(ناصر عباس نیر)
ماڈرن ازم اقبال کی معاصریوروپی ادبی تحریک تھی۔ اس کا زمانہ ۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۰ء قرار دیا جاتا ہے۔معاصر تحریک ہونے کے باوجود اس کے بہ راہِ راست اثرات اقبال کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ ایسے میں یہ سوال بے حد اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ آیا اقبال اس تحریک سے آگاہ نہیں تھے اور اگر آگاہ تھے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی انتخابی نظر اس تحریک کو اپنے شعری مقاصد سے ہم آہنگ محسوس نہیں کرتی تھی؟
اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہرا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب نفی میں ہوگا۔ اس لئے کہ ان تمام شعرا کو ماڈرن کہہ سکتے ہیں کہ ان سب کا تعلق (زیادہ کا تعلق انیسویں صدی سے ہے) ماڈرینٹی (ہمہ گیر جدیدیت) کے عہد سے ہے۔۔۔ مگر ماڈرنسٹ نہیں کہہ سکتے۔ ماڈرن اور ماڈرنسٹ میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ٹینی سن اور ایلیٹ میںیا تھیکرے اور جیمز جوائس میں ہے۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے:
And, while the wings of fancy still are free
کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :
ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا
مگر ۱۹۱۰ء کے بعد ان کی نظر انتخابی ہو جا تی ہے اور وہ اپنے شعری مائنڈ سیٹ کی راہ نمائی میں معاصر مغربی ادبیات اور تحریکوں سے ربط ضبط قائم کرتے ہیں۔ جو ادبی تحریکیں اور رجحانات انھیں اپنے مائنڈ سیٹ سے متصادم یا مختلف محسوس ہوتی ہیں انھیں وہ خاطر میں نہیں لاتے۔ یوں بھی جن دنوں ماڈرن ازم کی تحریک زور شور سے جاری تھی، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کر چکے تھے۔ اور ماڈرن ازم مغربی تہذیب ہی کا جمالیاتی مظہر ہے۔ چناںچہ جن دنوں مغرب میں’’ویسٹ لینڈ‘‘ اور ’’یولی سس‘‘ چھپتے ہیں،انھی دنوں اقبال اُردو میں نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ (۱۹۲۲ء) اورفارسی میں ’’پیامِ مشرق‘‘ (۱۹۲۳ء) منظر عام پر لاتے ہیں۔ ان کا فرق ظاہر ہے۔ اقبال، ایلیٹ اور جوائس کے نا صرف موضوعات، ہیئتیں اور اسالیب مختلف تھے بلکہ جمالیاتی مقاصد بھی مختلف تھے۔
یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی عصر میں ادبی سطح پر انسانی سروکار مختلف ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال اس وقت زیادہ اہم، متعلق اور بامعنی ہو جاتا ہے جب ہم ادب کے آفاقی ہو نے کو کلیے کے طورپر لیتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہر ادبی تجربہ، ادبی تحریک، ادبی نظریہ اور جمالیاتی نظام اور شعریات کسی نہ کسی تناظر اور صور ت حال کے پابند ہوتے ہے۔ ادبی سطح پر ظاہر ہونے والے انسانی سروکار بھی تناظر اور صورتِ حال کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے کوئی تجربہ، تحریک، نظریہ یا شعریات آفاقی نہیں، وہ اپنی متعلقہ صورتِ حال اور تناظر میں’’آفاقی‘‘ہے۔ جہاں جہاں اور جب جب وہ صورتِ حال موجود ہوتی ہے، اس کے تحت لکھا جانے والا ادب مطلق اور اسی مفہوم میں آفاقی ہوتا ہے۔ بنا بریں بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے مغربی ادب پارے اور اقبال کی شاعری اپنی اپنی صورتِ حال اور تناظر کے پابند ہیں اور اسی لیے جدید مغربی ادبا اور اقبال کے سروکار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ادب جب صورتِ حال اور تناظر سے الگ ہوتا ہے تو وہ ایلی نیشن (Alienation) کا شکار ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ایک نازک نکتے کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔کوئی ادبی تجربہ اور پھر ادبی انسانی سروکار ،تناظر اور صورتِ حال سے از خود پیدا نہیں ہوتے۔ تخلیقی ذہن تناظر اور صورتِ حال کی کاربن کاپی نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو ایک معاشرے میں تمام لکھنے والوں کے یہاں ایک جیسے ہی ادبی تجربات اور انسانی سروکار ظاہر ہوتے ۔اور ہم یہ کہنے میں قطعی حق بہ جانب ہوتے کہ ایک عہد میں کسی ایک بڑے تخلیق کار کو ہی لکھنے کا حق ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی عہد میں متعدد لکھنے والے موجود ہوتے ہیں اور ان کے یہاں ادبی تجربات اور سروکاروں کا تنوع موجود ہوتا ہے۔گو تعدد اور تنوع کے عقب میں ایک ساخت کو نشان زد کیا جا سکتا ہے مگر یہ بھی غور کیجیے کی یہ تنوع ہی ہے جس کی وجہ سے ساخت وجود پذیر ہوتی ہے۔نازک نکتہ یہ ہے کہ تناظر اور صورتِ حال سے از خود ادبی تجربات کا جنم نہیں ہوتا۔تخلیق کار صورتِ حال کی ’’تعبیر‘‘ کرتا ہے۔تعبیر کا عمل شعوری یا غیر شعوری ہو سکتا ہے،مگر ہوتا ضرور ہے۔اور تعبیر کے لیے تصورِ کائنات،آئیڈیالوجی،تھیوری ،مائنڈ سیٹ ،کئی طرح کی چیزیں کام آتی ہیں۔
ہر چند اقبال نے ماڈرن ازم سے راست ربط ضبط نہیں رکھا اور اس لیے نہیں رکھا کہ وہ ایک مختلف تصور کائنات اور مائنڈ سیٹ کے علم بردار تھے ،مگر ماڈرن ازم کے بعض تصورات اور اقبال کی شاعری کے بعض پہلوؤں سے تقابل و تماثل دلچسپی سے خالی نہیں۔ ماڈرن ازم کی تجربہ پسندی، روایت شکنی، انفرادیت پسندی ،تاریخی و جمالیاتی عدم تسلسل اقبال کے یہاں اپنے مغربی سیاق کے ساتھ موجود نہیں۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ اقبال نے نئی ہیئتوں کی تلاش کے بجائے روایتی ہیئتوں کو ہی اپنے لیے موزوں سمجھا ہے۔ اس طرح روایت سے اپناتعلق قائم رکھا ہے،جسے توڑنے میں جدیدیت افتخار اور لذت ہی محسوس نہیں کرتی ،اپنی شعریات کے اظہار کے لیے لازم بھی سمجھتی ہے۔ جدیدیت کی نظر میں ہر فن پارہ مواد اور ہیئت پر مشتمل تو ہوتا ہے ،مگر دونوں میں رشتہ ناخن اور گوشت کا ہوتا ہے۔نئے مواد کو پرانی ہیئت میں پیش کرنے کا مطلب ،نئے موادکو روایت سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ہیئت روایت کے وسیع منطقے کا ایک جز ہے۔ تاہم اُسلوبی سطح پر اقبال نے تجربہ پسندی اور روایت شکنی کا مظاہرہ ایک خاص مفہوم میں بہ ہرحال کیا ہے۔ اقبال نے اُردو شاعری میں قطعی منفرد ڈکشن ہی متعارف نہیں کروایا بلکہ اسے بے مثال تخلیقی شان کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کچھ اس طورکہ یہ ناقابلِ تقلید ہے۔ اتنی شدید اور فقید المثال انفرادیت شاید ہی کسی دوسرے اُردو شاعر کے یہاں موجود ہو، جس کا مظاہر ہ اقبال نے کیا ہے۔ ماڈرن ازم میں بھی انفرادیت پر زور ملتا ہے۔ کیا اقبال کی انفرادیت کا وہی مفہوم ہے جو مغربی جدیدیت میں ہے؟ بالکل نہیں، اقبال کی انفرادیت اس کی اپنی انفرادیت ہے، تاہم ایک سطح پریہ انفرادیت مشرقی شعریات میں قابلِ فہم ہے اور دوسری سطح پر اقبال کے شعری وژن میں۔
مشرقی شعریات میں انفرادیت کے مظاہرے کو جدّت کا نام دیا گیا ہے۔ جدت کے ضمن میں حسنِ ادا، اپج، معنی آفرینی، مضمون آفرینی، نکتہ سنجی، نازک خیالی ایسی اصطلاحات کا بھی ذکر ہوا ہے۔ جدت ان سب کو محیط ہے۔ یہ سب جدت کی فروع ہیں، اس طور جدت کا تعلق معنی اور اُسلوب ہر دو سے ہے۔ جدت بہ قول ڈاکٹر عنوان چشتی، ’’مانوس اشیا کے مخفی امکانات کی دریافت کا عمل ہے۔۔۔ جدت روایت کے بطن سے نمودار ہوتی ہے، مگر روایت پرستی سے انحراف کرتی ہے۔‘‘ گویا جدت انحراف ہے مگر جدیدیت کا انحراف نہیں۔جدیدیت کا انحراف کلی ہوتا،جب کہ جدت کاجزوی ہوتا ہے۔جدت کا انحراف روایت کے حدود کے اندر ہو تا ہے اور اس محتاط انداز میں ہوتا ہے کہ روایت کی بنیاد کو اس انحراف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں جدت کے انحراف اس وقت ممکن ہے جب روایت کا علم موجود ہو۔