اقبال، فیض ایک تقابلی جائزہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان
تبصرۂِ کتاب از، افضل رَضوی
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب اقبال، فیض اور ہم، کا مطالعہ کرنے کے بعدیہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ نئی کتاب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غالباً آج تک ماہرینِ ادبیات و شخصیات نے علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیضؔ کو کبھی اس زاویے سے دیکھنے کی یاتو قصداً کوشش نہیں کی یا پھر صرفِ نظر کرتے رہے۔
کتاب کے عنوان سے ہی علم ہو جاتا ہے کہ اس کا مضمون تین حصوں پر مشمل ہے یعنی اس کتاب میں اولاً، علامہ اقبالؒ کے فن و شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ثانیاً، فیض احمد فیضؔ کے شاعرانہ کمال اور جدت وندرت کے ساتھ ساتھ ان کے سوشلزم کی طرف جھکاؤ کو موضوع بناتے ہوئے، علامہؒ اور فیضؔ کی شخصیت میں مماثلتیں زیرِ بحث لائی گئی ہیں۔ ثالثاً، ہم کا صیغہ اگر چِہ مصنف نے اپنے لیے استعمال کیا اوراس کی کسی قدر وضاحت بھی کر دی گئی ہے تا کہ کوئی ابہام نہ رہے، اس کے با وجود یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسے بالعموم آج کے دور کے ہر اقبالؒ اور فیضؔ شناس کے لیے ریاعتاً، لیا جاسکتا ہے جس سے کتاب کی ہَمہ گیریت بڑھ جاتی ہے۔ اگر چہ کتاب کے ٹائٹل میں موجود ”ہم“ یعنی جمع کا صیغہ مصنف کی شخصیت کا عکاس ہے۔
محترم ڈاکٹر محمد رفیق خان صاحب سے میرا تعلق زمانہ طالب علمی سے ہے، وہ میرے اساتذہ میں سے ہیں جن سے میں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں اکتسابِ فیض کیا؛ لیکن پروفیشنل لائف اور بیرونِ ملک سکونت کے باعث ایک طویل عرصے ان سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا؛ تاہم دسمبر 2017ء کے آخری عشرے میں جب میں علامہ اقبالؒ پراپنے تحقیقی کام ”دربرگِ لالہ و گل“ جلد اول کی تقاریب رو نمائی کے لیے پاکستان گیا تو لاہور میں منعقد ہونے والی تقریبِ پذیرائی میں اچانک ان سے ملاقات ہو گئی جس نے ماضی کی یادیں تازہ کر دیں۔
تقریب کا آغاز ہوا تو ممتاز راشد اور اسلم کمال کے علاوہ انہوں نے بھی کتاب پر اظہارِ خیال فرمایا۔ بس یہی نہیں اس کے بعد ”دربرگِ لالہ و گل“ جلد اول پر ایک تفصیلی ریویو بھی لکھا جو مختلف اخبارات و جرائد و رسائل کی زینت بنا۔
جن دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا ان دنوں طلبہ یونین پر پابندی تھی چناں چِہ طلبہ سر گرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے پرنسپل ڈاکٹر عبدالمجید اعوان نے ڈاکٹر محمد رفیق خان کو مشیر امورِ طلبہ اور ڈبیٹنگ کلب کا انچارج بنا دیا تھا۔ ایک بات جس کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ راقم الحروف کو فیض سوسائٹی گورنمنٹ کالج لاہورکے بانیان میں ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مجھے یاد ہے جب 20نومبر 1984ء کو فیضؔ کا انتقال ہوا تو بہت سے اخبارات نے فیض کی ایک سوچوں میں گم تصویر کے ساتھ درج ذیل مصرع لکھا تھا۔
ع وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
محترم ڈاکٹرمحمد رفیق خان صاحب فطرتاً نرم مزاج اور نرم خُو ہیں لیکن میدانِ تحریر و تقریر کے شَہ سوار ہیں۔ ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں لیکن انہوں قلم اور کتاب کے رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ ان کے سفر نامے ان کی سوچ اور اندازِ تحریر کا مُنھ بولتا ثبوت ہیں۔”کھول آنکھ زمیں دیکھ“، ”انڈیا بہ چشمِ بینا“ اور”امریکہ بار بار“ اردو ادب میں گَراں بہا اضافہ ہیں۔
کیمیا گری سے لے کر میدان شاعری اور سفر ناموں سے آگے نکل کر علامہ اقبال ؒ کے کلام کو سمجھ کر اس پر قلم اٹھانا گویا انہی کا خاصا ہے۔ پھر انہیں کچھ وقت فیض احمد فیضؔ کے ساتھ گزارنے کا موقع بھی میسر آیا جس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیضؔ صاحب کے بارے ان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ قاری کے لیے انمول موتی ہیں۔ اس تصنیف کی ایک بڑی خوبی ہر عنوان کے بعد مہیا کیے گئے حوالہ جات ہیں جن سے یہ تصنیف اور بھی مستند ہو گئی ہے۔ راقم الحروف کی نظر سے بے شمار کتب گزری ہیں لیکن اکثر کتب میں حوالہ جاتی ضُعف دیکھا گیا ہے۔
