باز کلامی کا باز نویس : انتظار حسین
معراج رعنا
Experience which is passed on from mouth to mouth
is the source from which all story teller have drawn.
And among those who have written down the tales
it is the great ones whose written version differs least
from the speech of the many nameless story tellers
The Story teller, Walter Benjamin, p.12, Modern Criticism and Theory, Edited by David Lodge, 1988
والٹر بنجمن (1892.1940) کے مذکورہ اقتباس میں بالواسطہ طور پر زبانی روایت یعنی oral tradition یا اُن تجربوں کو ایک بڑے ذریعے کی حیثیت سے قبول کیا گیا ہے جن سے تمام قصہ گو حسبِ استعداد استفادہ کرتے رہے ہیں یا استفادہ کر چکے ہیں۔ لیکن قصہ گویوں میں بھی بنجمن اُن کو زیادہ اہمیت کا حامل تصور کرتا ہے جو زبانی قصے کو تحریری شکل عطا کرتے ہیں۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے قصے کا قِصائی مزاج یعنی fable nature ایک حد تک اُن زبانی قصوں سے مختلف ہو جاتا ہے جن کے متعدد قصہ گویاں (آج) معدوم الاسم سمجھے جاتے ہیں۔
سچائی بھی یہی ہے کہ جب ہم کسی زبانی قصے کو مرقوم کرتے ہیں تو وہ اُس طرح معرضِ تحریر میں نہیں آتا جس طرح وہ سُنا اور سُنایا جاتا ہے۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سُنی ہوئی بات، دہرایا ہوا بیان اورکہی ہوئی کہانی لکھ دی جانے کے بعد تبدیل کیوں ہو جاتی ہے؟جب کہ کسی بات،بیان اور کہانی کو سُنانے کے لیے بھی الفاظ مطلوب ہوتے ہیں اور تحریر کا وجود بھی الفاظ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ تاہم اگر یہاں الفاظ کو اس کا بنیادی سبب ٹھہرایا جائے تو یہ بات سب کے لیے قابلِ قبول نہ ہوگی۔
[su_quote]لیکن اس حقیقت کا شائد ہی کوی منکر ہوگا کہ الفاظ کی کار کردگی تحریر کے عالم میں دوسری اور زبانی تکلمیت یعنی oral narratology میں الگ ہوتی ہے۔ اور یہ فرق اس لیے ہوتا ہے کہ قصہ گو یا متکلم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اُسے سامعین کے رو بہ رو کسی کہانی یا قصے کو سُنانے پر مامور کیا گیا ہے۔ لہٰذا خود پر لازم کر لیتا ہے کہ وہ اُنھیں الفاظ کو منتخب کرے گا جو اپنی خارجی اور داخلی ساخت و پرداخت میں حد درجہ بلند آہنگ واقع ہوئے ہوں۔ اس لیے یہاں سوز و گداز کا منظر نامہ بھی سبک روی کے برعکس پُر آہنگ بین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پُر آہنگ بین کا تعلق مرثیے سے ہے،اور مرثیے کا تعلق پڑھنے سے کہیں زیادہ سُننے اور سُنانے سے رہا ہے۔ مرثیہ ہی کیا ہر نوع کا زبانی متن بلند آہنگی کا متقاضی ہوتا ہے کیوں کہ اس کے پیشِ نظر سامعین کا ایک حلقہ ہوتا ہے۔[/su_quote]
یہی معاملہ زبانی قصے کو لکھتے وقت بیان کنندہ کو بھی پیش آتا ہے۔ یعنی وہ بھی غیر شعوری طور پر خود کو اپنے قارئین سے گھرا محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہاں قارئین کی موجودگی اُس کے رو بہ رو نہ ہو کر دور دراز واقع ہوتی ہے لیکن ہوتی بہر حال ہے۔ اس لیے جب وہ دوسری زبان یا ملک کا کوئی قصہ اپنی زبان میں تحریر کرنے بیٹھتا ہے تو اُس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُسے اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت کے کسی نہ کسی پہلو یا تہذیب و ثقافت کے کسی نہ کسی عہد سے ضرور مربوط کرے تا کہ اُس پُرانے قصے یا بیان میں نئی معنویت کی تخم کاری ہو سکے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر بین المتونیت یعنی intertextuality کی عمارت قائم ہے، اس لیے زبان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تہذیبی پس منظر، معاشرتی رکھ رکھاؤ اور افراد کی صورتِ حال بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سوئس ماہرِ لسانیات سوسیور کی تقریری خالصیت اور تحریری غیر خالصیت کے نظریات کے مطابق کہا ہو قصہ یا بیان معرضِ تحریر میں آکر بدل سا جاتا ہے۔