انتہا پسندی کا بڑھتا رجحان اور ادب و فن
از، حُر ثقلین
پاکستانی معاشرے میں تشدد کارجحان خطرناک حدتک زورپکڑ رہاہے۔ آئے روز ایسے واقعات میں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے کہ جن میں تشددکاعنصرکافی زیادہ ہے لوگوں میں عدم برداشت کامادہ زیادہ ہے اورصبروتحمل کافقدان ہے معاشرہ بربریت کاشکارہے انسان انسان پرہی ظلم کرنے سے بازنہیں آرہا اگر ہم انسانی تاریخ کامطالعہ کریں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ابتداء میں انسان طاقت کا بھرپوراستعمال کرتا تھا دوسرے پرسبقت اور تسلط کے شوق نے اسے جنونی حدتک ظالم بنا رکھا تھاجوں جوں انسان نے علم اور آگاہی کا سفر شروع کیااس نے اپنے اندرموجوداس صفت کو حلم بردباری برداشت اورصبرمیں تبدیل کردیاہے یہی وجہ ہے کہ جن معاشروں میں علم وادب نے ترقی کی وہاں سے ظلم اور بربریت کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔
قیامِ پاکستان کے وقت یہاں لوگوں کے حالات بہترتھے اوران کاطرزِزندگی سلیقہ مندی کاآئینہ دارتھامروت ،بھائی چارہ، خلوص، محبت اوراحترام کے رشتے موجودتھے انسان کی قدراورشرافت کی اہمیت بھی موجودتھی اس کی بڑی وجہ لوگوں کاعلم وادب اورفنونِ لطیفہ کی اعلیٰ روایات پرکاربندہوناتھامغلوں نے جب برصغیرپراپنی حکومت قائم کی توانہوں نے فن اورادب کی سرپرستی بھی کی ان کے دورمیں معاشرے میں علم وادب کوفروغ ملاشاعری ،فنِ مصوری، موسیقی، خطاطی اورقص نے حکومتی سرپرستی میں کافی ترقی کی امیرخسروکے دورمیں شروع ہونے والایہ سفرقیامِ پاکستان کے بعد70کی دہائی تک بھرپوراندازمیں عوامی سطح تک جاری رہا۔ جس معاشرے میں علم وادب اورفنونِ لطیفہ رائج ہوں اورافراد کی ان میں دلچسپی ہووہاں انتہاپسندی اوردہشت گردی کوپنپنے کاموقع نہیں ملتالوگوں کوان کے جذبات کے اظہارکے بھرپورمواقع ملتے ہیں ترقی پسندقوتیں پروان چڑھتی ہیں مکالمے کوفروغ ملتاہے جس سے ایک دوسرے کے نظریات اورعقائدکوسمجھنے میں مددملتی ہے اظہارِرائے کاطریقہ تلوارکی بجائے قلم ہوتاہے لوگوں کی دلچسپی کے مواقع زیادہ ہونے کی صورت میں انکی توجہ انسانیت کے احترام پرمرکوزہوتی ہے-
ادب اور فن نے ہمیشہ احترامِ آدمیت کادرس دیاہے محبت، اخوت اوربھائی چارے کی فضاء برقراررکھی ہے اہلِ ادب وفن ہمشیہ سے عدم تشددکے قائل رہے ہیںیہی وجہ ہے کہ آج تک اس شعبے سے تعلق رکھنے والانہ کبھی دہشت گردبناہے اورنہ ظالم انہوں نے اپنے نظریے کے پرچارکے لیے ہمیشہ قلم، برش ، رنگ، مٹی وغیرہ کااستعمال کیاہے شاعری ،ڈرامہ ،نثر،ناول ،مصوری ،مجسمہ سازی، فنِ خطاطی اوردیگرفنون ہمیشہ سے اظہارِ رائے اورنظریات کے پرچارکے مؤثرطریقے رہے ہیں اسی وجہ سے معاشرے میں جمہوری کلچرپروان چڑھتاہے اورجمہوری اقدارکوفروغ ملتاہے غیرجمہوری قوتیں ہمیشہ سے فن اورادب کے خلاف رہی ہیں انہوں نے اس کے فروغ میں ہرطرح سے رکاوٹیں ڈالی ہیں-
