اقامے ، باسٹھ تریسٹھ اور موجودہ ڈرامے
از، مولانا محمد زاہد
بہت سی ایسی شخصیات جنہوں نے صرف عبادت اور مدینہ منورہ کی موت حاصل کرنے کے لیے عمر کا آخری حصہ سعودی اقامہ لے کر گزارا وہ سب کے سب کاغذات میں کسی کمپنی یا کسی سعودی کے ذاتی ملازم ہی ہوں گے۔ حالانکہ انہوں نے ایک دن بھی نہ تو ملازمت والا کام کیا ہوگا اور نہ ہی تنخواہ لی ہوگی۔
اپنی ذات میں یہ انتہائی دیانت دار اور پاک باز لوگ تھے۔ کئی لوگوں نے آنے جانے کی سہولت کے لیے کاغذاتی ملازمت کی بنیاد پر اقامہ حاصل کر رکھا ہوگا۔ کئی نامی گرامی دینی شخصیات میں آپ کو کوئی حارس نظر آے گا، کوئی سائق کوئی کچھ اور۔ میری ذاتی رائے میں کسی خاص مجبوری کے بغیر ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن یہ کوئی اتنی بڑی قباحت بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی کو عوامی نمائندگی کے لیے نا اہل قرار دے دیا جائے۔ عوام کا نمائندہ کون ہوگا یہ فیصلہ کرنا بنیادی طور عوام ہی کا کام ہے۔ جب یہ فیصلے کسی اور فورم پر ہونے لگیں تو اس کا مطلب عوام سے ان کا استحقاق چھیننا ہے۔
جس طرح عوام کا کوئی گروہ قانون کو ہاتھ میں لے لے یعنی عوام وہ کام کرنے لگ جائیں جو عدالتوں کے کرنے کا ہے۔ یہ غلط ہے۔ اسی طرح قانون اور عدالتیں وہ کام کرنے لگ جائیں جو عوام کا ہے یہ بھی غلط ہی ہوگا۔
ہوسکتا ہے میں کبھی بھی عمران خاں کو ووٹ نہ دوں، ہوسکتا ہے نواز شریف کو آپ کبھی ووٹ نہ دیں۔ لیکن بطور ووٹر میرا اور آپ کا یہ استحقاق ہے کہ وہ اگر پاکستانی ہیں، یا صوبائی نمائندگی میں میرے یا آپ کے صوبے کے باسی ہیں تو عمران اور نواز سمیت زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے یہ راستہ کھلا ہو کہ وہ چاہیں تو میری اور آپ کی عدالت میں خود کو پیش کرسکیں۔
پہلے ہی کوئی فیصلہ کر دے کہ فلاں میری یا آپ کی عدالت میں پیش ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ میرا اور آپ کا دائرہ اختیار محدود کرنے والی بات ہے۔ اس لیے کسی کی نا اہلی کا فیصلہ محض اس کے خلاف نہیں ہوتا، بلکہ ووٹرز کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ بلکہ ووٹرز پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لیے نا اہلی کی بنیادیں بہت محدود ہونی چاہئیں۔
یاد رہے کہ عمران خاں کے خلاف نا اہلی کی درخواست کی مخالفت میں ہم نے کسی جگہ مفصل لکھا تھا۔ اب بھی ہم اس پر قائم ہیں کہ جس طرح سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف پی ٹی ائی ، جماعت اسلامی وغیرہ کی نا اہلی کی استدعا غلط ہے، اسی طرح حنیف عباسی کی عمران خاں کے خلاف بھی یہ استدعا غلط ہے۔
اس سے سپریم کورٹ اور قوم کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے اور خود سپریم کورٹ کی ساکھ داؤ پر ہے۔ سپریم کورٹ جتنی جلدی خود کو اس دلدل سے دور کرلے، بہتر ہوگا۔ تاکہ قوم بھی معمول کی سیاسی زندگی کی طرف لوٹ سکے۔
یہ ہمارے عجیب تضادات ہیں کہ ایک کیس میں پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ ۱۸۴/۳ کے تحت سپریم کورٹ باسٹھ، تریسٹھ کی شقوں کا اطلاق کرسکتی ہے، اور دوسرے میں موقف یہ ہے کہ نہیں کرسکتی ہے۔
یہی حال دوسری طرف حنیف عباسی کی پٹیشن کا ہے۔ اس پٹیشن میں اس کا موقف کچھ اور ہے۔ ویسے ان کی پارٹی کا موقف کچھ اور ہے۔ عمران خاں ماضی میں ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ باسٹھ، تریسٹھ کی ضیائی شقیں ناقابل عمل ہیں۔ ان سے ساری اسمبلی فارغ ہوجائے گی۔
خدا کرے سیاست دانوں کو توفیق ہو کہ اٹھارہویں ترمیم کے وقت کی گئی غلطی پر سجدہ سہو کرلیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.