یہی تبدیلی ہمیں پُرانے قصے یا بیان کو نئے نقطۂ نگاہ سے پڑھنے کی دعوت دیتی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہر بڑی تخلیق میں اشیا ، افراد اور معاشرہ اُس طرح نظر نہیں آتا جس طرح خارجی دنیا میں اُن کی وجودی حیثیت قائم و دائم ہوتی ہے۔اس لیے یہاں اشیا،افراد اور معاشرے کا ادراک عام اشیا،افراد اور معاشر ے کے ادراک سے یکسر نہیں تو ایک بڑی حد تک مختلف ضرور ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان کے توسط سے فن کار اپنی تخلیق میں ایک ایسی معنویت خلق کرتا ہے جو اصل اشیا،افراد اور معاشرے کے رائج الوقت تصور سے پیدا نہیں کی جاسکتی۔
قرۃ العین حیدر کی طرح انتظار حسین اردو کے ممتاز افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنی کہانیوں میں افراد اور معاشرے کو رسومیاتی طور پر نہیں برتا کیوں کہ اُنھیں نئی معنویت خلق کرنی تھی۔ ناول میں یہ کام قرۃ العین حیدر نے کیا ہے۔ اس لیے” آگ کا دریا “کے ابوالمنصور کمال الدین یا “آخرِ شب کے ہمسفر” کے ریحان الدین احمد کو نہ تو سُوری عہدِ حکومت کے کسی عرب مورخ کی حیثیت سے قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بنگال کے کسی انقلابی رہنما کے طور پر ان کی شناخت ممکن ہے۔
اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ ناولوں کے زمانی دائرے سے ایک ایسے معاشرتی نظام کی دریافت ممکن ہے جہاں منصور اور ریحان جیسے افراد اپنے ہونے کا ثبوت چھوڑ گئے ہوں۔لیکن اس سے زیادہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ ان کی وجودی حیثیتیں ناول کے تناظر میں یقین کی صورت اختیار نہیں کرتیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ انتظار حُسین اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔ لیکن اُن کی بڑائی محض اس بات میں مضمر نہیں کہ اُنھوں نے اپنے افسانوں میں معاشرے اور افرا د کے مروجہ تصورات کو رد یا تبدیل کر کے قصے کی بُنت کی ایک نئی بنا ڈالی۔ اگر اتنی سی بات سے کوئی افسانہ نگار عظمت کے منصب پر فائز ہو جاتا تو انتظار حُسین کی نسل کے بعد افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد ہمارے سامنے موجود ہے جو آئے دن اس طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے لیکن اُن میں سے کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جن کے تجربے نظرِ استحسان سے دیکھے جانے کے قابل ہیں، پھر بھی اُن میں وہ پختگی نہیں جو انتظار حُسین کے افسانوں کی بنیادی صفت ہے۔
عام طور سے انتظار حُسین کے افسانوں کا اسلوبیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے،اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے لیکن اس میں ایک بڑے خطرے کا امکان ضرور موجود ہے کہ بعض وقت بلکہ یوں کہیے کہ اکثر اوقات ہم اُن کے اسلوبیاتی مطالعے میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اتنے دور چلے جاتے ہیں جہاں سے افسانے کے باریک کوشے پر ہمارے لیے نظر مرکوز رکھنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ تاہم ہمارا سارا زور افسانے کے ظاہری حُسن کو نمایاں کرنے میں صرف ہو جاتا ہے،اور کہانی کو کہانی بنانے والے عناصر کی نشان دہی معرضِ التوا میں پڑ جاتے ہے۔ انتظار حُسین کے افسانے کے بارے میں اکثر یہ باتیں سننے اور پڑھنے میں آتی ہیں کہ اُن کے یہاں دیو مالائی، اساطیری، جاتک روایت،مذہبی قصص، متصوفانہ ملفوظات، انجیلی آیات اور ویدی نغمات کے ویلے سے کہانی کہنے کا رویہ نمایاں ہے۔ چونکہ یہ رویہ انتظار حُسین سے پہلے باقاعدہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لہٰذا یہی اُن کے افسانوں کا اختصاص قرار پا جاتا ہے۔ اور عظمت والی ساری کی ساری بحث اسی نکتے پر آکر تمام ہو جاتی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انتظار حُسین کے یہاں یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن محض ان کی موجودگی کو افسانے کی عظمت کی دلیل بنانے پر اختلاف کی اچھی خاصی گنجائش نکل آتی ہے۔ پُرانے قصے پر نئے قصے کی بنیاد ڈالنا یا کہی ہوئی بات کو از سرِ نو کہنا یا دہرانا کمال نہیں (جیسا کہ والٹر بنجمن نے کہا ہے) بلکہ کمال یہ ہے کہ پُرانے قصے پر جو نیا قصہ گڑھا جا رہا ہے، یا کہی ہوئی بات جو نئے سرے سے کہی جا رہی ہے ،اُس سے وہ معنویت برآمد ہو جو پُرانے قصے یا پُرانی بات کے بطون میں دور دور تک موجود نہ ہو۔ انتظار حُسین کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُن کے یہاں یہ ساری چیزیں نہ صرف یہ کہ افسانے کی بافت کے لیے آلۂ کار بنی ہیں بلکہ ان کے توسط سے افسانے کے سیاق و سباق میں بہت ساری چھوٹی بڑی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں جن سے معنویت کا ایک بالکل نیا نظام معرضِ ظہور میں آجاتا ہے۔
[su_quote]معنویت کا یہ نیا نظام ماضی اور اُس کی روایت سے نمو پذیر ضرور ہوتا ہے لیکن اُس کا انطباق ماضی کے کسی المیے یا حادثے پر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسی انحراف اور تبدیلی کے نتیجے میں دیو مالائی یا مذہبی حوالہ کبھی حال تو کبھی مستقبل کی اچھی یا بری صورتوں سے ہم آہنگ ہو کر کرداروں کی ذہنی نشو و نما کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے انتظار حُسین کے افسانے میں جہاں کہیں صورتِ حال تبدیل ہوتی ہے، اُس کا براہِ راست اثر کرداروں پر مرتب ہوتا ہے،اور بالآخر وہ بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اُن کے یہاں کرداروں کی تبدیلی قرۃ العین حیدر کی طرح صرف باطنی نہیں ہوتی بلکہ داخلی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خارجی تبدیلی کے شواہد بھی اُن کی کہانیوں میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔آزاد بخت کا مکھی میں تبدیل ہونا یا پھر الیاسف کی بندر میں منتقلی “کایا کلپ” اور “آخری آدمی ” جیسے افسانوں کو اُن تمام بصیرتوں کا حامل بنا دیتی ہے جن سے انسانی معاشرے کی انسانی نقل و حرکت مربوط ہوتی ہے۔[/su_quote]
قصے کے سیاق و سباق میں کرداروں کے منفی عمل کس طرح اُن کے ذہن کو پراگندہ اور اُن کی ظاہری ہیئت کو جانوروں کی بد ہیئتی میں متبدل کرتے ہیں؟ یہ سوال انتظار حُسین کے افسانوں میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔جس کا جواب ایک المیے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ شاہی اور سپاہ گری کی شاندار روایت کا امین آزاد بخت ایک عورت کے حُسنِ دلفریب سے مغلوب ہو کر اُس مقصد کو بھول جاتا ہے جس کے حصول پر اُس نے خود کو مامور کیا تھا۔ سفید دیو کا خوف اُس پر اِس خوف سے غالب آ تا چلا گیا کہ کہیں وہ شہزادی کی بزمِ نشاط سے محروم نہ ہو جائے۔ شام ہوتے ہی اُس کا اپنے آپ میں سمٹنا اُس کے وجود کی خارجی اور داخلی دُنیاؤں کے سمٹنے سے عبارت ہے۔
