رچناوی تہذیب کا تاریخی و جمالیاتی مکالمہ
تبصرۂِ کتاب از، ثقلین سرفراز
ناول مانگی ہوئی محبت کو ابھی ابھی پڑھے بیٹھا ہوں اور جیے بیٹھا ہوں۔ انسان بعض دفعہ اک عجب کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اُسے سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ اس عجیب کیفیاتی معَمّے کی وجہ کیا ہے اور اسے کیسے توڑا جائے۔
معاملہ چاہے کچھ کہنے کا ہو، لکھنے کا ہو، یا عمل کا ہو، ہر حال میں ایک عجیب کش مکش نظر آتی ہے۔ اب یہاں صورتِ حال لکھنے کے ساتھ واقع ہے۔
کسی بھی بات، شئے کے تاثرات انفرادی سطح پہ مختلف ہوتے ہیں، ہر قاری کی قرأت کا تناظر اپنے معروض اور عہد سے جڑا ہوتا ہے۔ بعد از اسی بنیاد پہ وہ کوئی رائے دیتا ہے۔
معاملہ متن کے حوالہ سے تاریخی بھی ہو سکتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔ لیکن اگر تکثیری جہات کو مدِ نظر رکھنا مقصود ہو تو پھر قاری کے معاصر معروض کو سامنے رکھا جائے گا۔ بَہ صورتِ دیگر کسی بھی متن کی معنویت محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔
ہم اس وقت ناول مانگی ہوئی محبت کو التوائی معانی و مفاہیم کے حوالہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ بات ہم اسی بنیاد پر تیقّن کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک تجرباتی ناول ہے جو بات یا شئے نظریہ سے زیادہ تجرباتی صداقت سے ہم کنار ہو چکی ہوتی ہے وہ تا دیر ہوتی ہے، کیوں کہ تجربہ، سماج میں سر انجام پاتا ہے اور ایک صداقت سے ماخوذ ہو چکا ہوتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ سماج اور سماجی صداقتوں کے سلسلے طویل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ ناول ایک تجرباتی ناول ہے، تصوراتی تجربہ نہیں ہے بل کہ معروض کا تجربہ ہے۔
معروض میں بھی ہم قید لگاتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ناول کے متن میں موضوعی سے زیادہ معروضی پہلووں کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ البتہ موضوعی اعتبار سے ہم اسے یقیناً رچناوی تہذیب کی باز یافت اور پیش کش کا نام دے سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ رائے بھی ہم واضح طور پر دیں گے کہ جب یہ ناول بَین مادی تجربات پر مبنی معلوم پڑتا ہے تو پھر اس ناول کی کہانی تصوراتی نہیں رہتی بل کہ ناول نگار کی خود بیتی بن جاتی ہے۔
اگر ہم اس ناول کو جمالیات کا نمائندہ ناول کہیں تو بھی کچھ غلط نہ ہو گا کیوں کہ پورے ناول کی کہانی کا تسلسل جمالیاتی مکالموں کی مہمیز سے ہی آگے بڑھتا ہے۔
ناول کے شروع میں آرزو کے تعارف تک تجسس کی فضا چھائی نظر آتی ہے اور پھر بقیہ ناول انھی جمالیاتی جذبی کیفیاتی مکالموں کے زور سے آگے بڑھتا ہے۔ اسی جمالیاتی جذبے کی ایک مثال ناول کے متن سے ملاحظہ کریں:
خار زارِ ہجر میں چلتے ہوئے اگر یہ تسلّی ہو کہ محبوب اپنے چنے ہوئے کسی نخلستان میں خوش ہے تو آبلہ پائی میں بھی اک گو نہ سکون ہوتا ہے۔ چبھنے والا ہر کانٹا اگر یہ پیغام دے کہ محبوب کے گلشنِ حیات میں اک تازہ پھول کھلا ہے تو محب اس کسک کو لا زوال کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ غرقِ دریا ہونے سے اگر محبوب نے من پسند ساحل پر پہنچنا ہو تو یہ بھی خسارے کا سودا نہیں۔
لیکن اگر اپنی جھونپڑی زمین بوس کر کے بھی محبوب کا محل تعمیر نہ ہونے کا خدشہ ہو تو پھر سود و زیاں کا شمار رکھنا پڑتا ہے۔ محب معترض اس وقت ہوتا ہے جب اسے یقین ہو کہ محبوب جسے ساحل سمجھ رہا ہے وہ ساحل نہیں بھنور ہے۔ ایسے میں محب خود کو بچاتا ہے تا کہ محبوب کو ڈوبنے نہ دے۔
ناول کا اہم کردار غوث فطرت کے بڑا قریب رہتا ہے بل کہ فطرت کے نمائندے کے طور پر ایک مؤرخ کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ناول کے درمیان میں ہمیں دیہی اور شہری زندگی کا فرق بھی نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک دیہاتی کردار اپنائیت کے جذبے سے لب ریز نظر آتا ہے اور شہری کردار کو اسی اپنائی جذبے سے اپنا بنا لیتا ہے۔ پھر ایک تیسرا شہری کردار بے مروّتی دکھاتا ہوا نظر آتا ہے اور بالآخر فتح دیہاتی کردار کے سچے اور مخلص جذبے کی نظر آتی ہے۔
ہم نے عنوان میں اس ناول کو رچناوی تہذیب کا تاریخی و جمالیاتی مکالمہ کا نام دیا ہے اب ہم یہاں اس ناول کے تاریخی مکالمہ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ناول، رچناوی ثقافت و تہذیب کا برابر نمائندہ نظر آتا ہے، اسی ذیل میں کئی سماجی معاملات بھی ناول کے متن میں در آئے ہیں جو متنوع زاویوں سے اس کی تاریخی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
تہذیب، ایک خطہ کی واضح عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ جب ہم اس کو رچناوی ثقافت و تہذیب کا نماٸندہ ناول کہیں گے تو ایک بات جو تہذیب کے دائرے میں نظر آتی ہے، وہ ہے اس میں ”بولی“ کی واضح نمائندگی، بل کہ پورے ناول میں ہی رچناوی بولیوں کی جا بَہ جا عکاسی نظر آتی ہے۔
ہم یہاں بَہ طور مثال کے رچناوی بولی کے چند ایک لفظ پیش کیے دیتے ہیں: چُگل، ڈٹا، نَڑی، نیچا، صحنک، پرات، پڑوپی، سَتھر، داؤدی کندھ، نِروار، ویلے کویلے، اُگھ سُگھ، ہاڑا، بھاجی جانجی، پھوہ ڈاہ، گوہے ریوڑی، موجھ، دَبھڑ وغیرہ وغیرہ۔
ناول کے پہلے حصہ میں ناول نگار جس طرح رچناوی تاریخ سے رُو شناس کرواتا ہے وہ آگے مفقود ہوتی نظر آتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس تاریخی تسلسل کو جاری رکھا جاتا، لیکن اس کے ساتھ ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی ربط و تسلسل ٹوٹتا نظر نہیں آتا، بل کہ کہانی ایک خاص ٹریک پہ روانی کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔
ایک بات جو کہنا بھول رہا ہوں کہ ناول میں سماجی دانش کی واضح پیش کش بھی نظر آتی ہے، جس میں ایک قاری کے لیے وافر عقلی حَظ کا ساماں موجود ہے۔