچے۔ البتہ وہ ادق ادق اصطلاحوں کے ذریعے مجھ پر وار کرتے رہتے۔ میں چوں کہ دنیا دار ہوں، اس لیے میں بھی سمجھ گیا تھا کہ ان لوگوں کو بھی بس اصطلاحیں ہی آتی ہیں اور اصطلاحوں سے وابستہ تصنع پر ہی فریفتہ ہیں، اس لیے کبھی کبھار میں انھیں زندگی کے حقائق کے دورے پر لے جا کر بدلہ لے لیا کرتا تھا۔ بہ ہر حال ایک تلخ سی کمینگی ہم لوگوں کے درمیان موجود تھی جس کو جولی سے باہمی تعلق خاطر کی وجہ سے ہم سنبھالے رہتے تھے۔ اور اس سنبھالنے کی وجہ سے تلخ سی کمینگی کے با وجود ایک دوسرے کے لیے کچھ پسندیدگی بھی تھی جو میل جول کے بعد پیدا ہو ہی جاتی ہے۔
تو وہ واقعہ کچھ یوں ہے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ کسی ٹرین سٹیشن کی کوئی انتظار گاہ تھی یا کوئی کانفرنس ہال، لیکن اس دن وہاں سب پڑھے لکھے لوگ موجود تھے۔ جس ملک کی میں بات کر رہا ہوں، وہاں کی انتظار گاہوں میں صفائی ستھرائی بھی ہوتی ہے اور ایک خاموشی بھی ہوتی ہے۔ سب لوگ اپنی اپنی پڑھائی میں گم ہوتے ہیں۔ اور کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا ہوتا۔ ہاں اگر کچھ ایک دوسرے کو جاننے والے ہوتے ہیں تو وہ سرگوشیوں میں کسی کو کسی قسم کی تکلیف دیے بغیر اپنی بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر ایسے ہی ہوتا ہے۔ اچانک ایک کونے سے ایک درد بھری صدا ابھری کہ پلیز مجھے ایک گلاس پانی پلا دیں۔
عارفہ نے یہ صدا سنی تو بھنا سی گئی۔ عارفہ ایک مقامی اخبار میں کام کرتی تھی۔ اسے لگا پکارنے والا اس کا ہم رنگ ہے یا اس کے آبائی وطن کا ہے۔ وہ بڑبڑانے لگی کہ اپنے ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں بد نامی کی وجہ بن جاتے ہیں۔ یہ کبھی تہذیب نہیں سیکھیں گے۔ اسے کوئی پانی وانی نہیں چاہیے، بس اپنی قوم کو بد نام کرنے کے لیے یہ لوگ ہر سطح پر گر جاتے ہیں۔
جیک اور میگن ایک انتہا پسند قومی پارٹی سے وابستہ تھے۔ وہ آنکھیں گھما کر ہاتھ پھیلا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے سر گوشیاں کرنے لگے۔
پتا نہیں ہمارے لوگ کب سمجھیں گے۔ فوسٹر نے سچ کہا ہے، مشرق اور مغرب کا جب بھی سنگم ہو گا، بربادی رُو نما ہو گی۔
ہاں جیک، ہم انھیں پانی بھی ہم پلائیں۔ کام کرتے کرتے ہماری زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ لیکن ان کو مفت میں سب ملا ہوا ہے، گھر، تعلیم، صحت، تفریح، سب کچھ مفت۔
ہاں میگن، اور پانی کسے چاہیے، یہ تو ہماری سنگ دلی کی مشہوری کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ دنیا کو پتا چلے سفید فام ایسے لوگ ہیں جو کسی کو پانی ہی نہیں پلاتے۔
مزید و متعلقہ: سچ کہنے کی مشکلات از، ارشد معراج
ہم سب کے اپنے اپنے سچ کیوں ہیں؟ از، ارشد محمود
حافظ احمد اللہ بھی ایک نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سمجھے پانی کے لیے پکارنے والا کوئی انگریز ہے۔ بعد از تسبیح وہ اپنی زبان میں یوں فرمانے لگے۔
ان انگریزوں کو دیکھو، یہ کتنے خنزیر ہیں، ایک دوسرے کو پانی تک نہیں پلاتے لیکن مشرق وسطیٰ کا تیل انھیں ضرور چاہیے۔ بار الہا، اسے پیاسا ہی مار دے، تا کہ ایک خنزیر تو کم ہو۔ اور کیا پتا اسے پانی چاہیے بھی کہ نہیں۔ ہو سکتا ہے عالمِ اسلام کے خلاف کوئی گہری سازش کر رہا ہو اور میں پانی پلانے کی نیکی کے دھوکے میں اپنی ملت کو ہی نقصاں پہنچا بیٹھوں۔