آزاد بخت جب پہلی بار مکھی میں تبدیل ہوتا ہے تو وہ اِس تبدیلی کے علل سے نا واقف ہوتا ہے۔ لیکن جب اُسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ شہزادی کی ایک پھونک سے مکھی بنتا ہے تو اُس کی غیرت اور خود داری پر ایک کاری ضرب لگتی ہے، اور پھر وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ ایک عورت اُس کی مردانہ وجاہت کو کس آسانی سے ایک ساعت میں زائل کر دیتی ہے۔ پھر اُسے اپنا مقصد یاد آتا ہے، دیو کی ہلاکت کی سبیلیں اور شہزادی کی رہائی پر وہ نہایت سنجیدگی سے غور کرتا ہے، لیکن یہاں پھر شہزادی کا ملکوتی حُسن اُس کے حواس پر ٹھیک اُسی طرح غالب آنے لگتا ہے جس طرح “باز گوئی” (سُریندر پرکاش) کے ” تلقارمس” پر ملکہ شبروزی کا صندلی بدن۔ جس کے نتیجے میں ہیئت کی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اور یہ تبدیلی اتنی شدید ہوتی ہے کہ دیو اُس رات ہمیشہ کی طرح “مانس گندھ” کی آواز نہیں لگاتا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آزا بخت خوف سے سمٹتے سمٹتے اب پوری طرح مکھی کے قالب میں ڈھل چکا ہے، جہاں شہزادی کی ایک پھونک بھی مطلوب نہیں ورنہ دیو مانس گندھ کی صدا ضرور لگاتا۔
یہ انجام تلقارمس کا بھی ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ سُریندر پرکاش کے یہاں یہ تبدیلی ظاہری نہ ہوکر تلقارمس کے باطنی حدود میں واقع ہوتی ہے۔ایک مغنی جس کے ساز کی کرشمہ سازی کبھی انقلاب کی نوید ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ شراب و شباب (جو نام نہاد وزارت کے طفیل) اُسے ناکارہ بنا دیتا ہے۔ یہاں بھی عورت اپنے جادوئی حُسن سے ایک مرد کو اس طرح مرعوب کرتی ہے کہ وہ اپنا اصل مقصد ہی بھول جاتا ہے۔ قاسم بن ہدا ،ملکہ شبروزی کی دعوتِ بدن پر جب یہ غیر متوقع جواب دیتا ہے کہ یہ الفاظ کسی ملکہ کے نہیں بلکہ ایک بازاری عورت کے ہیں، تو پورا نسانی المیہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک چلتی پھرتی تصویر کی طرح گھومنے لگتا ہے۔
“آخری آدمی “میں الیاسف کا المیہ بھی پوری انسانی برادری کا المیہ ہے۔ یہاں بھی المیے کی پیدائش انسان کے منفی رویوں کا نتیجہ ثابت ہوتی ہے۔یہ منفی رویہ جب شعوری طور پر عام لوگوں میں نمایاں ہوتا ہے تو وہ فورا بندر بن جاتے ہیں لیکن تا دیر اپنے آپ کو منفی رویے سے الگ رکھنے والا شخص الیاسف جب خود میں سمٹتا ہے تو مکر کے قریب پہنچ جاتا ہے۔اس لیے اُس کی ہیئتی تبدیلی کا عذاب سب سے آخر میں نازل ہوتا ہے۔ الیاسف کی بندر میں منقلبی در اصل سماجی، معاشی اور جنسی تبدیلی سے عبارت ہے۔ تصور کیجیے کہ ایک ایسا سماجی نظام جس کے تمام افراد اپنی حریصانہ فطرت کی وجہ سے احکامِ خدا وندی کو تج کر بندر بن جائیں، وہاں ایک آدمی کا تا دیر انسانی وجود کے ساتھ زندہ رہنا کیسے ممکن ہے؟
انتظار حُسین کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے سماجی، معاشی اور مذہبی مسائل کو ایک ساتھ بیان کر کے کہانی کا معنوی دائرہ نا قابلِ بیان حد تک وسیع کر دیا ہے۔ یہاں اگر الیاسف کی اذیت ناکی کا، کافکا کی کہانی metamorphosis کے کردار “گریگر” کی کربناکی سے تقابل کرنے کے بعد دونوں کی وجودی تقلیب پر غور کیا جائے تو اس کے اسباب بلا شبہ سماجی ہی ٹھہرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ وہ سماجی صورتِ حال ہی ہے جو الیاسف کو بندر اور گریگر کو مکوڑے میں منقلب کرتی ہے۔ اس لیے یہ بات شروع ہی میں کہہ دی گئی تھی کہ انتظار حُسین ہر بڑے فن کار کی طرح اپنے افسانوی کردار کو خواہ وہ کردار طلسمِ ہوش ربا کے ہوں یا انجیل یا ویدِ مقدس یا پھر جاتک کتھاؤں کے، معاصر معاشرتی نظام سے مربوط رکھتے ہیں۔ کیوں کے ان کے وسیلے سے نئی معنویت کے انکشافات کی تمنا اُنھیں ہمیشہ پا بہ رکاب رکھتی ہے۔