انتفادہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ فلسطینی بچوں سے دشمنی ہے؟
از، مجاہد مرزا
جھاڑنے، جھٹکنے اور جھنجھوڑنے سے پیدا ہونے والا ارتعاش، کپکپی یا جھرجھری ”انتفادہ“ کہلاتی ہے۔ مگر 1980 کے عشرے سے فلسطین کے نوجوان،اسرائیل کو خود سے ”جھاڑ پھینکے“ یا اس سے ”جان چھڑانے“ کی خاطر اپنی قوم اور دیگر اقوام کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی خاطر احتجاج کے ایسے طریقے اختیار کرنے کو جن میں تصادم اور تشدد کم سے کم ہو ”انتفادہ“ کا نام دیتے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل کے اندر انتفادہ کی جو نئی شکل سامنے آئی ہے وہ اس معنی پر اس لیے پوری اترتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ پہلے تو اس میں مزاحمت کا اجتماعی اظہار نہیں ہے بلکہ یہ اظہار انفرادی طور پر کیا جا رہا ہے، دوسرے یہ کہ اس میں تشدد کا کھلا عنصر شامل ہے۔
انتفادہ کی اس نئی شکل میں کوئی ایک فلسطینی عرب کسی راہ چلتے یا بس میں سوار یہودی پر چاہے وہ بوڑھا ہو یا جوان ، عورت ہو یا مرد چاقو یا چھری سے وار کرتا ہے۔ اس وار سے لوگ مرے بھی ہیں لیکن بیشتر زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس چونکہ اسرائیل کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مستعد اور جارح ہیں چنانچہ ان کا ردعمل غیر مساوی ہوتا ہے، وہ بجائے اس کے کہ ایسے شخص پر قابو پا کر اسے گرفتار کرنے کی کوشش کریں، اسے براہ راست گولی کا نشانہ بنا دیتے ہیں یوں ”انتفادہ“ کی یہ نئی اور بظاہر احمقانہ شکل اختیار کرنے والے کم و بیش سارے مارے گئے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ایسے جرائم میں زیادہ تر کم عمر نوجوان لڑکے، جن کی عمریں تیرہ سے سولہ سال ہیں، ملوث ہیں، چنانچہ کم عمر بچوں کا تشدد کی جانب مائل ہونا اور پھر پولیس کی گولیوں سے مارا جانا دہرے تاسف کا موجب ہے۔
انتفادہ کی اس نوع کے پیچھے اگر درست کہا جائے تو اسرائیل کے متشدد وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کا نیا انتہائی غیر مساوی حکم ہے جسے اب قانون کی شکل دی جا چکی ہے کہ اسرائیل کے قانون نافذ کرنے والوں کے خلاف سنگ باری کرنے یا غلیل سے نشانہ بنانے والوں پر بھی گولی چلا دینی چاہیے۔ نوجوان جو پہلے سنگ باری اور غلیلیں چلا کر اسرائیلی قابضین کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے تھے، نے یہ سوچا کہ مرنا تو ہر صورت میں ہے تو کیوں نہ کسی یہودی کو مار کر مرا جائے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب رپورٹروں نے مارے جانے والے حملہ آور لڑکوں کے ہم عمر تیرہ چودہ سالہ بچوں سے یہ سوال کیا کہ ”آپ جب اپنی عمر کے لڑکوں کو یہودیوں پر چاقو یا چھری کے وار کرتے دیکھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟“ تو ان میں سے بیشتر نے مسکرا کر جواب دیا،” اچھا لگتا ہے، وہ درست کرتے ہیں، ہم عربوں کو یہودیوں پر حملہ کرنا ہی چاہیے“۔
نیتن یاہو کی غیر مساوی اور جینیوا کنونشن کے برخلاف پالیسی کے علاوہ انتفادہ کی اس نئی شکل کے پیچھے وہ عمومی تشدد پسندی اور تشدد آرائی بھی کارفرما ہے، جو پہلے عرب حکومتوں نے روا رکھی جسے پھر ان حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں نے اختیار کیا، اور بعد میں وہاں در آنے والی بنیاد پرست تنظیموں، بالخصوص داعش نے تشدد پرستی کو معراج دے ڈالی۔ کیسے کیسے مظالم نہیں کیے گئے جن کا عشر عشیر ذرائع ابلاغ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے۔
ماہرین نفسیات عرصہ دراز سے آگاہ ہیں کہ تشددپرستی خام نوجوان ذہنوں کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ ان کو تشدد دہی میں تلذذ مضمر دکھائی دیتا ہے۔ کم عمر چونکہ عموماً بڑوں کی نسبت کمزور ہوتے ہیں، تشدد درحقیقت کمزور کا ہتھیار ہے۔ اس لیے انہیں یہ وطیرہ اختیار کرتے ہوئے کچھ زیادہ نہیں سوچنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسند بنیادپرست تنظیمیں کم عمر لڑکوں کو تربیت دیتی ہیں کیونکہ وہ اپنے عمل میں زیادہ سفاک اور زیادہ مستعد ہوتے ہیں، اس کی وجہ بھی زندہ رہنے کی تگ و دو کرنے والی جبلت ہوتی ہے۔
دوسری بات جو کم عمر خام ذہن نوجوانوں کے مغز میں جلد گھر کر لیتی ہے وہ اپنے طور پر درست کام کرنے کا انجام کار بھاری جزا ملنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان جب یہ کہتے ہیں کہ ہم عربوں کو یہودیوں کو نشانہ بنانا چاہیے تو اس کے پیچھے قوم پرستی کے جذبے کے علاوہ جزائے اولیٰ پانے یعنی بہشت نشین ہونے کی آرزو بھی ہوتی ہے۔
تھوڑے عرصے تک تو یہی سمجھ نہیں آتا تھا کہ انتہا پسند فلسطینی تنظیموں کی جانب سے وہ مہتابی نما میزائل کیوں داغے جاتے ہیں جو شاید ہی کسی کا کچھ بگاڑتے ہوں لیکن اس عمل کے نتیجے میں اسرائیل کی فضائیہ اور توپخانہ قیامت توڑ دیتا ہے جس کے سبب بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ اب یہ سمجھ نہیں آتی کہ انتفادہ کی یہ نئی لہر کس لیے پیدا کی گئی ہے تاکہ اپنے نوعمر جوان لڑکوں کو مروایا جائے اور دنیا میں ان کے خلاف پرچار کروایا جائے کہ وہ نہتے لوگوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرے لیے یہ نیا ”انتفادہ“ عجیب ہے، آپ کیا کہتے ہیں اس معاملے میں؟
بشکریہ: لکھاری و دنیا پاکستان