ڈینئیل بھی وہاں موجود تھے۔ وہ ایک بہت بڑی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے ۔ اور اس کمپنی نے اپنے ملازمین کے لیے ایک طرزِ حیات طے کیا ہوا تھا۔ ڈینئیل اس طرز حیات کی پورے خلوص سے پیروی کرتے تھے۔ وہ کہنے لگے۔
اب یہ لوگ حکومتی فواید کا بلات کار کرتے رہیں گے لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کریں گے۔ اور احساس ذمہ داری میں نا کامی کو چھپانے کے لیے حکومت کی کار و بار دوست پالیسیوں کو نا کام بنانے کے لیے کیا کیا ڈرامے کیے جا رہے ہیں؟ پانی چاہیے تو لے لو ناں، اس کے لیے یونانی المیہ برپا کرنےکی کیا ضرورت ہے؟
ہایڈی سٹیڈیم میں ایک کلرک تھی۔ وہ ڈینئیل سے کہنے لگی۔
ڈینئیل، یہ لوگ کوئی مہارت نہیں سیکھنا چاہتے، بس حکومت پر بوجھ بنے، حکومت کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ تو با قاعدہ تحریک بن گئی ہے۔ جہاں کوئی امیر آدمی دیکھتے ہیں، وہاں پانی پانی چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری انسان دوستی کو ہمارے ہی استحصال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب دکھاوے کی غربت ہے۔ ایک دن اگر افریقہ کے کسی ملک میں گزارنا پڑ جائے تو ہو ش ٹھکانے آ جائیں۔
اب جولی کسی سے کیسے پیچھے رہتی۔
دیکھ رہے ہو، طاقت معاشرے میں کیسے پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے ایسے تخلیقی پیرائے طاقت استعمال کرتی ہے کہ ان کی تفہیم کے لیے فلسفی ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔ یہ آدمی پانی نہیں مانگ رہا بل کہ واقعۂِ کربلا کو جبر کے خلاف ایک استعارے کو طور پر برت رہا ہے کہ طاقت کو خبر ہو کہ اس کا پھیلاؤ زندگی سمیٹ رہا ہے۔ یہ سمٹتی زندگی دشت کی وہ تصویر ہے جو طاقت کو عُریاں کر رہی ہے۔ بس طاقت کی عریانی میں ہی نجات کے کچھ امکانات ہیں۔ لیکن طاقت چوں کہ ہر طرف سے دیکھ رہی ہے، وہ کوئی نئے معانی تراش لے گی۔ اور جبر کے خلاف یہ فریاد آب بذاتِ خود جبر بن جائے گی کیوں کہ طاقت ہی سچ تخلیق کرتی ہے اور جہاں زیادہ طاقت ہو گی وہاں زیادہ سچ ہو گا۔ طاقت کے اس چکر سے ہم نہیں نکل سکیں گے۔ بس فریاد کی معصومیت کی داد ہی دیتے مر جائیں گے۔
شاید جولی کواتنی گہری گفتگو کی بجائے اس فرد کو پانی پلا دینے چاہیے تھا مگر میں کیا کہہ سکتا ہوں دانش ور تو جولی ہی تھی۔
جب جولی نے یہ کہا تو شارلٹ کب چپ رہتی۔ وہ سمجھی کہ انتظار گاہ میں یہ بے حسی اس صدا کی نسوانیت کے باعث ہے۔ وہ نسوانی بر تری کی ایک انجمن کے لیے کام کرتی تھی۔
ہائے اس صدا کا مقدر، اینِٹگنی Antigone کے زمانے سے ہی مردوں کی بے حسی ہے۔ لیکن یہ مردوے بے شک کان بند کیے بیٹھے رہیں مگر ہم احتجاج کے وہ طریقے تراش لیں گی کہ ایک دن تو انھیں سچ کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اب احتجاج زندگی کی بنیادی ضرورت کی شکل میں رُو نما ہو رہا ہے اور زندگی کی بنیادی ضرورت کی صدا خاتون کی آواز ہے۔ خاتون کی مقدس آواز جو اجداد کی ہڈیوں سے متبرک ہے۔ میں اس صدا کی قوس قزح بناؤں گی اور اس قوس قزح سے تب تک لپٹی رہوں گی جب تک قرنے نہیں پھونکے جاتے۔ اور وہ پانی پانی چلاتے ہوئے ناچنے لگی اور تھوڑی دیر بعد غش کھا کر بے ہوش گئی۔