اقبال، فیض اور ہم کا سر ورق سجاد خالد نے بنایا ہے اور مرزا محمد الیاس نے اس کا اہتمام کر کے اسے یو ایم ٹی پریس سے شائع کرایا ہے۔ کتاب کا سر ورق کتاب کے موضوع کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اقبال، فیض اور ہم جو اس علمی کام کا ٹائٹل ہے۔ ٹائٹل اور مصنف کے نام کے درمیان میں صفحے کے بائیں جانب سے شروع اور دائیں جانب نسبتاً نیچے کی طرف جاتے ہوئے تین تصویری خاکے بنائے گئے ہیں، جسے دیکھ کر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سر ورق میں تینوں شخصیات کے زمانی دور کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
کتاب کے ابتدائیے میں محترم ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے موضوع اور اس کے ٹائٹل کی وضاحت کی ہے اور اپنے قاری کو علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیض ؔکے ساتھ اپنے گہرے تعلق سے متعارف کرایا ہے۔ مزید برآں انہوں نے اپنی شخصیت کے خد و خال پر روشنی ڈالی ہے اور ایسا کرتے ہوئے ان کی تحریر کسی حد تک خود نوشت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ کتاب کے اس حصے میں انہوں نے اپنے کچھ اساتذہ اور شاگردوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ محترم ومکرم ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ، رفقاء اور شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے حفظِ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔
اقبال، فیض، رفیق اور گورنمنٹ کالج لاہور، زیرِ نظر کتاب پر لکھی گئی، ڈاکٹر شفیق عجمی کی مختصر سی تحریر ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبالؒ کے نظریہ حریت (اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنے مقالے”اقبال کے نزدیک حریت کیا ہے؟“، میں تفصیلی بحث کی ہے) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فیض احمد فیضؔ کی مطلق العنانیت اورتنگ نظری کے خلاف اعلانِ جنگ کو موضوع بنایا ہے۔ مزید برآں انہوں نے لکھا ہے کہ جس طرح علامہؒ نے غالب ؔکی عظمت کو تسلیم کیا اسی طرح فیض نے بھی ”اقبال“ نامی نظم لکھ کر اسی تاریخی امر کو دُہرایا۔ اس کے بعد محترم ڈاکٹر صاحب نے ”تصنیف کے مندرجات کا خلاصہ“ رقم کیا ہ، مثلاً، وہ لکھتے ہیں،”ہم اپنی تصنیف بَہ عنوان اقبال، فیض اور ہم قلم بند کرنے کا تعارف جزوی طور پر ابتدائیہ میں کروا چکے ہیں لیکن ابھی یہ تشنہ تکمیل ہے۔ ہم چاہیں گے کہ ہم کتاب لکھنے کے جو محرکات بیان کر چکے ہیں، کچھ اس کے علاوہ بھی رقم کریں۔“ چُناں چِہ انہوں نے اس ضمن اپنے لیے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کر نے کی وضاحت کی ہے نیز تصنیف کے مندرجات کی کسی قدر سمری پیش کردی ہے۔
”اقبالؒ اور فیض کا خاندانی پسِ منظر“ زیرِ نظر تصنیف کا بابِ او ل ہے، جس میں صاحبِ تصنیف نے پہلے تو علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیضؔ کی پیدائش اور ان کے مراحلِ تعلیم کو اختصار لیکن عمدگی سے بیان کیا ہے۔ مزید ان کی مماثلتیں بیان کرنے کے بعد ان کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی تعلیمی ماحول کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے سکول کے زمانے کا، جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے، ایک دل چسپ واقعہ بھی رقم کیا ہے۔
اس باب کا ماحصل ان کے نزدیک یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اور فیضؔ کی ابتدائی تعلیم اسلامی ماحول میں ہوئی، اس لیے دونوں کے دل و دماغ پر مولوی میر حسن کی تعلیم وتربیت کا عمر بھر اثر رہا کیوں کہ دونوں کو ان کا شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
باب دوم کا عنوان خاصا پر کشش ہے۔”علامہ اقبالؒ اور فیض احمدفیضؔ- نئے راستے نئی منزلیں“۔ اس باب میں مصنف نے فیضؔ کی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں اور ان کی وجوہات کا تاریخی حوالے سے ذکر کیا ہے۔ یہاں یہ بتاتا نہایت ضروری ہے کہ مصنف چُوں کہ سفر نامے لکھنے کی مہارت رکھتے ہیں اس لیے اس باب کے اندازِ تحریر میں سفر نامے کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، جو ایک کامیاب نیریٹر کے لیے جزوِلا ینفک ہے۔
یہ باب نہ صرف تاریخ، ادب، صحافت اور سیاسیات کے طلبہ کے لیے فیض کی زندگی سے متعلق بنیادی اور اہم معلومات مہیا کرتا ہے، بَل کہ، اساتذہ بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس میں جنگِ عظیم دوم سے لے کربھٹو کی پھانسی اور فیض کے انتقال تک کے زمانے کو کور کیا گیا ہے۔
”علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کا فنِ شعر گوئی اور فلسفہ“، تصنیف کا تیسرا باب ہے جس میں محترم ڈاکٹر رفیق خان صاحب نے ان نابغۂِ روز گار شعراء کے فن و فلسفہ پر اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ وہ اس کے آغاز ہی میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”ہمارے نزدیک اقبال اور فیض کی شاعری پر بات کرنا ایک حسّاس ترین امر ہے۔ شاعری پر تنقید کرنا ہر خاص وعام کا شیوہ بن چکا ہے؛ لیکن ہمارے نزدیک شعر کو اس کی گہرائی میں اتر کر سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا، شعر پر بات کرنے کا بنیادی تقاضا ہے“۔
ڈاکٹر صاحب چُوں کہ بنیادی طور پر سائنس دان ہیں، اس لیے کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کا انیلیسس کرلیتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ وہ ایک اچھے نثر نگار اور شاعر بھی ہیں نیز انہیں اپنا کلام فیضؔ جیسی شخصیت کی موجودگی میں سنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس پر وہ بَہ جا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ اس باب میں انہوں نے اقبالؒ اور فیض کی شاعری کے فنی محاسن کو مثالوں سے واضح کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دونوں مصورِ فطرت شاعر تھے۔ راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ علامہ ؒ کے کلام کا ایک بڑا حصہ فی الواقعی ڈاکٹر صاحب کے مؤقف کے حق میں پیش کیا جا سکتا ہے (راقم الحروف کی تحقیقی مقالہ ”در برگِ لالہ وگل“ اس کی بہترین مثال ہے) اور اسی طرح فیضؔ کے کلام سے بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، اور ڈاکٹر صاحب نہایت جاں فشانی سے ایسی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کرلائے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے دیگر ناقدین یا شارحین کا سہارا نہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
”واضح رہے کہ جو کچھ بھی اقبالؒ اور فیضؔ کے بارے میں کہیں گے وہ صرف اور صرف ہماری اپنی محسوسات ہوں گی“۔ اس کی وجہ غالباً ان کا خود کا شاعر ہونا اور اس پر آمد پر یقین رکھنا انہیں آورد کے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ چُناں چِہ یہ بات ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے علامہؒ کی فطرت شناسی کی کئی خوب صورت مثالیں پیش کی ہیں۔
مناظرِ فطرت کے بیان میں علامہ ؒ کا تخیل ابتدائی دور میں ہی اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ وہ دنیا سے دور بھاگ کر فطرت کے حسین مناظر کی گود میں پناہ لینے کے آرزو مند نظر آتے ہیں۔ نظم ”ایک آرزو“ کے درج ذیل اشعار اس کی بھر پُور تصدیق و تائید کریں گے۔
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
پھر انہوں نے نظم ”محبت“ کے اشعار پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ علامہؒ کے یہاں وہ کون کون سے اجزائے ترکیبی ہیں جن سے محبت یعنی عشق جیسی نایاب اور نا قابلِ شکست چیز متشکل ہوتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں پوری نظم درج کی ہے لیکن یہاں صرف پہلے دو اشعار اور آخری شعر ہی درج کیا جا رہا ہے۔
عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی ناآشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذتِ رم سے
قمر اپنے لباسِ نو میں بے گانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے
خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے
اقبال ؒکی فطرت سے لگاؤ کے نمونے پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فیضؔ کی شاعری سے مثالیں پیش کرکے ان کی فطرت شناسی بھی ثابت کی ہے۔ مثلاً:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
یہاں جو اصل بات بیان کرنے کی ہے وہ یہ نہیں کہ دونوں فطرت کے دل دادہ شاعر تھے بَل کہ اصل بات ان کے فطرت کو محسوس کرنے سے ہے کہ دونوں کے محسوس کرنے میں فرق کہاں تک ہے۔ پھر انہوں نے دونوں کے ہاں غمِ دوراں کے فرق کو واضح کیا ہے۔
اس ضمن میں کئی مثالیں تفصیل کے ساتھ رقم کی گئی ہیں نیزاس سلسلے میں انہوں نے نہ صرف فیض ؔکی ”سرودِ شبانہ“ کے دونوں حصے شامل کیے ہیں بَل کہ قارئین کے ذوقِ مطالعہ اور اپنے موقف کی تقویت میں ان کی مشہورِ زمانہ نظم ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“بھی شامل کردی ہے
۔۔۔ جاری ہے۔۔۔