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعدپاکستانی معاشرے پرانتہاپسنداورغیرجمہوری قوتیں آہستہ آہستہ قابض ہوناشروع ہوگئیں ان آمرانہ قوتوں نے علم وادب اورفنونِ لطیفہ پرآہستہ آہستہ پابندی لگاناشروع کردی اوراسکی حوصلہ شکنی کی یہاں تک کہ سکولوں میں بزمِ ادب کاپریڈتک ختم کردیاگیایہ سب ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت تھاجس کے تحت نئی نسل کوجمہوری سوچ اورترقی پسندخیالات سے دوررکھناتھااورانہیں قدامت پسندی اورانتہاپسندی کی طرف مائل کرناتھایہی فرسودہ سوچ آج انتہاپسندی اور دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے ابھرکرآئی ہے ۔ ایسے عناصرکا نظریہ طاقت، قتل وغارت اورکُشت وخون کے ذریعے اپنی بات منوانا اوردوسروں پرمسلط کرناہے جب ملک میں ایسے واقعات روزبروزہوں گے توعام آدمی اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتاان کی سوچ بھی اس ظالمانہ سوچ سے متاثرہوگی وہ بھی اپنے عام روزمرہ کے فیصلے طاقت کے بل بوتے پرکرے گے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی معاشرے میں تشددکاعنصرکسی بھی دوسرے معاشرے سے زیادہ پایاجاتاہے-
اگرچہ کے آج جمہوری دورہے مگرسوچ وہی آمرانہ ہے حکمران ذہنی طورپرملوکیت کے دلدادہ ہیں نام اورنظام بدلنے سے سوچ وفکرتبدیل نہیں ہوتی موروثی سیاست اورحکمرانی نے بھی پاکستانی معاشرے کوتباہ کرکے رکھ دیاہے چندخاندانوں کے کی حکمرانی نے بھی مایوسی کوفروغ دیاہے مفاہمت مافیہ نے اخلاقی قدروں کوکھوکھلاکرکے رکھ دیاہے عام آدمی کی سیاست اورملکی امورسے دوری نے بھی معاشرتی رویوں میں بگاڑپیداکیاہے آج پوری پاکستانی قوم کوآمرانہ سوچ اورملوکیت نے یرغمال بنارکھاہے جبراورتشددکانظریہ پاکستانی معاشرے میں گھر کرچکاہے جس کاانجام ایک خطرناک تباہی کے سواکچھ نہیں ہے ۔موجودہ انسانی رویوں اوراخلاقی قدروں کوبدلنے کی ضرورت ہے معاشرے سے ظلم وتشددجبراورنفرت کے خاتمے کے لیے اب ادیبوں،فنکاروں،دانشوروں اوردیگرفنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کواپنابھرپورکرداراداکرناہوگامعاشرے میں موجوداس جمودکوتوڑناہوگاانسانی ذہن کی فکری تربیت نہایت ضروری ہے جبروتشددکے مقابلے میں محبت،خلوص،پیاراوراحترامِ انسانیت کے جذبے کوفروغ دیناہوگاقانون کی حکمرانی اورصحیح جمہوری سوچ ہی معاشرے کوترقی کی طرف لے جاسکتی ہے-
حکومت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ معاشرے میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کومحسوس کرے اورلوگوں کی فکری تربیت صحیح معنوں میں کرے اعتدال پسندی کو فروغ دے اوراپناکرداراداکرے ملک میں موجود تمام سیاسی اور ترقی پسند جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اوران کوبھی اپنے اندرسے ملوکیت کوختم کرناہو گا اورجمہوری سوچ کوپروان چڑھاتے ہوئے معاشرے کوانتہاپسندی اوردہشت گردی سے بچاناہوگااگرانہوں نے ایسانہ کیاتوکہیں خدانہ خواستہ ملک اورحکومت ان بے رحم عناصر کے سپرد ہو جائے اور اگرایساہواتوایک طویل تاریکی ہمارا مقدرہوگی۔