یہ سب ایک ایشیائی قوم پرست بھی سن رہے تھے۔ ان دنوں ان کے ملک میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے ایک ڈیم بنانے کا غلغلہ برپا تھا۔ وہ یوں گویا ہوئے۔ ہائے بے درد استعمار، یہ سنگ دل سامراج، یہ بے رحم استبداد۔ ان کی تو لغت میں ہی ہم موجود ہیں مگر یہ اس درد آشنا دل نے غم کے اظہار کا رستہ ڈھونڈ ہی لیا ہے۔ پکارتے چلو دوستو، وہ گھڑی اب قریب ہے، جب قطرہ قطرہ ایک ڈیم بن جائے گا۔ کوئی عالمی سازش ہمیں اپنی منزل سے دور نہیں کر سکتی۔
اب مجھ سے اور رہا نہیں گیا۔ میں نے غصے سے سب کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔ خدا کے لیے اسے کوئی پانی دے دو۔ اور اس فرد کی طرف پانی کا ایک گلاس لیے بڑھنے لگا۔ لیکن مجھے دیر ہو چکی تھی۔ وہ فرد پیاسا مر گیا تھا۔ مجھے معلوم ہے وہ کون تھا، لیکن میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ ان کی طرف پلٹ کر دیکھا اور کہا۔
اچھے لوگو، یہ شخص تو پیاسا مر گیا اور اس لیے مر گیا کہ ہم لوگ احمق ہیں، اپنی تصنع اور اپنے تعصب میں بھول گئے ہیں کہ پانی کا مطلب پانی ہی ہو سکتا ہے۔ اور اگر تم لوگوں نے یہ روش جاری رکھی تو پولیس کا مطلب پولیس نہیں رہے گا، ہسپتال کے معنی ہسپتال نہیں رہیں گے اور انسان کے معنی انسان نہیں رہے، یہ تو میں دیکھ ہی رہا ہوں۔
اس کے بعد میں نے جولی کی طرف دیکھا اور مجھے پتا چل گیا کہ میری علمی گفتگو کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ آج کل جولی اور شارلٹ سچ کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں لیکن لگتا ہے اس بار بھی دیر ہو گئی ہے۔
خیر جس فرد کی زندگی ہم نے چھینی تھی اس کی موت کی رسومات کا میں نے بڑی عقیدت سے انتظام کیا کہ میں جس علاقے سے آیا تھا وہاں موت زندگی سے زیادہ معتبر گِنی جاتی تھی۔
ایک اور اہم بات جو میں آپ کو بتانا چاہوں گا وہ دوسرے دن کے اخبار میں اس حادثے سے متعلق چھپی سرخیاں کچھ یوں تھیں۔
عارفہ کے اخبار میں یہ سرخی نمایاں تھی:
عارفہ نے پیاسے کی جان بچانے کی پوری کوشش کی مگر موت رکتی نہیں۔
جیک اور میگن کے پسندیدہ اخبار میں خبر یوں تھی:
حملہ آور مقامیوں کو بد نام کرنے کی ذلیل کوشش کے دوران جہنم رسید۔
حافظ احمد اللہ نے یہ واقعہ یوں ٹویٹ کیا:
خنزیر خنزیروں کی بے رحمی کا شکار لیکن ملت خنزیروں کی سازش سے محفوظ۔، اللہ اکبر۔
ڈینئیل اور ہائیڈی کے من پسند اخبار میں خبر یوں شائع ہوئی:
قدرت کی ستم ظریفی۔ نکمے موت کا کھیل کرتے کرتے واقعی مر گئے۔
مگر حکومت کی سچ بتانے کی کوشش نا کام۔
جولی اور شارلٹ جو اخبار پڑھتی ہیں، اس نے خبر یوں بیان کی:
تخلیقی کرب کی انتہائیں موت سے ہم کنار مگر بے رحم تفریق قہقہہ بار۔
اور ان ایشائی نے اپنے ملک کے سب سے اہم جریدے میں یہ خبر یوں بھیجی:
ڈیم، ہمارے سپنے پر ایک کاری وار، پوری امت سوگوار۔
میں جسے سچ معلوم تھا مگر میں کسی اخبار والے کو جانتا نہیں تھا۔ اس وقت بھی صحافیوں کو بتانے کی کوشش کی مگر کسی نے نہیں سنی۔ جیسے اس وقت میں نے کہا تھا وہی ہوا۔ لفظ معنی کھو بیٹھے اور سچ سے زبان و بیان کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ تفسیروں کی اتنی بہتات ہوئی کہ سچ جاننا نا ممکن ہو گیا تو میں نے سوچا یہ واقعہ اب کو بتا دوں تاکہ آپ جولی اور شارلٹ کی سچ کی بحالی میں شاید کچھ مدد ہی کر دیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.