اس علم کی سطح اور درجے کی مناسبت سے ہی انحراف کی سطح اور درجہ متعین ہوتا ہے۔لہٰذا جس تخلیق کار کا روایت کا تصور وسیع، گہرا اور سرایت گیر ہوتا ہے اس کا انحراف بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ اقبال کی انفرادیت دراصل جدت ہے۔ جدت کا مظاہرہ ہر چند اور بھی کئی اُردو شعر انے کیا ہے مگر روایت کا جتنا وسیع اور گہر ا تصوراقبال کا تھا، اتنا کسی دوسرے اُردو شاعر کا مشکل سے ہوگا۔ اقبال کی انفرادیت نا قابلِ تقلید تو ہے مگر اپنی مشرقی روایت میں قابلِ فہم بہ ہرحال ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیں تھا اسے مرتّب بھی کیا۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘
اسی طرح انھوں نے متعدد قرآنی آیات کو راست یا ان کے ترجمے کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔ اقبال کا تصورِ روایت اگر چہ ایلیٹ کے تصورِ روایت سے مختلف ہے مگر دونوں میں یہ مماثلت موجود ہے کہ ایلیٹ نے تمام مغربی ادب :ہومر سے بائرن تک کو ایک روایت قرار دیا۔ اقبال نے روایت کی تنقیدی تھیوری پیش نہیں کی، مگر ادبی روایت کو مسلسل جاری روایت کی صورت اپنی شاعری میں مرتب، دریافت اور پیش کیا ہے۔ اقبال کی روایت مشرقی اسلامی روایت ہے۔ عبدالمغنی کا یہ کہنا وزن رکھتا ہے کہ ’’اقبال کی شاعری درحقیقت مشرقی ادبیات کی تمام شاعرانہ روایات کا نقطۂ عروج ہے۔‘‘
اقبال کا تصورِ روایت، مابعدجدید تنقیدی اصطلاح میں بین المتونی (Intertextual) ہے۔ فارسی، عربی، اُردو اورسنسکرت ادبیات مختلف متون ہیں، جنھیں اقبال نے باہم ممزوج کیا ہے۔ اقبال نے مختلف مشرقی روایات کو ایک نئے متن میں منقلب کر دیا ہے۔ یعنی یہ روایات اقبال کے شعری متن کے میکانکی اجزا نہیں، نامیاتی عناصر ہیں۔ اقبال کا شعر ی متن ایک زندہ متن ہے اور ایک زندہ وجود کی طرح ہی نہ صرف حسی تحریک کا حامل ہے بلکہ مخصوص زاویہ نظر اور آئیڈیالوجی بھی رکھتا ہے۔
اقبال کے اسلوب کو جو بات ناقابلِ تقلید بناتی ہے ،وہ ان کا شعری وژن ہے۔ان کا اسلوب ان کے وژن کی تجسیم ہے۔کسی تخلیق کار کے وژن کی تفہیم کی جا سکتی ہے، تقلید نہیں۔اس لیے کہ وژن ’ایک مسلسل نموئی عمل سے وجود میں آنے والی باطنی حقیقت ‘ہے۔
ماڈرن ازم کے’’نظامِ فکر‘‘ میں فرد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ اہمیت تین چار سطحوں پر فرد کو تفویض ہوئی ہے۔ فرد بطور منفرد وتنہا وجود؛ فرد کا زندگی کو مستند اور براہِ راست طریقے سے تجربہ کرنا اور اس تجربے کے نتیجے میں اپنی تقدیر یعنی بے چارگی، تنہائی اور لغویت سے آگاہ ہونا؛ فرد کا سماج، فطرت اور کائنات سے داخلی انقطاع کی صورتِ حال سے دو چار ہونا۔
جدید ادب کا فرد ایلی نیشن کا شکار ہے۔ ایلی نیشن کا تصور مارکسیت میں بھی ملتا ہے مگر جدیدیت اور مارکسیت کی ایلی نیشن ایک جیسی نہیں ہیں۔ مارکسی ایلی نیشن یہ ہے کہ فرد اپنی محنت کے وسائل اور ثمرات سے بوجوہ اجنبی ہو جاتا ہے۔ جب کہ جدید فرد کی ایلی نیشن ایک خاص فلسفیانہ تصور کی پیدا کردہ ہے۔اس فلسفے (وجودی) کی رو سے فرد تنہاہے ۔وہ دوسروں سے اور کائنات سے علیحدہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے یہاں بھی فرد موجود ہے۔ یہاں اشارہ اقبال کے مردِ مومن کی طرف نہیں۔ مرد مومن ایک آدرش ہے، جس میں وہ تمام بہترین خصوصیات یک جا ہو گئی ہیں جنھیں اسلامی تاریخ میں پیش کیا گیا ہے۔ مرد مومن ایک ’’غیرشخصی‘‘ تصور ہے۔ یہ بشری تقاضوں سے بلند اور اعلیٰ انسانی مقاصد کا علم بردار ہے۔ اقبال کی شاعری میں، بالخصوص بالِ جبریل کی غزلوں میں ایک اور فرد ظاہر ہوا ہے۔ یہ ایک شخصی وجود ہے۔ اس کا اپنا نقطۂ نظر اور اپنے سوالات ہیں۔ ہر چند اس کا لہجہ پُر تمکین اور کہیں جلالی ہے، مگر یہ ایک حقیقی فرد ہے اور اسی لیے تنہا بھی ہے۔